تن ھمہ داغ داغ شد (کشمیر کی کہانی ۔ حصہ 2)


 

POTA(Prevention of Terrorism Act) کے قانون کے نفاذ کے بعد ان دنوں جموں کشمیر کا لے قوانین کے تحت ہیں۔ اس قانون کے تحت کشمیر کی ساری وادی اور جموں کے علاقے کے سرحدی اضلاع پونچھ اور را جوڑی کی بیس کلومیٹر کی پٹی میں ان طاقتوں کو اجتماعی ہلاکتوں ، آتش زنی اور آبرو ریزی کی اجازت دیدی گئی ہے۔ جنہیں  شہریوں کی زندگی ، عزت اور مال کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس POTAکے نفاذ سے پہلے بھی ہندوستانی سپاہیوں کے لیے مسلمانوں کا قتلِ عام کرنا روزمرہ کا معمول سمجھا جاتا تھا۔ تاہم اس قانو ن کے بعد تو انہیں من مانی کرنے کی کھلی اجازت دیدی گئی۔

 

25ستمبر 1965کی’’سوراجیا‘‘ (Swarajia)کی اشاعت میں راجہ جی نے لکھا،

 

’’ایک قوم جو احمقانہ ترین عمل کرسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم یہ فرض کئے رکھیں کہ ہم لوگوں کو محض طاقت کے استعمال سے اپنے قبضے میں رکھ سکتے ہیں۔ اوراقوامِ عالم کو یہ دکھائے بغیر کہ ہم متعلقہ لوگوں کی مکمل رضامندی سے ان کے علاقے پر قابض ہیں، ہم ان پر اپنی حکومت اور قانون مستقل لاگو کئے رکھیں۔ یہ تو نا انصافی ہے۔ کشمیر یا اس کے کسی بھی حصے سے متعلق کوئی بھی سیاسی فیصلہ ’’حق خود ارادیت ‘‘پر مبنی ہونا چاہیے۔‘‘

کشمیر ان لوگوں کے لیے مستقل چیلنج  بنا ہوا ہے جو کشمیر اور کشمیریوں کے لیے امن چاہتے ہیں۔ کشمیر کا وہ حصہ جو بھارتی گورنمنٹ کے قبضے میں ہے۔ اب بھی ابتری کا شکار ہے۔یہاں بنیادی حقوق میں سے جس اہم ترین حق کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے وہ ہے’’جینے کا حق‘‘ مقبوضہ جموں و کشمیر کے باشندوں کے بنیادی حقوق مسلسل تعطّل کا شکار ہیں اور ان کی اہم ترین بنیادی آزادیاں سلب کر لی گئی ہیں۔

 

’’زندہ رہنے کے حق کو سلب کرنا، اذیّت رسانی، آبروریزی، قیدیوں سے توہین آمیز سلوک اور ان کی پر اسرار موتیں، جعلی پولیس مقابلے سب کچھ اپنے عروج پر ہیں۔کالے قوانین نے گویا گولی چلانے اور ھلاک کرنے کا لائسنس دیدیا ہے۔ اور شہریوں کی ذاتی زندگی مین مداخلت بد ستور جاری ہے۔سیاسی و سماجی ماہر نفسیات Ashes Nandyنے میگزین Out-lookمیں اس صورتِ حال پر جو چونکا دینے والا تبصرہ کیا ہے وہ قابلِ غور ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’نفسیاتی اصطلاح میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ کشمیری پہلے ہی بھارت سے باہر ہیں اور کم از کم ان کی  دو نسلیں باہر ہی رہیں گی۔ وقفے وقفے سے ہلاکتوں آبرو ر یزیوں، ذہنی اذیّتوں اور جسمانی اذّیت رسانی کے نت نئے انتہائی ظالمانہ طریقوں نے ان کے معاشرے کو لہو لہان کر دیا ہے اور انہیں ذہنی طور پر مفلوج اور دہشت زدہ گروہ میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے‘‘۔

 

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ الفاظ بہت سخت ہیں تو ما ہر ِ نفسیات شوبھنا سن پارسی (ShobhanaSaparsis)کی کشمیر پر رپورٹViolent Activism(یعنی پر تشدّد سیاسی سر گرمیاں)کا مطالعہ کیجئیے یہ ان لوگوں کی ذہنی حالت سے متعلق ہے جنہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تشدّد اور اذیّت برداشت کرنا پڑتی ہے۔شو بھنا نے وادی کے جو حالات بیان کئے ہیں اُن کے مطابق کشمیر ہمارا اپنا’’ابو غریب‘‘ ہے جہاں اُن جوانوں کو اذیّت پہنچانا اور ان کی توہین کرنا روز مرّہ کا معمول ہے،جن پر دہشت گردی‘‘ کا لیبل چسپاں کر دیا جاتاہے‘‘۔

 

’’ایمنسٹی انٹر نیشنل (انسانی حقوق کی عالمی نتظیم) نے بھی اصولوں کی بنیاد پر ہر قسم کی انتظامی پا بندیوں کی مخالفت کی ہے۔خود بھارتی سپریم کورٹ نے بھی شہریوں کی تمام سرگرمیوں پر انتظامی پا بندیاں لگانے کے نظام کو’’لا قانونیت پر مبنی قانون‘‘(Lawless Law)کا نام دیاہے۔ یہ وہ قانون ہے جو مقبوضہ وادی جموں کشمیر میں بڑے پیمانے پر سزا و جرم کے باقاعدہ عدالتی نظام کی جگہ لیتا جا رہا ہے‘‘۔

 

’’جرم و سزا کے تمام نظاموں نے ایسے طریقے، قوانین شہادت اور معیار روضع کئے ہیں جن کی بنیاد پر بے گناہوں کو سزا ملنے کا خطرہ کم سے کم ہو اور صرف حقیقی مجرموں کو سزا دینا یقینی بنایا جائے‘‘۔

 

’’کسی بھی حکومت کو معیار ِ انصاف کے ان طریقوں کو ، حفاظتی اقدامات کے نام پر، نظر انداز کرنے کی اجازت  ہے اور نہ ہی کسی بھی صورت شہریوں کی آزادی پر پابندی لگانا اور مشتبہ مجرموں کو الزام ثابت کئے بغیر اور مقدمہ چلائے بغیر سزا دینا قابلِ قبول ہے‘‘۔

 

آخر میں اس رپورٹ کا تذکرہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انٹر نیشنل پیپلز ٹریبونل برائے انسانی حقوق و فراہمی انصاف(International Peoples Tribunal on Human Rights & Justice)کی طرف سے BurriedEvidence(مدفون حقائق) کے نام سے پیش کی گئی ہے۔ اس کے بالکل آغاز میں کہا گیا ہے۔

 

’’بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ،بھارتی حکومت (Discipline & death)’’اپنے آپ کو منظم کرو ورنہ عوت قبول کرو‘‘ کے فارمولے کو سماجی کنٹرول کے لئے استعمال کر ہی ہے۔یہاں حکومت کا ڈھانچہ سول اور ملٹری امتزاج پر مبنی ہے۔ اس ڈھانچے کے ذریعے حکومت کرنے اور شہری آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے ایسے وسیع اور انتہائی سخت ضابطوں کی ضرورت ہے جو عوام الناس کو نفسیاتی طورپر اپنے قابو میں لانے کے کئے اپنا سماجی کر دار ادا کریں۔ ایک ’’باقاعدہ قوم‘‘ کی ریاست بنانے کے لیےبھارت کی یہ ضرورت ہے کہ وہ کشمیر کو اندرونی  طور پر اپنے ساتھ مکمل ہم آہنگ کرلے۔تا ہم وہ اس میں ناکام رہا ہے کیونکہ ایک منظم معاشرے کی تشکیل کی راہ میں وہاں پر فوجوں کی موجودگی ، پے درپے حراستیں، پر اسرار موتیں، سزائیں اورخوف کی فضا سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہاں پر موت، ماورائے قانون ہلاکتوں اور کالے قانون کے عطا کردہ اختیارات کے ذریعے ،تقسیم ہوتی ہے۔آبادی پر نفسیاتی اور سماجی دباؤ کے ذریعے ’’منظم ہو جاؤ ورنہ موت‘‘ کا پنجہ سخت کر دیا گیا ہے۔اس Discipline(تنظیم) کا مطلب ان کے نزدیک یہی ہے کہ اپنے مقصد کو فراموش کردو، تنہائی اختیار کرو اور غیر سیاسی ہو جاؤ‘‘ (یعنی اپنے حق ِ خودارا دیت کے مطالبہ سے دست بردار ہو کر غلامی کی زندگی پر قانع ہو جاؤ۔)

 

کشمیروں کے حقِ خودارادیت کی تحریک اور دہشت گردی

تاریخ ِ کشمیر کے وسیع پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات پوری دنیا پر رو زِروشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ’’تحریکِ آزادی کشمیر‘‘ بین الا قوامی قوانین کے مطابق ایک جائز اور قانونی جدو جہد ہے جو کشمیر کے باشندے اپنا حق حاصل کرنے کے لئے عرصہ دراز سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ موجودہ دور میں، بھارت کی شاطرانہ چالوں کی وجہ سے اس تحریک کا رشتہ بہت عیّاری اور چالاکی سے ’’دہشت گردی‘‘ کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ دنیا پر واضح کیا جائے کہ اس تحریک کے کوئی مذموم مقاصد نہیں  بلکہ اپنے حقو ق سے محروم قوم کی طرف سے ایسی جاری جدو جہد ہے جو وہ عرصہ دراز سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جاری رکھے ہوئے ہےاور جس کے لئے انہوں نے اپنی جان، مال اور عزتوں کی بے تحاشا قربانیاں دی ہیں۔

’’دہشت گردی‘‘ اکیسویں صدی میں ایک خاص لفظ بن گیا ہے۔ 1990ء کے عشرے میں، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد لوگ ’’آزادی‘‘ کی بات کیا کرتے تھے۔ لیکن ایک عشرے کے بعد بین الا قوامی سیاست میں اس کے لئے مخصوص لفظ ’’دہشت گردی‘‘ کا استعمال ہونے لگا۔ اب بات اس فیصلہ کن موڑ تک پہنچ گئی ہے کہ ہمارے نزدیک ’’آزادی کی تڑپ‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ کے الفاظ میں نمایاں فرق کو اجاگر کیا جانا چاہیئے۔

 

حق خودارا دیت اور کشمیر

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں لفظ ’’دہشت گرد‘‘ اس شخص کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو اپنے ’’حق خودارادیت کے حصول‘‘ کے لئے جدو جہد کر رہا ہوتا ہے تا ہم بین الا قوامی قانون میں اپنے حق ِ رائے دہی کے حصول کے لئے جدو جہد کرنا قانون  کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ یہ سمجھ لینا  چاہئے کہ کشمیری عوام کی یہ خواہش اور اس کے حصول کے لئے ان کا کوشش کرنا بین الا قوامی قانون کے عین مطابق ہے۔

شہریوں کے معاشرتی اور سیاسی حقوق کے بین الا قوامی معاہدے کے آرٹیکل 1کا آغاز اس طرح ہوتا ہے۔

’’تمام لوگوں کو حقِ خودارادیت حاصل ہے‘‘ اور کشمیری 1989ء سے اسی حق کے حصول کے لئے انتہائی کو شش کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے سرد جنگ کے خاتمے پر مشرقی یورپ کی اقوام کے خود مختاری کے اعلانات سنے ہیں اور اپنی آنکھوں سے انہیں خود مختاری اور آزادی حاصل کرتے دیکھا ہے۔ انہی سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنی جدو جہد تیز کر دی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیئے کہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جدو جہد پر کسی طرح بھی ’’دہشت گردی‘‘ کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا۔یہ بحث کرنا کہ یہ بھی ’’دہشت گردی ‘‘ ہے ایک ایسی قوم کی پاکیزہ خواہشات کی توہین ہے جو بارہ ملین لوگوں پر مشتمل ہے جو اپنے وطن میں ایسی جدوجہد کر رہے ہیں جس کے ذریعے وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ان قرار دادوں کو حقیقت کا روپ دے سکیں جن میں اُن کو اُن کا حقِ خودارا دیت دینے کے وعدے کئے گئے ہیں۔1948ء میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی یو نیورسل قرار داد کے ابتدائیے میں درج ہے۔

 

’’انسانی حقوق کو نظر انداز کرنا اور ان کی توہین کرنا ایسے وحشیانہ کاموں پر منتج ہوتا ہے جن کے ذریعے انسانی ضمیر کی پا مالی کی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک ایسے معاشرے کا قیام انسانوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس میں اُنہیں اپنے عقیدے اور گفتگو کی آزادی ہو اور جہاں وہ کسی بھی لالچ اور خوف سے آزاد رہ کر زندگی گزار سکیں‘‘۔

 

خوف سے آزاد رہ کر  زندگی گزارنے کی تمنا مقبوضہ کشمیر میں اسی طرح موجود ہے جیسے سابقہ کالو نیز اور سو ویت یونین کی مقبوضہ ریاستوں میں پائی جاتی تھی۔ البتہ ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ وہ تحریکیں کامیابی سے ہم کنار ہو چکی ہیں جبکہ کشمیری باشندوں کی اس تمنا کو عملی جامہ پہنانا ابھی باقی ہے۔

 

یہی چیز کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کو مزید تیز بنارہی ہے۔ وہ تاریخ کے جبر کا شکار ہیں کیونکہ انہیں باقی دنیا کی طرح ابھی تک اپنی قومی شناخت حاصل نہیں ہو سکی۔ بھاتی مقبوضہ کشمیر میں ظلم و تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ تو اتر سے جاری ہے اور اس کی تصدیق ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹر نیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے جاری شدہ خوفناک رپورٹس سے ہوتی ہے۔ البتہ چونکہ بھارتی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الا قوامی میڈیا کے مقبوضہ کشمیر کے اندرونی حالات تک پہنچنے  کی کامیاب پابندی ہوتی ہے لہٰذایہ متشددانہ کاروائیاں عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں لیکن ان کاروائیوں نے کشمیریوں  کے ضمیر کو یقیناً جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور جواباً انہوں نے اپنے پر ظلم کر نیوالوں کے خلاف، اپنے دفاع میں ، ہتھیار اٹھا لئے ہیں۔ کچھ لوگ اُن کے اس اقدام کو ان غیر قانونی حملوں کے دفاع کے طور پر جائز قرار دیں گے لیکن نائن الیون کے تناظر میں یہ بھی ممکن ہے کہ اُن کے اس عمل پر ’’دہشت گردی‘‘ کا لیبل لگا دیا جائے۔

 

اگر ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت کی یہ جدو جہد ’’دہشت گردی‘‘ نہیں تو ہمیں اس عجیب و غریب لفظ Terrorismکا قریبی جائزہ لینا ہوگا۔

دہشت گردی اور حقِ خودارادیت؟

 

اگر ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ کشمیریوں کی حقِ خودارادیت کی جدو جہد ’’دہشت گردی‘‘ نہیں تو ہمیں اس عجیب و غریب لفظ ’’دہشت گردی‘‘ (Terrorism)کا قریبی جائزہ لینا ہوگا تاکہ ہم ’’جدو جہد آزادی‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ کا فرق دنیا کے سامنے رکھ سکیں۔

 

لفظ ’’دہشت گردی ‘‘(Terrorism)

کی اصل یونانی مورخ زینو فان (Xenophon 431-350BC)کے ہال ملتی ہے جس نے اس لفظ کو دشمن کی آبادی کے خلاف نفسیاتی جنگی کار وائیوں کے لئے  استعمال کیا۔ گویا دہشت گردی سے مراد’’وہ کارروائی ہے جو ریاست یا اس طرح کی انتظامیہ لوگوں کے خلاف کرتی ہے‘‘

لفظ Terrorانگریزی زبان میں انقلاب فرانس کے دران اور Mazcimiline Robes Pierreکی “Reign of Terror”کے ذریعے آیا جس میں ہزاروں لوگوں کو گلوٹین کے ذریعے موت کی سزا پاتے دکھایا گیا۔

“Reign of Terror”

 

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں  لاتعدا ماورائے قانون ہلاکتیں و حشیانہ قوانین (prevention of terrorism)گم شد گیاں ، سیاسی مخالفین کی قیدو بند، زنا اور بھاری سیکیورٹی فورسز کی طرف سے تشدد یہ سب چیزیں آبادی کے انسانی حقوق کی سلب کرنے کے زمرلے  میں آتا ہے۔

اور آپ دور جدید کا Reign of Terror کہ سکتے ہیں۔

 

نائن الیون کے بعد سے لفظ ’’دہشت گردی‘‘ ان متشددانہ کاروائیون کے لئے استعمال کیاجاتا ہے جو اپنی بات زبردستی منوانے کے لئے عمل میں لائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر جب دھمکیوں سے بھر پور تشدد کیا جائے تو اسے ’’دہشت گردی‘‘ کہا جاتا ہے۔

 

اگر چہ اس کا اطلاق ان قومی اور بین الاقوامی گرپوں کے اقدمات پر کیا جاتا ہے جو تشدد اور طاقت کے استعمال سے اپنے سیاسی  و سماجی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں تا ہم  یہ لفظ ’’دہشت گردی‘‘ صرف غیر ریاستی کرداروں کے اقدامات تک ہی محدود نہیں ہے ۔بلکہ بمطابق (28CFR Section 0.85) ’’اپنے سیاسی یا سماجی مقاصد کے حصول کے لیے کسی گورنمنٹ یا سول آبادی یااس کے حصے کو دھمکانے یا مجبور کرنے کے لیے افراد اور جائیداد (املاک) کے خلاف  طاقت اور تشدد کا غیر قانونی استعمال ‘‘  دہشت گردی کہلاتا ہے۔

 

بھارتی فوج کی طر ف سے کشمیر کی سول آبادی کے جان ومال کو روزانہ غیر قانونی تشدد اور طاقت کے استعمال کے ذریعے نقصان پہنچایا جاتا ہے اور ان کے جذبۂ حریت پسندی کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فوجیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی اس بات کا واضح اظہار ہے کہ بھارتی حکومت اپنی حکمرانی بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت استعمال کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ صریحاً’’ ریاستی دہشت گردی ‘‘ہے۔

 

بھارتی سکیورٹی فورسز کے فوجیوں کی ہلاکتیں ان ہلاکتوں اور نقصانات کا عشر عشیر بھی نہیں ہے جو کشمیر کی سول آبادی ان کے ہاتھوں اٹھا رہی ہے ۔

 

بہر حال دنیا میں فوجی اور سول (آبادی) کے سب سے زیادہ تناسب اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دستاویزی ثبوتوں کی موجودگی میں، یہ کہنا جائز ہے کہ ۔۔۔۔۔ کشمیر کے لوگ اپنی موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت کے خلاف جنگ کر رہے ہیں ۔ یہ حالات ومعاملات کشمیر میں کسی تیسری طاقت نے پیدا نہیں کیے ۔ جیسا کہ بھارت پروپیگنڈا کر رہا ہے ۔ بلکہ یہ حالات اس بدترین سلوک کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں جس کی کوکھ سے ہمیشہ مظلوموں اور محکموموں کی آزادی اور حکمرانی جنم لیا کرتی ہے۔

 

بھارت کی طرف سے پاکستان پر کشمیر میں دراندازی کا الزام بہت زور وشور سے لگایا جاتا ہے  اور کہا جاتا ہے کہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز ان گروپوں نے کیا جو پاکستان کی طرف سے لائن آف کنٹرول عبور کرکے بھارت میں دہشت گردی کے لیے داخل ہوتے ہیں ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک پاکستان کے وجود میں آنے سے 16سال (سولہ سال) پہلے 1931 میں شروع ہوئی تھی۔

 

اگر کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کی تحریک کو سرحد پار پاکستانی علاقے ہی کے دہشت گرد منظم ومتحرک کرتے ہیں تو پھر کشمیر میں سول آبادی کے خلاف ملٹری آپریشن کی کیا ضرورت ہے؟؟ اور جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے ان ’’مٹھی بھر دہشت گردوں ‘‘ کے خلاف جو ہر چند ہفتوں کے بعد ’’سرحد پار ‘‘ سے آتے ہیں۔ کارروائی کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں ’’دس لاکھ فوج‘‘ کو متعین کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟؟؟

 

حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کشمیری نوجوان نسل تھی جس نے مشرقی یورپ کے انقلابات کو دیکھنے ہوئے ، اپنے اندر حوصلہ اور ہمت پیدا کرکے 1989 میں مسلح ’’جدوجہد ِ آزادی‘‘ کا آغاز کیا۔

 

تحریک ِ حق خود ادارادیت اور کشمیر کی نوجوان نسل

 

          حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کشمیر ی نوجوان نسل ہی تھی جس نے مشرقی یورپ کے انقلابات کے بعد اپنے اندر ہمت اور حوصلہ پیدا کرکے 1989میں مسلح جدوجہد آزادی کا آغاز کیا۔

          دوسری طرف بھارتی حکومت تھی جس نے اس تحریک کو طاقت کے ذریعے کچل دینے کی اپنی سی کوشش کی۔ ساتھ ہی ریاست میں انتخابات کا جعلی ڈرامہ بھی رچایا گیا ۔ جس نے تحریک یعنی ’’تحریک خودارادیت‘ کو تیز کرنے کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

 

’’نائن الیون ‘‘اور لفظ ’’دہشت گردی‘‘

 

امریکہ پر نائن الیون کے حملوں کے بعد بین الاقوامی برادری اس بات پر متفق ہوگئی ہے کہ دہشت گردی کے سرخیلوں کو شکستِ فاش دی جائے۔ ایسے ’’دہشت گرد‘‘ جو اپنے ایسے مقاصد کے حصول کے لیے ، جنہیں ان کی اپنی آبادی کی مدد بھی حاصل نہیں ہوتی، بلا امتیاز معصوم لوگوں پر حملے کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی دہشت گردی کے خلاف اقدامات انتہائی ضروری ہیں تاکہ ہم دنیا میں امن اور تحفظ کی فضا قائم کرسکیں۔

 

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرار داد 1566

          سیکیورٹی کونسل کی دہشت گردی کے خلاف جدید ترین قرار داد 1566 جو 18اکتوبر 2004 میں منظور ہوئی کے مطابق

’’اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ دہشت گردی کی تمام صورتوں کا مقابلہ کیا جانا انتہائی ضروری ہے اور اس کے لیے ہر قسم کے طریقے اور ذرائع استعمال کئے جانے چاہیئں۔‘‘

لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ قرار داد ’’ریاستوں کو متنبہ بھی کرتی ہے کہ

’’انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ’’دہشت گردی‘‘ جسے وہ ’’دہشت گردی‘‘ کہتے ہیں ، واقعی بین الاقوامی قوانین کے تحت ’’دہشت گردی‘‘ ہی کے زمرے میں آتی ہے؟ دوسرے اس کے خلاف جدوجہد کرنے اور لڑنے میں وہی ذرائع استعمال کئے جائیں جو بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہوں خاص طور پر بین الاقوامی انسانی حقوق ، مہاجرین اور انسانیت کے تحفظ کے قوانین کے عین مطابق‘‘۔

 

بھارت اور اس کا کالا قانون POTA

دہشت گردی کے سدِ باب کا ایکٹ (Prevention of Terrorism Act)

بھارتی حکمران دہشت گردی کے خطرے کی آڑ میں کشمیری مسلمانوں پر مصیبتوں کے پہاڑ ڈھائے ہوئے ہیں اور انہیں ان کے تمام تر انسانی حقوق سے محروم کئے ہوئے ہیں۔ ’’دہشت گردی کے سدِ باب کا ایکٹ‘‘ کسی بھی سیاسی مظاہرے کو ’’دہشت گردی کی کاروائی ‘‘ قرر دینے کی تائید کرتا ہے ۔ کیونکہ اس طرح وہ ’’ اظہار رائے کی آزادی‘‘ کو براہِ راست اپنا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ’’آزادی اظہار‘‘ کے اس حق میں اپنی معلومات یا اپنے کسی بھی قسم کے خیالات کا بلا لحاظ سرحد دوسروں سے تبادلہ خیال کرنا خواہ زبانی وتحریری  واشاعتی طریقے سے ہو یا کسی دوسرے مواصلاتی ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے ہو یا آرٹ کی صورت میں (آرٹیکل 19شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ/میثاق )

          یہ ایکٹ شہادت بالجبر (یعنی قید کی حالت میں گواہی ) کو بھی تسلیم کرنے کی اجازت دیتا ہے اور اس بات کی بھی کہ اس شہادت بالجبر کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی بنیاد پر سخت ترین سزاؤں کے لیے قانون سازی کی جائے۔

 

گویا بھارت کا کالا قانون

          اقوام متحدہ کے کنونشن کی ان دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے جو صریحاًایسےمتشدد وظالمانہ

غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک یا مخالفین کی قید وبند جیسے اقدامات کی مخالف ہیں۔ بھارت کے بقول ’’وہ سرحد پار کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے ایسے اقدامات اقوام متحدہ کے قانونی چارٹرکے متن اور اس کی روح کے بالکل مخالف ہیں۔ اور (بظاہر) ایک جمہوری قوم ہونے کی حیثیت سے بھارت کو یہ بالکل زیب نہیں دیتا کہ وہ کشمیریوں کی حقِ خودارادیت کی کھری اور اصلی جدوجہد کو بین الاقوامی دہشت گردی کی تحریک قرار دے۔

 

سلامتی کونسل کا ریزویشن 1566 اس بات پر زور دیتا ہے کہ تہذیبوں کےد رمیان افہام وتفہیم کے لیے ڈائیلاگ پر زور دیا جائے ۔ تاکہ مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان تصادم ، غیر حل شدہ علاقائی تنازعات اور پوری دنیا کے وہ تمام تر مسائل جن میں ترقیاتی منصوبے بھی شامل ہیں ، سب کا حل تلاش کیا جاسکے۔ اور اسی گفت وشنید کے ذریعے بین الاقوامی طور پر باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ممکنہ طور پر آگے بڑھایا جاسکے۔

 

          یہ بات بالکل صاف ہے کہ ’’تحریک خودمختاری‘‘ اور ’’دہشتگردی‘‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ایسی ’’تحریک ِ حق ِ خودارادیت‘‘ ، جیسی کشمیر میں جاری ہے اور جو بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے اسکو ’’دہشت گردی‘‘ کے تناظر سے الگ کرکے، ایک قوم کی ’’حقِ خودارادیت‘‘ کی جدوجہد کے طور پر دیکھنا علاقائی سالمیت کی ضامن ہے اور اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد ملے گی۔

حصہ اول؛

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).