خان، ”خان“ اور خاں


پہلے دو خانوں کا تعلق پشتونوں سے ہے؛ جب کہ آ خری خاں کا تعلق دنیائے موسیقی سے۔ کاش وہ دن بھی نصیب ہو جب پڑھ لیں کہ آخری ”خان“ [عنوان کا دوسرا خان] کا تعلق پشتونوں سے ہے اور اس کے بعد  ”خانوں“ کا یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے سات زمینوں کے اندر گہرائی میں دفن کردیا گیا ہے۔ اب صرف معمول کے خان یعنی پشتون عوام رہ گئے ہیں.

پہلے خان کو سارا جگ اور ’ساری‘ پشتون عوام جانتے ہیں۔ یہاں انگریزی والی ’ساری‘ اور پنجاب والی ’ساڈھی‘ کا تصور نہ کریں۔ دوسرے ”خان“ کی موجودگی میں معمول کے خان کے لیے انگریزی ”ساری“ حقیقت ہے۔ پنجاب  والی ’ساڈھی‘  پہ تو ابھی تک بکھیڑا ہے؛ دُکانداری ہے، پھرتیاں اور قلابازیاں ہیں۔ ستر سال کے اس بکھیڑے میں یہ پتا نہیں چل سکا کہ ”خان ساڈھا اے کہ تہاڈھا“۔ (خان ہمارا ہے، یا تمھارا)۔

چلیں دانائے موسیقی کی بات چھیڑتے ہیں۔ ’مورا یہ سیاں‘ باقی دیس میں جیسے بھی ہیں، خانوں کے دیس میں ہیں بھی اور نہیں بھی۔ جب ہوں تو ان کے ’یا قرباں‘ پہ تن من اور دھن سب قربان، اور خان لالا اس قربانی کے بدلے خاں سے استھائی اور انترا پکڑ کر ’یا قربان‘ گاتا ہوا؛ خاں اور اس کے تماشے پر صلوٰتیں برساتے برساتے گھر پہنچ کر بیوی کی گود میں ’خاں صاحب‘ بن جاتا ہے۔ صبح  ملا جان کی رات والے  خاں کے تماشے پر دنیا اور اخرت کی سزاوٗں پر استغفار اور ’مراسیوں‘ کے دوزخی ہونے کا اعتراف کرکے، اگلے روز شام کی محفل میں شریک ہونے یا نہ ہونے کا مخمصہ لیے، بے کلی میں ڈوبا، شام ہونے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔

مجھے یونس بٹ صاحب کی یہ زیادتی بھلی لگی، جب انھوں نے صدام حسین کو ’قبیلہ خاناں‘ میں شامل کرتے ہوئے ’استاد بڑے صدام حسین خان‘ کی ترکیب سے نوازا۔ اس قبیلے کے بڑے کو مخاطب کرنے کے لیے ’قبلہ‘ کہنا پڑتا ہے۔ جب کہ دوسرے والے خان یعنی خاندانی خان کو قبلہ بنانا پڑتا ہے۔ نہ بنائیں بھی تو بنے بنائے ماحول میں [جس میں عوام کا کوئی حصہ نہیں ہوتا] پشتو محاورے کے مصداق ”گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے“۔

گو کہ دوسری قوموں میں چودھری، سائیں، سردار اور نواب اس قبیل ہی سے ہیں، لیکن مجھے ان سے سروکار نہیں۔ میرا تو اپنا ”خان“ گلے پڑا ہوا ہے۔ گزشتہ ایک ہزاری[ملینئیم] سے۔ لہذا میں خود کو اس کی ’خانی‘ ہضم کرنے کی سکت سے محروم کرنے، اور اپنے گلے سے ”خان“ کا لاکٹ اتار پھینکنے پر تلا ہوا ہوں۔ لیکن ایک مجبوری آڑے آجاتی ہے کہ ان خوانین میں کبھی کبھی کچھ ”خان“ یعنی عام پشتون دکھائی دیتاہے۔

زرا کھلی آنکھ سے دیکھیں تو پتا چل جاتا ہے کہ خوانین کی بھی کچھ عوام رنگی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ خصوصاََ جدید دور میں۔ جب انھیں انتخابات لڑنا پڑتے ہیں۔ اپنی خانی کو وسعت دینی پڑتی ہے اور سب سے بڑھ کر خانی کو تو ہر حال میں برقرار رکھنا ہی ہے، ورنہ تو کوئی پاگل ہے جو خانی کو ’ملا، ’آغا‘ یا قومیت، جمہوریت اورسیاست کے ناگوار لبادے میں اوڑھ لے۔

پشتون قوم کی جس ٹرائیکا یا ترنگا یا تین ٹانگوں والی چھپرکٹ پر اس کی بے علم، بے منزل اورسسکتا وجود اوندھا پڑا ہے، اسی میں ملا  کی ٹانگ اور ڈانگ کے بعد اور آغا و پير صاحب کے پائیدانِ دم و چو سے پہلے، خان صاحب کی تدبیرِ ذرہ نوازی اور حکمتِ چلندِ عوام کا فلسفہ کار فرما ہے۔ جدید دور نے ووٹ اور تفنگ ِغیر کی فراوانی سے خان لالا کوجو پہلا اور اصل خان ہے۔ ”خان صاحب“ کے لیے کار آمد نہ بنایا ہوتا تو ملا صاحب [ان کے اپنے تلفظ میں صواحب] کب کا اس کی قبر میں ‘شنختہ’ [قبر پر جھنڈی لہرانے والی لاٹھی] ٹھونس چکا ہوتا۔ پير و آغا صاحب لواحقین کے صبر کے لیے دم شدہ پانی بھیج چکے ہوتے اور خان صاحب وارثین کو اپنے تابع فرمان ثابت کرنے کے لیے انھیں مرحوم کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین نما تنبیہہ کرچکے ہوتے۔

پشتون معاشرے میں ”خان صاحب“ کی سب سے اہم اور بڑی جاگیر، عام پشتون ہے۔ جس کو لوگ ‘خان جی’ ‘خان بھائی’ یا ‘خان لالا’ کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ عام خان جی ایثار و حلم، مروت و شفقت اور سادگی و سچائی سے سرشار، باقی دنیا کی معاملات پر حیرت زدہ اور اس کی رفتارِترقی و توانائی  دیکھتے ہوئے پر تجسس ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ نسلِ نو فکرِ نو سے لیس دنیا کی دیگر قوموں  کے قدم سے قدم ملانے کی سعی کرے لیکن۔۔۔۔۔۔

لیکن مجھے کوئی بتائے کہ ان خصوصیات سے لبریز شخص کو اگر روزانہ کی بنیاد پر آغا و پير صاحب سے دم و چو، بھوت و جنات کے کمالات اور حقیقی وجود کی نا رسائی پر لیکچر سنائے جائیں، مولانا صواحب اس کو وحشت اور  دنیا پر اس کی حکمرانی کے فرض کی پچکاری لگاتے پھریں اور ‘خان صاحب’ اس کو  اپنے اجداد کے پر فریب اورغیر ضروری تاریخِ برتری کے دیو مالائی کہانیاں سنائیں۔ اس کو  اپنی پستی و تذلیل کی وجہ  علم و حرکت کے بجائے ”اباء“ کی شمشیر قہر وغضب اور خوانین کی نافرمانی بتائے اور سونے پہ سہاگا۔۔۔ دنیا اس کی خان، ملا اور آغا کی ٹرائیکا سے جان چھڑانے کی کوشش پر اِسے واپس انھی عفریتوں کے گود میں پٹخ کر اس کی پیشانی پر جاہل، غیرمہذب اور دہشت گرد کے ٹیگ لگائے، تا کہ خود کو عالِم، مہذب اور امن کا داعی ثابت کر سکیں۔ تو پھر مجھے کوئی بتائے کہ سزاوار خان لالا ہے یا  ‘ملا  پير خان’ اور اس کی سرپرست دنیا۔

رہی بات ‘قبلہ خاں صاحب’ کی تو اس سلسلے میں دروغ بر گردنِ راوی ایک روایت ہے کہ ان میں سے ایک ٹولا طالبان کے ڈر سے کابل سے خفیہ راستوں سے بھاگ نکلا۔ کچھ تو بچ کر منزل کی جانب نکل گئے۔ جب کہ دو چار پرانے مجاہدین کے نرغے ميں آگئے۔ مجاہدین نے ان سے سوال کیا:
”تم لوگ صدر داود کے ترانے گاتے رہے، جب کمیونسٹ آ گئے تو تم ان کے بھی گیت گاتے رہے اور پھیر جب اگلی مخلوط حکومت بنی، تو بھی تم ان کے ہاں غزل سرا تھے۔ آخر تمھارا کوئی نظریہ کوئی طرف داری تو ہوگی؟“؟
خاں صاحبان نے خود کو پھنستے ہوئے پایا تو ان میں سے جہاں دیدہ گویا ہوئے:
”صاحب! ہم گانے والے ہیں، جہاں سے داد اور امداد ملتی ہے، وہیں ہم گاتے بجاتے ہیں؛ یہی ہمارا نظریہ اور طرف داری ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).