بیانیے کی بحث میں ڈھیٹ لوگوں کا گروہ


\"hashirپنجرے میں پیدا ہونے والے پرندے کو پرواز ایک بیماری لگتی ہے ۔ سچ کہا امام الیہانڈرو جودوروسکی نے۔ دوستوں کو تو ہمارا انہیں منصب امامت پر فائز کرنا بھی بیماری لگے گا کیونکہ ان کے پنجرے کے اپنے چار یا بارہ کھونٹوں کے باہر یہ خطاب حرام ٹہرتا ہے۔ سوچ پروں کے سہارے اڑتی ہے اور عقیدے کی زنجیر خواہ سونے کی ہی کیوں نہ ہو شاید کسی باغی کو پھرپھڑانے تو دے، اڑان نہیں بھرنے دیتی ۔

مکالمہ وہاں ختم ہوتا ہے اور بحث وہاں شروع ہوتی ہے جہاں اپنا نظریہ عقیدہ بن جائے اور اپنی فکر پر ایمان آ جائے ۔ پھر مکالمہ کاہے کا۔ جب جناب عامر خاکوانی صاحب یہ ارشاد فرما دیں کہ مباحث تو طے ہو چکے ۔ راستہ متعین ہے ۔ جناح کی کون سی تقریر مشعل راہ ہے اور کون سی کوڑے کا ڈھیر ، یہ وہ بتائیں گے ، مذہب کی کون سی تشریح پیا من بھائے گی اس کا اختیار بھی ان کے ہاتھ ہے ۔ اللہ کے ساتھ تعلق جو دلوں کے اندر ہے اس پر بھی رائٹسٹ ای سی جی مشین سے سطحی اور غیر سطحی گراف نکالے جائیں گے ۔ اکھاڑے میں عوام کو اللہ کا مقابل بنا کر بھی وہی پیش کریں گے ۔ اسلام کا علم اٹھائے قافلے بھی انہی کے ہوں گے ۔ موسیقی اور فلم بھی نیکی اور تقوی کے پیمانے میں تولی جائے گی۔ شباہت صالح ہونے کی نشانی مانی جائے گی۔ نظریہ بھی آپ کا ۔ شہادت بھی آپ کی اور فیصلہ بھی آپ کا تو ہم تو جہنم کے کندے ووں بھی ہیں اور یوں بھی ہیں ۔

سرسید کو کہ کل کافر ٹہرائے گئے تھے ، یاد کیجئے ۔ اپنے ایک مضمون بحث و تکرار کا آغاز کچھ یوں کرتے ہیں ۔

’جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے۔ پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھلائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے آواز نکلنی شروع ہوتی ہے۔ پھر باچھیں چر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے۔ ڈاڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں۔ منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور عنیف آواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اور اس کی ٹانگ اس کی کمر میں۔ اس کا کان اس کے منہ میں اور اس کا ٹینٹوا اس کے جبڑے میں۔ اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو پچھاڑ کر بھنبھوڑا۔ جو کمزور ہوا دم دبا کر بھاگ نکلا‘۔

اس تمثیل کو آگے بڑھا کر وہ پھر انسانوں کی تکرار پر منطبق کرتے ہیں اور وہاں بھی آخر میں بات دھول دھپے پر یوں ختم ہوتی ہے

’آستین چڑھا، ہاتھ پھیلا، اس کی گردن اس کے ہاتھ میں اور اس کی ڈاڑھی اس کی مٹھی میں لپّا دکّی ہونے لگتی ہے۔ کسی نے بیچ بچاؤ کر کر چھڑا دیا تو غراتے ہوئے ایک اِدھر چلا گیا اور ایک اُدھر اور اگر کوئی بیچ بچاؤ کرنے والا نہ ہوا تو کمزور نے پٹ کر کپڑے \"article-2624073-1DAD298700000578-707_634x420\"جھاڑتے سر سہلاتے اپنی راہ لی‘۔

اس ملک میں بھی دو بیانیے ہیں ۔ ان میں سے ایک بیانیہ چودہ صدیوں سے جامد ہے ۔ کبھی کبھی بیچ میں کسی ابن رشد ، کسی اقبال ، کسی پرویز یا کسی غامدی نے تالاب میں چند اجتہادی کنکر پھینکنے کی جسارت کی ہے پر ان کے ساتھ اس ضمن میں جو سلوک ہوا اس سے بہتوں کو کان ہو گئے ۔ اس سے پہلے کہ آپ اقبال کے بارے میں گھسا پٹا بیان دہرائیں ، جان لیجئے کہ ان کی سب سے عظیم تصنیف پر او آئی سی کے اجلاس میں باقاعدہ بحث کے بعد ستائیس اسلامی ممالک میں پابندی عائد کی گئی تھی۔ سر فرانسس ینگ ہزبنڈ کو لکھے گئے ان کے خطوط بھی پڑھ لیجئے جن میں انہوں نے ایک الگ اسلامی ریاست کے ان سے موسوم نظریے سے کلی براءت کا اعلان کیا تھا ۔ یہ بھی نہ بن پائے تو خطبہ آلہ باد کا اصل متن ہی پڑھ لیجیے گا ۔ علاج کے لئے یہ بھی کافی ہو گا ۔

خیر چھوڑیے اس بحث کو پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ ابھی بات کریں بیانیوں کی تو جناب ایک بیانیہ ہے جس کے آپ صدیوں سے مقلد ہیں اور ایک بیانیہ ہے وہ جو ہر دن علم ، شعور ، آگہی، تجربے اور دریافت کی بھٹی میں ڈالا جاتا ہے اور روز بدلتی دنیا کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی سعی کرتا ہے ۔ یہ بیانیہ آپ کا دامن پکڑ کرآپ کو پیچھے نہیں کھینچتا بلکہ آپ کو زندگی کی شاہراہ پر آگے کا راستہ دکھاتا ہے۔ یہ کسی پنجرے اور کسی کنویں میں مقید نہیں ہے اور نہ رہنا چاہتا ہے ۔ پر مسئلہ یہ ہے کہ اس کے علمبرداروں کے ہاتھ میں نہ شمشیر ہے نہ کمان نہ بندوق نہ ہی ڈنڈا اور نہ ہی ان کے سروں پر ضیاءالحقی قوانین اور قرارداد مقاصد کی ڈھال ۔ تو بیچارے ذرا زور سے بولیں تو ’سر تن سے جدا‘ سے کم پر آپ کے صالح اور متقی بیانیے کے محافظوں کا گزارا نہیں ہوتا \"beheshti\"۔

جنید حفیظ، راشد رحمان اور سلمان تاثیر کے بعد کون سا مکالمہ اور کون سی بحث ۔ آپ کا جو دل چاہے آپ کہہ سکتے ہیں ۔ آپ ڈی چوک میں بیٹھ کر لوگوں کو قتل کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں ۔ آپ شہباز بھٹی اور سورن سنگھ کو سر عام چھلنی کر سکتے ہیں ۔ آپ ملالہ کے سر میں گولیاں مار کر اسے ڈرامہ کہہ سکتے ہیں ۔ آپ لوگوں کے ایمان کا فیصلہ پارلیمنٹ سے کرا سکتے ہیں ۔ آپ اقلیتوں کو ہجرت پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ آپ مائی باپ ہیں آپ کیا کچھ نہیں کر سکتے۔ اور سچ کہا عامر صاحب کہ درمیان کا راستہ کوئی نہیں ۔ شکر ہے آپ نے یہ سچ تو بولا ۔ تو میدان کے جس سرے پر آپ کھڑے ہیں جہاں آپ ظاہری شباہت کو پیمانہ بناتے ہیں جہاں موسیقی اور فلم کو آپ گناہ ٹہراتے ہیں انہی صفوں میں آپ کے بیانیے کے محافظ بھی کھڑے ہیں ۔ کبھی وہ ممتاز قادری کہلاتے ہیں ۔ کبھی ابوبکر بغدادی ، کبھی اسامہ بن لادن اور کبھی ملا فضل اللہ ۔ آپ لاکھ ان سے دامن چھڑائیں پر بات تو آپ بھی وہی کہتے ہیں جو ان کا طرز بیان ٹہری ہے۔

\"28954-zia-1439283709-668-640x480\"

تو حضور ہم کمزور لوگ لڑیں گے بھی تو زیادہ زیادہ آپ کا گھٹنا اپنے پیٹ میں مار لیں گے ۔ اور اس کے بعد اور جوش چڑھا تو اپنا گال کھینچ کر آپ کے مکے پر جڑ دیں گے اور بالکل ہی اخیر ہو گئ تو اپنا سینہ آپ کی قرولی میں بھونک دیں گے ۔ اس سارے کا نتیجہ کیا نکلے گا آپ جانتے ہی ہیں ۔ مذہب کے ٹھیکیداروں پر جہاں انگلی اٹھانا بھی ارتداد ٹہرایا جائے وہاں کون سی بحث اور کیسی بحث ۔ جہاں ایک لفظ لکھنے سے پہلے سو دفعہ سوچنا پڑے کہ اس کے نتیجے میں تعزیرات پاکستان کی کون سی دفعہ لگے گی وہاں کیا اپنا مقدمہ پیش کریں ۔ ہمارے پاس نہ کفر کے فتوے ہیں ، نہ ایف آئی آر درج کرانے کا اختیار، بندوق اور تلوار تو دور کی بات ہے ، ہمیں تو صحیح طرح غلیل بھی چلانی نہیں آتی اور یہی حال ان سب کا ہے جو لکیر کے اس پار ہمارے ساتھ کھڑے ہیں پر سچ کہیے کیا یہی دعوی آپ لکیر کے اس جانب کھڑے لوگوں کے بارے میں کر سکتے ہیں ۔

کیا واقعی اس ملک میں مذہب پر ایک با معنی بحث ہو سکتی ہے؟ کیا مذہبی لٹریچر پر ایک تنقیدی مکالمہ ممکن ہے یہاں ۔ اس کو تو چھوڑیں کیا کوئی اسلامی قوانین پر ہی کھل کر اعتراض کر سکتا ہے۔ آپ کے پاس کھلا میدان ہے اور یہاں دو قدم چلیں تو پر خاکستر ہو جاتے ہیں ۔ پھر بھی سچ یہ ہے کہ بیانیے کے اس تقابل میں ایک غیر جانبدار ترازو میں آپ کا تول پورا نہیں اتر رہا ۔ ہم بیچارے تاہم سرسید کے الفاظ میں روز پٹتے ہیں ، کپڑے جھاڑتے ہیں ۔ سرسہلاتے ہیں پر آپ کی امید کے بر خلاف اپنی راہ نہیں لگتے ۔ روز پٹنے کے لئے واپس آ جاتے ہیں ۔ ڈھیٹ لوگ ہیں بھائی ۔ کیا کریں ۔ ہاں اگر کبھی واقعی ایماندارانہ مکالمہ کرنے کا دل کرے تو پہلے آپ دساتیر زباں بندی متروک کروائیے پھر دیکھیں گے کس کی بات میں کتنا دم ہے ۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
19 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments