لاہور کے نزدیک یہ کھنڈرات کیسے ہیں؟


مغلیہ دور میں یہاں ایک بڑا پل بنانے کی کوشش کی گئی، حکام محکمہ آثار قدیمہ فوٹو: فائل

 بلند و بالا اورخوبصورت عمارتوں کو اپنے دامن میں سمیٹے لاہور کے پہلو میں گہرے کھنڈرات اور ویرانوں کا ایسا سلسلہ بھی ہے جسے دیکھ یقین نہیں آئیگا کہ یہ بھی داتا کی نگری کا ہی حصہ ہے۔

لاہور رنگ روڈ محمود بوٹی انٹرچینج کے قریب کئی کلومیٹر پر پھیلے یہ کھنڈرات دریائے راوی کے خشک دامن میں موجود ہیں، یہاں کبھی دریا بہتا تھا لیکن آج یہاں خطرناک کھنڈرات،گہری کھائیاں، جنگلی بوٹیاں اورخوفناک جھاڑیاں ہیں۔

لاہور شہر میں بلند و بالاعمارتوں، پلوں اور انڈر پاسزکی تعمیر کے لئے اس علاقے سے اس قدر ریت اور مٹی اٹھائی گئی ہے کہ دریا کا دامن خوفناک کھنڈرات کی شکل اختیار کر گیا جہاں اب ہزاروں چیلوں، گدھوں اور خطرناک جانوروں کا بسیرا ہے، مقامی لوگ رات کے وقت یہاں سفر کرتے ہوئے ڈر محسوس کرتے ہیں دن کو بھی یہاں سے گزرتے ہوئے بھوکی چیلیں اور گدھ آپ کا استقبال کرتی ہیں۔

ان کھنڈرات اور ویرانوں میں دن کے وقت مقامی چرواہے مویشی چراتے اور بچے جھاڑیوں سے جنگلی پرندے پکڑتے نظر آتے ہیں، ایسے لگتا ہے جیسے یہ کوئی پہاڑی سلسلہ ہے جسے اب کھیتی باڑی کے قابل بنایا جارہا ہے، کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ علاقہ آسیب زدہ ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگ یہاں کا رخ نہیں کرتے ہیں، چرواہوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں سے اکثر پرانے مٹی کے برتن ،کھلونے اور سکے ملتے رہتے ہیں۔

ان کھنڈرات کی بناوٹ بتاتی ہے کہ یہاں کوئی بہت بڑا قدیم پل تھا جو دریائے روائی میں بنایا گیا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ دریا کی ریت نے اسے اپنے دامن میں چھپا لیا اورکھدائی کی وجہ سے یہ کھنڈرات سامنے آئے ہیں، یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ یہاں کوئی سرائے تھے جو سیلاب اور دریا کے پانی میں ڈوب کربرسوں نظروں سے اوجھل رہی، تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دریائے راوی اس وقت لاہور کے شاہی قلعہ کے قریب سے گزرتا تھا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سرائے دریا کے اندر بنائے گئے تھے۔

ان کھنڈرات کی حقیقت سے صوبائی محکمہ آثارقدیمہ کے حکام کا کہنا ہے مغلیہ دور میں یہاں ایک بڑا پل بنانے کی کوشش کی گئی تاکہ افغانستان ، ہندوستان کے شمالی علاقوں سے لاہور میں آنے والے یہاں سے داخل ہوسکیں، تاہم یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی ، یہاں موجود آثار پلوں کے لئے بنائے گئے بڑے بڑے ستونوں کے ہیں، تاہم ان پلوں کے اوپرکاحصہ کہاں گیا اس بارے محکمہ آثارقدیمہ کچھ بتانے سے قاصر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).