زندگی کیا ہے؟ مکمل کالم


چھٹی کا دن ہو، فرصت کے لمحات ہوں اور راوی، چناب، جہلم سب چین ہی چین لکھتے ہوں، ایسے میں بندہ فلسفے کی کوئی کتاب اٹھائے اور پڑھنا شروع کردے تو لگتا ہے جیسے زندگی کی تمام گتھیاں اس میں سلجھا دی گئی ہیں۔ زندگی کیا ہے، کیسے گزارنی ہے، مصیبتوں سے کیسے نمٹنا ہے، غم کو کیسے منانا ہے، خوشی میں شانت کیسے رہنا ہے، دولت کو کتنی اہمیت دینی ہے، سکون کیسے حاصل کرنا ہے، موت کے وقت کیا کرنا ہے۔ غرض زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جس پر فلسفے کی کتابوں میں بحث نہ کی گئی ہو۔

مجھے یہ مباحث بہت پسند ہیں، انہیں پڑھتے وقت یوں لگتا ہے جیسے زندگی کے ہر پہلو کی پڑتال کر لی گئی ہے اور اب ایسا کوئی سوال نہیں رہا جس کا تسلی بخش جواب نہ موجود ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پڑتال کے باوجود تا حال زندگی کا کوئی ایسا جامع مطلب تلاش نہیں کیا جا سکا جو انسان کو مطمئن کر سکے۔ کبھی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ زندگی جہد مسلسل کا نام ہے، وہ انسان ہی کیا جس کی زندگی جد و جہد سے عبارت نہ ہو، جانور اور انسان میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ انسان بھوک مٹانے کے علاوہ بھی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل تگ و دو کرتا ہے۔

آپ یہ بات پڑھتے ہیں اور کسی حد تک خود کو اس سے متفق پاتے ہیں کہ اچانک ایک اور صاحب کی طرف سے دلیل آتی ہے کہ زندگی کو بہتر بنانے لیے دن رات کام میں جتے رہنا اور نام نہاد کامیابی کی خاطر اپنے سے کمتر لوگوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھنا کوئی انسانیت نہیں، ایسے انسانوں اور ان جانوروں میں کوئی فرق نہیں جو شکار کی خاطر ایک دوسرے کو کاٹ ڈالتے ہیں، انسان کی زندگی کا مقصد تو دائمی سکون ہونا چاہیے، یہ تو نری حماقت ہے کہ انسان لمحہ موجود کو بھلا کر ان دیکھے مستقبل کے لیے پریشان رہے اور ہر وقت اسی سوچ میں غلطاں رہے کہ آئندہ کی زندگی مزید بہتر کیسے ہوگی۔

پھر یہ صاحب پوچھتے ہیں کہ بھلا بتاؤ تو یہ دائمی سکون کس چڑیا کا نام ہے، خوشی کیا ہوتی ہے، اطمینان کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان سوالات سے دماغ کو جھنجوڑنے کے بعد ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قلب کا اطمینان صرف اسی صورت حاصل ہو سکتا ہے جب انسان دنیا کی خواہشات سے چھٹکارا پا لے۔ بہت خوب۔ کیسی آسان بات ہے۔ دنیا وی خواہشات سے چھٹکارا پا لو اور ہمیشہ کے لیے خوش رہو! آپ اس نقطہ نظر پربھی اش اش کر اٹھتے ہیں اور مزید داد دینے کی نیت سے آگے پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اگلا فلسفی تو مزید سنکی ہے جس نے اس مکتبہ فکر کے بھی پرخچے اڑا دیے ہیں، یہ فلسفی کہتا ہے کہ یہ عالم رنگ و بو سب خواب و خیال ہے، مایا ہے، حقیقت میں کوئی بھی شے وجود نہیں رکھتی، زندگی ایک واہمہ ہے۔ چہ خوب۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی، ذرا ان حضرت کی بھی سن لیں، یہ کیا کہتے ہیں۔ یہ عملیت پسند ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ سب فلسفیانہ موشگافیاں ہیں، حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں، انسان اسی صورت میں خوش رہ سکتا ہے جب اس کی زندگی میں کوئی مصیبت نہ ہو، اور زندگی میں مصیبتوں سے چھٹکارا پانے کا ایک بڑا ذریعہ دولت ہے، بہتر ہے کہ پہلے ڈھیر ساری دولت اکٹھی کر لی جائے اور اس کے بعد کسی جزیرے پر محل خرید کر وہاں یہ فلسفے کی کتابیں پڑھ کر محظوظ ہوا جاوے۔ آپ اس نقطہ نظر پر سر دھننا چاہتے ہیں کہ اگلا فلسفی آپ کا سر پکڑ کر کہتا ہے کہ میاں کچھ ہوش کے ناخن لو، یہ کیسی زندگی ہوئی جس میں صرف دولت کمانا ہی مقصد ٹھہرا، پیسہ تو کوئی بھی کما لے، انسان اس دنیا کی ایک اعلیٰ و ارفع مخلوق ہے، انسان کا مقام دولت کمانے سے کہیں بلند ہے، انسان کو دولت سے نہیں اس کے افکار سے پرکھا جاتا ہے، آپ ظالم کے ساتھ کھڑے ہیں یا مظلوم کے ساتھ، حق کا علم بلند کر رہے ہیں یا باطل کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں، اگر آپ زندگی ان خطوط پر نہیں گزار رہے تو پھر چاہے آپ کے پاس قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ ہو آپ کی زندگی بیکار گئی۔

اب آپ نے اس نظریے پرواہ واہ کرنی تھی کہ پتا چلتا ہے کسی اور صاحب نے یہ کہہ کر زندگی کا کلیجہ نکال کر رکھ دیا ہے کہ ساری زندگی ہی بے معنی ہے، چاہے جو کچھ بھی کر لو، آخر ایک دن مرنا ہے، جس طرح بے تحاشا پیسہ کمانے کا کوئی فائدہ نہیں اسی طرح غریب کی مدد کا بھی کوئی فائدہ نہیں، آپ کچھ بھی کر لیں دنیا سے غربت، بھوک او ر ظلم ختم نہیں کر پائیں گے، آپ کی زندگی ختم ہو جائے گی، یہ سب کچھ کار لا حاصل ہے، ہم اس دنیا میں نہ کسی مقصد کے لیے آئے اور نہ ہی ہمارا کوئی عظیم مرتبہ ہے، یہ تمام خوش فہمیاں ہے جو ہم نے پال رکھی ہیں، جیسے روتے ہوئے آئے تھے ویسے ہی روتے ہوئے چلے جائیں گے، خالی ہاتھ، بنا کسی مقصد کے۔

یہاں پہنچ کے مذہب کے ایک عالم بحث میں کود پڑتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ تمام فلسفے گمراہی کی جانب لے جاتے ہیں، اس دنیا کی تخلیق کا ایک مقصد تھا، انسان کا امتحان لینا، اسے آزمائش میں ڈالنا اور یہ طے کر نا کہ آیا وہ سرکش ہے یا خدا کا تابع فرمان، انسان کے دنیاوی اعمال کی بنیاد پر ہی اس کی آئندہ زندگی کا فیصلہ ہو گا لہذا اس زندگی میں ہمارا واحد مقصد دائمی جنت کا حصول ہونا چاہیے۔ اصولاً تو یہاں بحث ختم ہو نی چاہیے مگر ہمارے فلاسفہ پھر ایک نیا پہلو تلاش کر کے سامنے لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اصل مذہب انسانیت ہے، جو انسان یہ مذہب اپنا لیتا ہے وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو جاتا ہے ، انسانیت کی خدمت ہی زندگی کی اصل معراج ہے۔ و ما علینا الا البلاغ۔

زندگی کی معنویت کی کوئی ایک تعریف کرنا ممکن نہیں، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے زندگی کا فلاں مطلب جان لیا ہے لہذا اس ایک مخصوص طریقے سے زندگی گزارنی چاہیے۔ زندگی تو ہر لمحہ رنگ بدلتی ہے، اس کا کوئی ایک مطلب نہیں، اس کے مختلف شیڈز ہیں جو ہمیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اچھے یا برے لگتے ہیں۔ جب ہم بیزار ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے زندگی بے معنی ہے، خوش ہوں تو لگتا ہے جیسے اس زندگی میں صرف رنگ ہی بھرے ہیں، بیمار ہوں تو لگتا ہے کہ موت ہی اٹل حقیقت ہے۔

کبھی لگتا ہے کہ زندگی محض محبت سے عبارت ہے، رشتے، ناتے، دوستیاں ہی اصل میں زندگی کی رونق ہیں، او ر کبھی ایسے لمحے بھی آ سکتے ہیں جب آپ کو انہی لوگوں کے بارے میں سنگدلانہ فیصلے کرنے پڑیں جن کے بارے میں آپ نے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں ہوتا۔ کبھی یہ زندگی طوفان میں سمندر کی لہروں کی مانند بپھر جاتی ہے اور کبھی صحرا کی رات کی طرح ٹھہر جاتی ہے۔ لیکن زندگی کا کوئی بھی رنگ ہو، کوئی بھی لمحہ ہو، اس کی محدودیت اٹل ہے۔ اور جو شے محدود ہوتی ہے اس کی قدر بڑھ جاتی ہے۔ زندگی میں وقت محدود ہے، وہی قیمتی ہے، سو ایک دن ہماری زندگی میں ایسا بھی آئے گا جب ہم یہ سوچ کر آہیں بھریں گے کہ کاش ہمیں غم منانے کے لئے ہی مزید وقت مل جائے۔ بقول غالب: ’نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے، بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن۔ ‘

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments