ساس بھی کبھی بہو تھی


وہ تیز تیز قدموں کے ساتھ دریا کی ساحلی پٹی کی جانب بڑھ رہی تھیں. یہ صغرا خالہ یہاں کیا کر رہی ہیں اور تیز تیز قدموں کے ساتھ دریا کی جانب کیوں بڑھ رہی ہیں. میں منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگا. میں نے بچاؤ بند پر بیٹھے بیٹھے صغرا خالہ کو آواز لگائی. میں اتنی دوری پر نہ تھا کہ میری آواز صغرا خالہ تک نہ پہنچ سکے لیکن باوجود اِس کے صغرا خالہ سنی ان سنی کرکے مسلسل تیز تیز قدموں کے ساتھ آگے کی جانب بڑھتی جارہی تھیں. میں نے اچانک خطرے کو محسوس کیا اور فوراً صغرا خالہ کی جانب دوڑا اِس سے پہلے کہ صغرا خالہ گہرے پانی میں اترتیں میں نے اُنکا بازو پکڑ کر زور سے پیچھے کی جانب کھینچا. یہ آپ کیا کرنے جارہی ہیں خالہ؟ بجائے اِس کے وہ میری کسی بات کا جواب دیتیں اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے. میں نے انھیں خشکی پر لیجاکر اونچے ٹیلے پر بٹھا دیا. کیا بات ہے خالہ آپ اِس طرح رو کیوں رہی ہیں. گھر میں سب ٹھیک تو ہے ناں. وہ میرے کسی سوال کا جواب نہیں دے رہی تھیں بس مسلسل روئے جارہی تھیں.
حامد نے کچھ کہا آپ کو؟ نام نہیں لو اُس کا میرے سامنے مر گیا وہ میرے لیے میں اُس کی کچھ نہیں لگتی. خالہ نے حامد کا نام سنتے ہی اپنی چپ توڑی اور اپنے اکلوتے بیٹے کو کوسنے لگیں. کیا ہوا خالہ آپ تو حامد سے بےپناہ محبت کرتی ہیں امجد خالو کے انتقال کے بعد آپ نے تن تنہا بڑی محنت سے پال پوس کے بڑا کیا اُسے اچھی تعلیم دلوانے اور بہتر پرورش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور حامد بھی آپ کی فرمانبرداری میں کسی سے پیچھے نہیں محلے والے تو آپ ماں بیٹے کی مثالیں دیتے ہیں. ابھی دو ماہ پہلے ہی تو آپ نے اُس کی دوھوم دھام سے شادی کی ہے. آپ نے خود ہی اُس کا رشتہ طے کیا اور اپنے لیے کسی اپسرا سے کم بہو ڈھونڈ کر نہیں لائیں. پھر اچانک کیا ہوا کہ آپ اِس طرح کا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئیں.
میرے اِن سوالوں سے صغرا خالہ مزید زاروقطار رونے لگیں. سب ختم ہوگیا بیٹا. چھین لیا اُس کلموہی نے مجھ سے میرا بیٹا. میرے بیٹے کو مجھ سے ہی بدظن کردیا. اور وہ جورو کا غلام میرے سارے زندگی کے لاڈ پیار کو بھلا کر میری پرورش کا یہ صلہ دیا کہ آج اُس کلموہی کے پیچھے مجھ سے نافرنانی پر اتر آیا. اب حامد میرا نہیں رہا چھین لیا اُس ڈاکن نے مجھ سے میرا بیٹا. مجھے پتا ہوتا بیٹا شادی کے بعد اِس طرح بدل جائے گا تو میں کبھی اُس کی شادی نہ کرتی. میری تو کوئی فکر ہی نہیں ہے اُسے رات دن بیوی کی غلامی میں لگا رہتا ہے. ساری کمائی بیوی پر لٹاتا رہتا ہے. روز روز گھومنا پھرنا شاپنگ کرنا بازاری کھانے کھانا گھر کو تو سرائے خانہ سمجھ لیا ہو جیسے.
خالہ دیکھیں بات تھوڑی سمجھنے کی ہے میں یقین سے کہتا ہوں بات کو اگر احسن طریقے سے سمجھ لیا جائے تو کافی حد تک مشکلیں آسان ہوسکتی ہیں. خالہ یاد کریں وہ دن جب آپ کسی کے گھر بہو بن کر گئی تھیں. یاد کریں اُن خوابوں کو جو آپ نے اپنے نئے گھر میں جانے سے پہلے سجائے تھے یار کریں اُن لمحات کو جب آپ کے یہی خواب یہی سپنے سسرال میں موجود آپکی ساس کی جانب سے آپ کو کلموہی کہنے کے باعث پل بھر میں ٹوٹ کر چکنا چور ہو گئے تھے. یاد کریں اُس وقت کو جب آپ کی ساس نے اپنے بیٹے سے زندگی بھر کی پرورش کا صلہ مانگا تھا اور آپ کے زندگی بھر ساتھ چلنے کا وعدہ کرنے والے شوہر نے آپ کی خواہشات کا گلا گھونٹ کر اپنی ماں کی زندگی بھر کی تپسیا کے عویض فرمانبرداری نبھائی تھی تو اُس وقت آپ کے دل پر کیا گزری تھی. یاد کریں خالہ اور مجھے بتائیں اُس وقت ایک ماں اُسکی بیوی سے اُسکا شوہر چھین رہی تھی یا ایک بیوی ایک ماں سے اُس کا بیٹا چھین رہی تھی.
یاد رکھیں خالہ والدین کا فرض ہے اولاد کی بہتر پرورش کرنا انھیں اچھی تعلیم وتربیت دینا معاشرے میں ایک اچھا مقام دلانا. اور جب اولاد اپنے پیروں پر کھڑی ہوکر اِس قابل ہوجائے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکتے ہوں تو پھر والدین پر لازم ہے کہ انھیں آزاد کردیں. انھیں اپنی زندگی خود جینے دیں اُنکے معمولاتِ زندگی میں دخل اندازی نہ کریں. اب انھیں اپنی فیملی بنانے دیں تاکہ وہ بھی اپنی آنے والی نسلوں کی پرورش ایک آزاد ماحول میں رہتے ہوئے مثبت انداز میں کرسکیں.
میری باتیں سن کر صغرا خالہ پر جیسے سکتہ طاری تھا. اُنکی آنکھیں خشک ہوچکی تھیں. اُنکے پاس میرے کسی سوال کا کوئی جواب نہ تھا. وہ اپنے ماضی میں مکمل کھو چکی تھیں. کچھ دیر بعد وہ مجھ سے مزید مخاطب ہوئے بغیر خاموشی سے اُٹھیں اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگئیں. شاید انھیں میرے سوالوں کے جواب تلاشتے تلاشتے اپنے ہر سوال کا جواب مل چکا تھا.
یہ ایک حقیقت ہے ساس کبھی ماں نہیں بن سکتی اور نہ بہو کبھی بیٹی کا ربتہ پاسکتی ہے. کیونکہ دنیا میں ہر رشتہ اپنے نام کے ساتھ اپنی ایک پہچان اہمیت اور جداگانہ حیثیت رکھتا ہے. خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جب ہم رشتوں کو ریپلیس کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتائج مثبت نہ آنے پر حقیقی رشتوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں. ساس اگر اِس بات کو کبھی نہ بھولے کہ وہ بھی کبھی کسی کی بہو تھی تو میں سمجھتا ہوں دنیا میں اپنائیت احساسِ ہمدری اور شفقت سے بھرپور ساس بہو کے رشتے سے بڑھ کر کوئی دوسرا رشتہ نہیں لیکن بات صرف یاد رکھنے کی ہے کہ ساس بھی کبھی بہو تھی.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).