کیا اب محبت کی شاعری ہو سکتی ہے؟
یہاں صرف سکّے کا دوسرا رُخ سامنے نہیں آتا بلکہ جہاں زاد کا وہ درد انگیز ماجرا، اس کی زندگی کی وہ ساری افتاد جس سے حسن کوزہ گر بے خبر ہے اور حسن کا کوزہ گر، اپنا شاعر بھی۔ جہاں زاد ان دونوں کی ناواقفیت کا پردہ چاک کر دیتی ہے اور دائرہ مکمل ہوتا ہے، ایسا دائرہ جو عاشق اور معشوق کے اب تک ادھورے رہ جانے والے مکالمے پر مشتمل تھا۔ یوں یہ نظم نسوانی آواز کی اہم دستاویزہی نہیں، انسانی ابتلاء کا بھرپور اظہار بن گئی ہے۔ انسان کے ادھورے پن کی عکاسی جہاں کیا حسن اور کیا جہاں زاد، اپنی ادھوری شناخت کے نصف دائروں میں گھومتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے رابطہ نہیں کرسکتے۔
مکالمے کے اس امکان کا یہ مرحلہ سامنے آتا ہے تو یہاں پر راشد سے نہیں بلکہ اس مجموعے کی مقدمہ نگار فہمیدہ ریاض سے مدد ملتی ہے، اور وہ بھی ان کے مقدمے سے نہیں، ان کے شاعرانہ عمل سے۔ فہمیدہ ریاض کی معرکۃ الآراء نظم چادر اور چار دیواری سیاسی آگہی کو پیکر تراشی میں سمونے کی بڑی کامیاب مثال ہے۔ نظم کی مجموعی فضا آخری چند مصرعوں میں ایک twist سا حاصل کرتی ہے: جن میں نظم کی تمام امیجری بھی transform ہو جاتی ہے اور شاعرہ، راوی کے طور پر براہِ راست بیان کے ساتھ ایک آدرشی کیفیت کو سامنے لاتی ہے:
یہ چار دیواریاں، یہ چادر، گلی سڑی لاش کو مبارک
کُھلی فضائوں میں بادباں کھول کر بڑھے گا مرا سفینہ
میں آدم نو کی ہم سفر ہوں
کہ جس نے جیتی مری بھروسہ بھری رفاقت!
یہ خواب واضح ہے لیکن کیا یہ خواہش موہوم ہے؟ اردو شاعری میں آدم نو کی ہم سفری کے بجائے خود محبّت کے پیچھے ہٹنے اور داستان چڑھے دریائوں کے اُترنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ مگر یہ داستان کون بیان کرے گا، حسن کوزہ گر یا جہاں زاد؟
راشد نے حسن کی کوزہ گر کی زبان سے کہلوایا تھا:
’’تیرے جیسی عورتیں جہاں زاد
ایسی الجھنیں ہیں جن کو آج تک کوئی نہیں سلجھا سکا
کہ عورتوں کی ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جن کا ہم نہیں۔۔۔‘‘
عشرت آفرین کی نظم پڑھنے کے بعد راشد کی یہ سطریں Anti-climax معلوم ہونے لگتی ہیں۔ حسن کوزہ گر بہت کچھ جاننے اور بہت کچھ دیکھنے کے باوجود جہاں زاد کے دل کا درد نہیں جان سکا۔ اس کا ادھورا طنز اس کے اپنے اوپر ہے کہ جواب جہاں زاد کی زبان میں عشرت آفرین نے دے دیا ہے۔ اپنی تمام تر تخلیقی قوتیں بروئے کار لاکر وہ بیسویں صدی کے بڑے اہم شاعر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کو لاجواب کر رہی ہیں۔ یہ ہمّت اور حوصلہ انہی کے بس کا تھا۔
اس کتاب کی صورت میں اس نظم کو دوبارہ پڑھا تو سوچ میں پڑ گیا۔ اب سے کئی برس پہلےجب یہ نظم پہلی مرتبہ شائع ہورہی تھی، میں نے تب پڑھا تھا۔ نظم اس وقت بھی اچھی لگی تھی اور اب بھی اپنے زمانے کی آواز معلوم ہوتی ہے جہاں مرد عورت کے تعلقات ایک نئے اور نازک موڑ پر آگئے ہیں۔ تب سے لے کر اب تک اس نظم میں نہیں ہمارے آس پاس اتنا کچھ ہوتا رہا ہے کہ نظم کے معنی نہیں، اس کا سیاق بدل جاتا ہے۔
جہاں زاد، عشرت آفرین کی نظم میں کہتی ہے:
محبت ہمیشہ سے مفلس کا سرمایۂ جاں رہی ہے
اور پھر وہ عورت کی زبان سے شکوہ کرتی ہے:
تجھے یہ گماں تھا
کہ عورت محبّت کی بازی میں بے جاں پتّے کی صورت
کس دست چابک کی مرہونِ منّت
وہ اس کھیل میں ایک ’مہرے کی صورت
کہ جب جس نے چاہا
اسے ایک گھر سے اٹھا کر
کسی دوسرے گھر کا مالک بنایا
کہ عورت فقط ایک پتھر کی مورت
یہ تصویر حیرت!۔۔۔
کیا یہ تفاوت، یہ فاصلہ کسی صورت کم ہوسکتا ہے؟ ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں اور ساتھ چل سکتے ہیں؟ برسوں پہلے جب ناتسی جرمنی نے یہودی قیدیوں کو آش وٹز کے مقام پر بھٹّی میں جلا کر راکھ کر دیا تھا تو ایک درد مند فلسفی Adorno سے منسوب ایک بیان سامنے آیا تھا جہاں اس نے اس کرب ناک تجربے میں معنویت کے حوالے سے سوال کیا تھا__ کیا آش وٹز کے بعد شاعری ممکن ہے؟
دور جدید کے کلیدی مفکّر ایڈورنو کا یہ جملہ بہت فکر انگیز معلوم ہوتا ہے اور معنی خیز بھی۔ لیکن اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایڈورنو نے یہ جملہ ادا نہیں کیا تھا، کم از کم اس پیرائے میں نہیں۔
ایڈورنو کے استدلال کا رُخ تنقیدی عمل کی طرف زیادہ ہے۔ لیکن یہ بحث ہمیں کسی اور سمت لے جائے گی۔ ہم فی الوقت شاعری اور اس کے موضوع یعنی کار محبّت سے سروکار رکھیں تو اس سیاق و سباق میں بہتر ہوگا۔
ظاہر ہے کہ ادب و فن کی ساری نکتہ آرائی اس بھیانک تجربے کے آگے ہیچ و پوچ معلوم ہونے لگتی ہے۔ آج کی دنیا میں جاری بیانیے ایک دوسرے سے متحارب اور مخالف سچائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے میں سوچتا ہوں کہ کیا Me too# کے بعد عشقیہ شاعری ممکن ہے؟
کیا رشتے ناطے اور ان کو بیان کرنے والے استعارے صنفی اقتدار کی جنگ میں کُند ہتھیار بن کر نہیں رہ گئے۔ غالب جب غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے دیکھتے ہیں تو کیا وہ جنسی ہراس کی شکایت درج کرا رہے ہیں؟ یا یہ شکایت ان کے محبوب کی طرف سے ہے کہ شاعر اسے صرف خدوخال کا مجموعہ سمجھ بیٹھا ہے اور جرم تخفیف کا ارتکاب کررہا ہے۔ حسن کوزہ گر اور جہاں زاد کے بعد سے عشق کے معاملات بہت الجھ گئے اور مزید الجھتے جارہے ہیں۔ کیا ان دونوں کا مکالمہ عشق کے مرحلوں پر مشتمل ہوتا یا آگے چل کر قانونی کارروائی اور الزام تراشی بن کر رہ جائے گا؟ اس بات کے لیے کسی جام جہاں نما کی ضرورت نہیں کہ آنے والے دنوں میں جہاں زاد کا لہجہ مزید تلخ ہوگا اور حسن کوزہ گر کی طرح ہم سب کو ہم دردانہ غور کے ساتھ سننا پڑے گا کہ نو سال کے عرصے میں اس پر کیا بیتی۔
باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے
- سارا شگفتہ اور رنگ چور - 05/06/2020
- آصف فرخی کا آخری وڈیو بلاگ - 02/06/2020
- آصف فرخی کا ویڈیو کالم: ہسپتال سے عدالت تک - 21/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).