گل خان انضمامی کے نام آخری خط


پیارے گل خان! فاٹا کے علاقے کو ریاست پاکستان نے پختونخواہ صوبے میں ضم کردیا ہے- ہماری یہ خواہش تھی کہ جیسے صوبہ سرحد کو پاکستان میں ضم کرنے کیلئے، صوبے کی منتخب اسمبلی موجود ہونے کے باوجود، یہاں کے باسیوں سے ریفرنڈم کے ذریعے پوچھا گیا تھا، ویسی ہی عزت تمہیں بھی دی جاتی- بہرحال، ریاست پاکستان نے اگر اپنی انگوٹھا چھاپ اسمبلی کے ذریعے راتوں رات آپ کو ایک صوبے میں ضم کر دیا ہے تو یہ بھی کوئی کفر نہیں ہو گیا-

ہم دعاگو ہیں کہ خدا اس انضمام کو فریقین کے لئے خیر وخوشحالی کا سبب بنا دے- تاہم، ہمارے اس آخری خط کو اپنے پاس محفوظ کرلینا کہ جب تمہیں ذہنی بلوغت نصیب ہوگی تو اس کے مندرجات سمجھنا مفید ہوگا-

پیارے گل خان! برطانیہ کے زیر انتظام متحدہ ہندوستان کے شمال مشرق میں، برطانیہ کے”زیرسایہ” ایک خود مختار ریاست کشمیر نامی ہوا کرتی تھی- اسی طرح شمال مغرب میں برطانیہ کے”زیر معاہدہ” ، تمہارا آزاد قبائل کا علاقہ ہوا کرتا تھا- جیسے تمہارے قبائل کے اپنے قانونی”مشران” تھے، ویسے ہی کشمیر کا “مشر” اس کا قانونی راجہ ہری سنگھ تھا- آزادی کے وقت، کشمیرکے “مشر” نے اپنا کشمیر، انڈیا کو بیچ دیا تھا مگر تمہارے “مشران” نے اپنا علاقہ، پاکستان کو نہیں بیچا تھا بلکہ اسی پرانے معاہدے کی تجدید کی تھی-

کشمیر کے راجہ کے فیصلے کے بعد، اسی کشمیر میں عام انتخابات بھی ہوئے جس میں کشمیر کی متفقہ جمہوری نمائندگی، شیخ عبداللہ کی جماعت کو ملی- جموں وکشمیر کی اس نمائندہ پارلیمنٹ نے بھی انڈیا کے ساتھ انضام کی توثیق کردی مگر پاکستان نے اس سب طریقہ کار کواس لئے تسلیم نہیں کیا کہ کشمیری لوگوں سے استصواب رائے کے ذریعے ہی ان کے مستقبل کے بارے میں پوچھا جائے-

پیارے گل خان! آج جو ریاست پاکستان نے تمہارے آزاد علاقے کو بلا کسی عام استصواب رائے کے، محض کٹھ پتلی پارلیمنٹ کے ذریعے پختونخواہ میں ضم کردیا ہے، اس کے بعد کوئی ذی شعور کم ازکم کشمیر پہ انڈیا کے قبضے کو غاصبانہ قرار نہیں دے سکتا- حیرانی کی بات یہ کہ جموں کشمیر کے راجہ اور اسمبلی کے انڈیا کے ساتھ الحاق کے فیصلوں کے باوجود، انڈیا نے ان کو یو-پی صوبہ میں ضم نہیں کیا بلکہ ایک الگ صوبہ کا سٹیٹس دیا ہے- کاش کہ اتنی عزت ہی تم کو یہاں دی جاتی-

پیارے گل خان! کچھ عقل کے اندھے تمہیں بہکاتے ہیں کہ آج سے پہلے فاٹا پرجو فیصلے مسسلط کئے گئے کیا اس کے لئے بھی کبھی ریفرنڈم ہوا تھا جو اب اس کا مطالبہ کیا جا رہا ہے؟

دیکھو، کسی زورآور کے زبردستی مسلط کردہ فیصلے کا تو کوئی علاج نہیں (چاہے وہ پاکستان کی طرف سے فاٹا پر ہو یا امریکہ کی طرف سے پاکستان پر) مگر اسکی تحسین بھی نہیں کی جاسکتی- جہاں تک ہمارے ریفرنڈم مطالبے کا تعلق ہے تو اس کے لئے یہی وقت موزوں ترین تھا- پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار، کسی حکومت نے فاٹا کے مستقبل کے بارے میں ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی جو گذشتہ تین سال سے ہر ایجنسی میں خودجاتی رہی-( اسکی رپورٹ میں بھی انضمام اور صوبہ کے دونوں آپشن رکھے گئے تھے)- پھر فاٹا کے مستقبل کے مسئلہ پر ہی، ہر ایجنسی کے مشران پر مشتمل ایک گرینڈ جرگہ بنایا گیا تھا جس نے سات سال قبل اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی تھی-اس میں پاکستان کی موجودہ سب سیاسی پارٹیوں نے شرکت کرکے، اس جرگہ کوفاٹا کا مجاز نمائندہ تسلیم کیا تھا- توپیارے گل خان، جب فاٹا کے سٹیٹس بارے تاریخ میں پہلی بار، حکومتی اور پرائیوٹ سطح پر اتنی بڑی نقل وحرکت ہو رہی تھی تو یہی وقت تھا نہ ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے کا، اور کون سا وقت ہوتا؟-

اوراگرنون لیگی حکومت اپنے پانچ سال کے عرصے میں کسی فیصلے تک نہیں پہنچ سکی تھی تو اس کے آخری پانچ دن میں ایسی کیا قیامت آگئی تھی کہ پارلیمنٹ پہ لعنت بھیجنے والے لوگ بھی بھاگم بھاگ اجلاس میں پہنچے اور ایک دن میں فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ کر لیا؟-

ہمیں حیرت، ان دانشوروں پر نہیں بلکہ گل خان تم پر ہے جو اس نکتہ پر سر دھنتے ہو کہ فاٹا کی آبادی 50 لاکھ ہے جولاہور سے بھی کم ہے، تو اسکو صوبہ کیسے بنایا جاتا؟ کس چالاکی سے فاٹا کی آبادی کا لاہور سے موازنہ کیا جاتا ہے- اسی ریاست پاکستان نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے ،صرف 40 لاکھ آبادی والے آزاد کشمیر کو الگ ملک کا سٹیتس دے رکھا ہے-وہاں تو ان دانشوروں کولاہورکی آبادی سے موازنہ نظر نہیں آتا؟-

کبھی کہا جاتا ہے کہ فاٹا کے لئے سات قومی سیٹیں حق ہی نہیں بنتی تھیں بلکہ اسکی آبادی کے لحاظ سے دو ہی کافی ہیں-دراصل، ایسے لوگ فاٹا کو، یا تو ریاست پاکستان کا قانونی جزو سمجھتے ہیں یا پھر پاکستان کا خیراتی یا طفیلی حصہ سمجھتے ہیں-

 لو اس پہ ایک کہانی سنو!

گاؤں میں” چوہدری بوٹا” کی حویلی کے پچھواڑے،”احمد خان” کا کچا سا گھر تھا مگر یہ گھر اس کا ذاتی گھر تھا- نہ تو احمد خان چوہدری کا مزارع تھا نہ اس کا گھرچوہدری کی جاگیر میں شامل تھا- چوہدری جانتا تھا کہ احمد خان سادہ آدمی ہے، اس سے بنا کر رکھی جائے تو وہ اس کی حویلی کی حفاظت بھی کرے گا- پس چوہدری، ہرسال اپنے مزارعوں کو گندم کی اگر ایک بوری دیا کرتا تو احمد خان کے گھر دو بوری بجھواتا تھا-اس کے بدلے، وہ احمد خان کے پاس اپنے قیمتی زیورات اور”حقیقی اثاثے” بھی رکھوایا کرتا اورگاہے، احمد خان کو اپنا مفت کا باڈی گارڈ بنا کر دشمن سے بھی لڑا دیا کرتا- احمد خان کی وفات کے بعد، اسکا لڑکا گل خان اتنا بے وقوف نکلا کہ وہ دو بوری گندم کو چوہدری کا احسان سمجھنا شروع ہو گیا- پھر ایک دن چوہدری نے اسے کہا کہ تمہاراگھر بہت تنگ سا ہے، کیوں نا ماجھے گامے کے گھر کی طرح، تمہارے گھر کی دیوار ڈھا کر اسےحویلی میں شامل کرلیں تاکہ تم بھی بڑا صحن انجوائے کرو- خوشی کے مارے، گل خان یہ بھی بھول گیا کہ اس کا گھر، ماجھے گامے کی طرح، چوہدری کی ملکیت نہیں تھا-

پیارے گل خان، یہ کہانی تمہیں ابھی سمجھ نہیں آئے گی، اس لئے اس خط کو محفوظ رکھنا- البتہ صوبے کےانضمام پہ تمہاری فاتحانہ اچھل کود ہضم نہیں ہوتی- اتنا تو تم کو بھی پتہ ہے کہ انضمام کا یہ فیصلہ، تمہارے کسی سیاسی لیڈر نے نہیں بلکہ “کسی اور” نے کیا ہے- اگر تم ہمیں یہ بتاتے کہ بھائی، مجھے “بوٹوں” نے اتنا لتاڑ رکھا تھا کہ ان سے نجات کا یہی فوری آپشن نظر آیا توہم بھی تمہاری اس مجبوری کو سمجھتے ہوئے تمہارے فیصلے کی تائید کرتے- مگر اس مجبوری کے فیصلے کو اپنی پارٹی کی فتح سمجھنے والوں کی عقل پہ ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان پارٹی لیڈران میں ذرہ برابر”پشتون ولی” ہوتی تو انہوں نے جس جرگہ کو قبائل کا نمائندہ مانا تھا (اوروہ جرگہ والے ابھی زندہ ہیں)، ان سے ضرور مشورہ کرتے-

یاد کرا دوں کہ سلیم صافی نے الگ صوبہ بنانے میں 8 ٹکنیکل مسائل ذکر کئے تھے- ان سب مسائل کا نکتہ وار تفصیلی جواب خاکسار نے ایک سال پہلے سے دے رکھا ہے جس کے جواب الجواب کی کسی کوابھی تک توفیق نہیں ہوئی- اب گل خان سے لوگ پوچھتے ہیں کہ الگ صوبہ بننے میں کیا فائدہ ہوتا؟ اور گل خان کی عقل میں یہ بھی نہیں آتا کہ اگر صوبہ بننے میں فائدہ نہیں ہوتا تو پاکستان کا ہرعلاقہ اپنے لئے الگ صوبہ کا مطالبہ کیوں کرتا ہے؟

گل خان پوچھتا ہے کہ انضمام میں مجھے کیا نقصان ہوگا؟- طوالت سے بچنے فقط ایک بات بتا دیتا ہوں تاکہ سند رہے اور کام آئے-

پاکستان کی وفاقی ملازمتوں اور یونیورسٹیوں میں ہر صوبے کے لئے آبادی کے تناسب سے مخصوص کوٹہ رکھا گیا ہے- فاٹا کی پسماندگی کے پیش نظر، اس کا الگ سے کوٹہ مقرر تھا (دوبوری گندم)- اب انضمام کے بعدیہ ہوگا کہ اگر پنجاب کی یونیورسٹیوں میں پختونخواہ کی پہلے 20 سیٹیں تھیں اوراب مثلاً 25 ہو جائیں گی مگر تعلیمی معیار کے فرق کی وجہ سے ان سب سیٹیوں پر پشاور، مردان کے لڑکے ہی قابض ہوجائیں گی- یہی حال وفاقی ملازمتوں کا ہوگا-

بہرحال، فاٹا انضمام بارے پاکستان کی”آئین ساز اسمبلی” بھی بغیر ریفرنڈم کے فیصلہ کی مجاز نہیں تھی جبکہ موجودہ اسمبلی تو فقط “قانون ساز” اسمبلی ہے- ہوسکتا ہے اس وقت کچھ عالمی طاقتوں کو پاکستان کی ضرورت ہو تو اس معاملہ پہ کوئی اعتراض نہ اٹھایا جائے لیکن غلطی ہمیشہ بچے جنا کرتی ہے- ہم چاہتے تھے کہ جیسے باقی مہذب دنیا میں، فاٹا جیسے مبہم قانونی حیثیت کے علاقوں بارے ریفرنڈم کیا جاتا ہے، ویسا ہی یہاں بھی کیا جاتا- اس ریفرنڈم کے بعد اگر گل خان،خود ہی انضمام کا فیصلہ کرلیتا تو ہم اسکی یہ بیوقوفی قبول کرتے- (بے وقوفی اس لئے کہ پاکستان میں باقی صوبے بنانے میں جغرافیائ مسائل آڑے آئیں گے جب کہ یہ علاقہ تو بنا بنایا صوبہ ہے- سرائیکی صوبہ میں ڈیرہ اسماعیل خان کے پختون اور ہزارہ صوبہ میں بٹگرام کے پختون کیوں شامل ہونگے؟)

 مکدی گل یہ ہے کہ اگر تھانیدار ریاستی طاقت کی بنا پر مجھے بے گناہ زیرحراست میں لے لے تواسکی اتھارٹی تسلیم کرنے کے باوجود، میں اس کے فعل کو جائز اور مفید سمجھنے پر تیار نہیں ہوں- باقی گل خان کی اپنی مرضی ہے-

والسلام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).