سیالکوٹ کے فٹ بال ورلڈ کیپ کھیلنے کے لئے تیار ہیں
کرکٹ کے طلسم نے ہماری قوم کو اس برے طریقے سے جکڑ رکھا ہے کہ آسمان ٹوٹے یا زمین پھٹے کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ تاھم مایوسی کی اس فضا میں کرکٹ کے علاوہ کسی اور کھیل سے متعلق کوئی نہ کوئی اچھی خبر اپنی جگہ بنا ہی لیتی ہے۔ اگلے چند دنوں میں جب دنیا کی بتیس بہترین فٹ بال کھیلنے والی ٹیمیں تقریباً ایک صدی سے قائم فیفا ورلڈ کپ ٹرافی جیتنے کے لئے میدان میں اتریں گی تو ان کی تمام کاوشوں کا محور اور مرکز اس فٹ بال یا گیند کا حصول ہوگا جسے سیالکوٹ کے کارخانوں میں پاکستان کے جفا کش اور محنتی لوگوں نے تیار کیا ہوگا۔ مشینوں کے اس دور میں ہاتھ سے فٹبال تیار کرنے والی متنازع روایت تو دم توڑ چکی لیکن ان کی تیاری بہر حال انسانی مہارت کی متقاضی ہے۔
اس سال فیفا ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والا فٹ بال ٹیلی سٹار 18 کہلاے گا۔ اس میں مائکرو چپ کے استعمال کی بدولت پہلی بار فٹ بال کے شائقین ایک سمارٹ فون ایپ کے ذریے انوکھے انداز سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔
سیالکوٹ علامہ اقبال کی جنم بھومی کھیلوں کے حوالے سے ایک معروف شہر ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہاں کھیلوں کے سامان بنانے کا نقطہ آغاز وہ وقت تھا جب تقریباً ایک صدی قبل کرکٹ کھیلتے ہوئے انگریزوں کو اپنی چمڑے کی گیند کو ٹانکے لگوانے کی ضرورت پڑی۔
پھر انگریز بار بار انہی بابا جی کے پاس گیند ٹھیک کروانے آتے اور رفتہ رفتہ بابا جی نے ان کو بہتر گیند بنا کر دینا شروع کر دیں۔ یہ حقیقت ہے یا افسانہ تاہم موجودہ دور میں سیالکوٹ میں تقریباً چار لاکھ افراد اس صنعت سے وابستہ ہیں اور کھیلوں کے سامان کے حوالے سے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کر رہے ہیں۔ غالباً کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ کے نام کو استعمال کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہمسایہ ملک نے کی تھی جو اپنی موت خود ہی مر گئی۔ ابّ سیالکوٹ میں سالانہ تقریباً چار کروڑ فٹ بال بناے جاتے ہیں جس سے اربوں ڈالر کا کثیر زر مبادلہ ملک کو حاصل ہوتا ہے۔
موجودہ دور میں دنیا کی معروف ترین فٹ بال لیگز سیالکوٹ کے بنے ہوئے فٹ بال استعمال کرتی ہیں تاہم سیالکوٹ کے کو عالمگیر شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب 1982 میں اسپین میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ میں پہلی بار یہاں کے بنے ہوئے فٹ بال استعمال ہوئے۔
تاریخی طور پر1930 میں پہلے ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والے فٹ بال چمڑے سے بنے ہوئے تھے جن کو ہوا سے بھر کر تسموں سے باندھ دیا جاتا۔ 1934میں اٹلی میں ہونے والے ورلڈ کپ میں ڈکٹیٹر موسولینی نے حکم جاری کیا تھا کے تمام فٹ بال اٹلی میں تیار کیے جائیں۔ 1938 میں فرانس میں ہونے والے ورلڈ کپ میں ایلن نامی فٹبال استعمال ہوا۔ 1950 میں پہلی بار چھپے ہوئے والو والے فٹ بال کا استعمال ہوا۔ 1958 میں پہلی بار فیفا نے مقابلے کے تحت ورلڈ کپ کے لئےفٹ بال کا انتخاب کیا اور مقابلہ سویڈن کی ایک کمپنی نے جیتا۔ اس فٹ بال کی نمایاں خوبی اسکا واٹر پروف ہونا تھا۔
1962 میں چلی میں ہونے والے استعمال ہونے والے کریک نامی فٹ بال کی خوبی اس کا اٹھارہ مختلف ٹکڑوں کی مدد سے بنا ہونا تھا۔ انگلینڈ میں ہونے والا 1966 کا ورلڈ کپ فٹ بال کی تاریخ کے حوالے سے اہم تھا۔ اس سال ایک معروف کمپنی نے پچیس پینل پر مشتمل فٹ بال متعارف کروایا اور اپنی اجاراداری قائم کر لی۔ 1970 میں بتیس سفید اور
سیاہ ٹکڑوں سے بنا ہوا فٹ بال ایک دیو مالائی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس کو اس زمانے کے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔ اس کا نام غالباً ٹی وی ہی کی مناسبت سے ٹیلی سٹار رکھا گیا۔
2018 میں استعمال ہونے والا ٹیلی سٹار 18 کا نام اور ڈیزائن اسی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ 1978 میں ارجنٹائن متعارف شدہ ٹینگو نامی فٹ بال کی خصوصیت اس کا تثلیث نما ڈیزائن تھا جو ہوا میں نہایت دیدہ زیب لگتا۔ ٹینگو ڈیزائن کی مقبولیت اگلے بیس سالوں تک قائم رہی تاہم 1986 میں ہونے والے میکسیکو ورلڈ کپ میں اس کے ڈیزائن کو ثقافتی رنگ دیا گیا۔ اسی سے ملتے جلتے ڈیزائن اگلے دو ورلڈ کپ منعقدہ اٹلی اور امریکا میں چھائے رہے۔ فرانس 1998 کے ورلڈ کپ میں ٹینگو سے متاثر شدہ آخری فٹ بال متعارف کروایا گیا اس کی خصوصیت نیلے رنگ کا استعمال تھا۔ 2006 میں جرمنی میں متعارف ہونے والا فٹ بال سلائی کی بجاے تھرمل یا گرمائش کے تحت پہلی بار سیل کیا گیا جس سے یہ مکمل طور پر واٹر پروف ہو گیا۔
2010 میں استعمال ہونے والا ساؤتھ افریقہ میں جبلانی نامی فٹ بال آج تک ورلڈ کپ میں سب سے متنازعہ فٹ بال ثابت ہوا جسے کھلاڑیوں نے بے حد نا پسند کیا۔
2014 میں استعمال ہونے والے برازوکا نامی فٹ بال کی خصوصیت محض چھ پینل یا ٹکڑوں کی مدد سے تیار ہونا تھا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پہلی بار چپ سے آراستہ فٹ بال جب روس کے ورلڈ کپ کے میدانوں میں اترے گا تو کیا یہ اپنی خوبیاں منوانے میں کامیاب ہو سکے گا لیکن کیا ہی خوبصورت بات ہے کہ سیالکوٹ کے ہنرمندوں کے بناے ہوئے فٹ بال ایک ماہ تک اربوں نگاہوں کا مرکز رہیں گے۔
- خدا کی سلطنت اور ہنستی مسکراتی جاپانی لڑکی - 09/08/2020
- فرانس کی چانٹل کو پاکستانی مردوں سے نفرت کیوں تھی؟ - 08/08/2020
- آیا صوفیہ اور تیس سو گز کی تماش گاہ - 31/07/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).