ہیں سخت بہت آج کی خاتون کے حالات


\"muhammad-adil2\"

فی زمانہ خواتین جن مسائل اور مشکلات کا شکارہیں، اس کا ادراک خود خواتین کو تو ہے ہی لیکن خواتین کالم نگاروں کے کالم پڑھ پڑھ کر مردوں کی بھی ایک بڑی تعداد اسی قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگے ہیں (اللہ نا کرے کہ حضرات کو کبھی ویسے ہی جسمانی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑے)۔ خواتین کالم نگاروں اور بلاگرز کی تحاریر کا 95 فی صد مواد اؔن کے اپنے اردگرد ہی گھومتا ہے، جس میں زمانہ قبل از مسیح سے لے کر آج تک کے جدید دور کی خواتین کے گنے چنے مسائل کی ہزارداستان ترتیب دی گئی ہوتی ہے۔ آئیے ایک خاتون مصنف کی ایک چھٹی کے دن کا حال اؔن کی تحریر کے ذریعے جانتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ

ہفتے کا پورا دن (بلکہ پچھلا پورا ہفتہ) اسی سوچ میں گزرا کہ اس اتوار عورتوں پہ ہونے والے کون سے ظلم اور کون سی ذیادتی کو صفحہِ قرطاس کی زینت بناؤں۔ دفتر میں اپنی میز کے سامنے بیٹھی تھی، کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔ اسی شش و پنج میں باس کی دی ہوئی فائل کو پوری توجہ بھی نا دے سکی، کام مکمل نا ہوا۔ جب باس نے فائل کی باز پرس کی تو بہانہ بنالیا کہ آج طبیعت کچھ بوجھل تھی۔ باس مسکراۓ اور کہا، ’چلیں ٹھیک ہے، لیکن دیکھیں پیر کو فائل مکمل کر دیجئے گا۔‘ میں نے خاموشی سے سر ہلا دیا لیکن یقین جانیے میرے تو تن بدن میں آگ لگ گئی کہ باس آخر مسکرایا کیوں؟ اسے شرم نہیں آئی کہ اپنی ماتحت خاتون کی طبیعت کی ناسازی کا سن کے مسکرانے لگا۔ یقین جانیئے میری جگہ کوئی مرد ہوتا تو اسے کبھی اتنا اچھا رسپانس نا دیتا۔ ٹھرکی باس !

آج اتوار کے دن صبح ہوتے ہی، جی ہاں یہی کوئی گیارہ بجے کے قریب آنکھ کھلی تو ارادہ مصمم تھا کہ آج تو عورتوں کے حقوق پہ ایسا قلم اٹھاؤں گی جسے پڑھ کر مردوں کے بھی آنسو نکل آئیں گے۔ کمبل لپیٹے، پلنگ پہ لیٹے لیٹے ابھی کوئی پھڑکتا ہوا موضوع سوچ ہی رہی تھی کہ اماں کی چیخ و پکار سنائی دی، ’ارے منحوسو، اتوار کا دن ہے، دوپہر ہونے کو ہے، لیکن اللہ نا کرے کہ تم لوگوں اٹھ جاؤ، اللہ ہی تم لوگوں کو اب اٹھاۓ۔‘ ذرا سوچیں، اس ماحول میں، اس معاشرے میں تخلیقی ذہن کی آبیاری کیا ممکن ہے؟ یقین کیجئے اس وقت جی چاہا کہ ’عورت ہی عورت کی دشمن ہے‘ پہ ہی کچھ لکھ ڈالوں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ لوگ کیا کہیں گے اماں کے بارے میں ہی لکھ ڈالا، تو توپوں کا رخ کسی اور جانب کرنے کا سوچا۔

ابھی ناشتے (دوپہر کے کھانے) سے فارغ ہوئی ہی تھی کہ ابا نے آواز لگائی، ’آ پتر زرا میرے بازو تو دبا دے۔‘ میں نے کمرے کے باہر سے ہی کہہ دیا، ’ابا میں فارغ نہیں، کچھ لکھنا ہے۔‘ یہ سننا تھا کہ ابا دھاڑے، ’اے جوتی چک کے آواں تیرے پیچھے۔‘ میں نم آنکھیں لیے کمرے کی طرف بڑھی، آسمان کی طرف دیکھا اور صحن کی چھت پہ نظر پڑتے ہی دل سے آواز نکلی کہ ’اگلے جنم موہے بِٹیا ناکیجو ’۔ کیا فائدہ اتنی تعلیم کا، نوکری کرنے کا کہ میرا باپ میرے ساتھ یہ سلوک کررہا ہے۔ کمرے میں داخل ہونے کے کچھ لمحوں بعد آنکھوں کے آگے سے نمی کا پردہ ہٹا تو کیا دیکھتی ہوں کہ بھائی جان پہلے سے ہی ابا کے پاؤں دبا رہے ہیں۔

سہہ پہر تین بجے کا وقت ہوگا کہ میری دوست نے سیل فون پہ میسج کرکہ لینڈ لائن پہ کال ملانے کو کہا۔ میں نے اسے فون ملایا۔ سہیلی کی ساس نے فون اٹھا کر نہایت محبت سے حال چال پوچھا اور پھر میری بات کروا دی۔ جیسے ہی اس کی ساس وہاں سے ہٹی، اس بے چاری نے اپنے دکھوں بھری داستاں سنانی شروع کر دی۔ اف اللہ، جوائنٹ فیملی سسٹم کے مسائل۔ بے چاری ذیادہ کھل کے بات بھی نا کرسکی، گفتگو کے دوران معلعم ہوا کہ اس کی ساس ایک نہایت چالاک عورت ہے، جو اوپر سے تو بہت محبت پیار سے ملتی ہے لیکن پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے باز نہیں آتی۔ میری پیاری، دکھوں کی ماری سہیلی ابھی بمشکل دو سوا دو گھنٹے ہی بات کر پائی ہوگی کہ اس کی نند آدھمکی اور ضروری فون کرنے کے بہانے سے ہماری لائین کٹوادی۔

اندھا کیا چاہتا ہے دو آنکھیں، کے مصداق اب مجھے سسرال والوں کی ذیادتی پہ کالم اٹھانا تھا۔ حد ہوتی ہے ظلم کی۔ آخر کب تک سسرال والے بہوؤں پہ ظلم و ستم روا رکھیں گے؟ دو گھڑی چین سے بات بھی نا کرنے دیں گے۔ یہ تو سیدھا سیدھا دو عورتوں کے مابین آزادیِ اظہار پہ حملہ ہے۔

شام چھ بجے کے قریب کاغذ قلم اٹھایا ہی تھا کہ خالہ اور ان کی بیٹیاں آگئیں۔ یقین کیجئے کہ کزنز کے ساتھ دو تین گھنٹے تھوڑی بہت گپ شپ لگی تو کہیں جاکر تھوڑا سا ریلیف مِلا اور کچھ دیر کے لیئے توجہ بٹی ورنہ میں تو عورتوں پہ ہونے والے مظالم کا سوچ سوچ کر ٹینشن کی مریضہ ہی بنتی جارہی تھی۔ رات کے کھانے اور مہمانوں سے فارغ ہو کر سونے کے لیئۓ بستر پہ لیٹی تو اپنے آپ سے عہد کر کے سوئی کہ انشااللہ عورتوں کے حقوق کی پہچان اور معاشرے میں ان کی برابری کی حیثیت کے لیئے یہ جنگ ہمیشہ جاری رکھوں گی۔

دیکھنے والوں نے دیکھا اور پڑھنے والوں نے پڑھا کہ جب خاتون کی ڈائری کا یہ ورق شائع ہوا تو اسے اگلے چوبیس گھنٹوں میں چوبیس ہزار ویوز ملے، سوشل میڈیا پہ سینکڑوں کی تعداد میں شئیر کیا گیا اور لائکس کی تعداد تو مانو، اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہی بن گیا۔ واقعی سچ ہی ہے کہ

ہیں سخت بہت آج کی خاتون کے حالات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments