تحریم عظیم کے ردعمل میں ۔۔۔


محترمہ تحریم عظیم کے ایک ہی موضوع پر دو کالم ”خواتین، حیض اور ماہِ رمضان“ اور ”حیض اور عورت کی حیا“ نظروں سے گزرے، جن میں محترمہ نے حیض کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کے دوران آفس میں درپیش چند مسائل کا ذکر کیا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس رمضان کئی برس بعد میں دو دن بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکا، لیکن اہم دفتری امور کے پیش ِ نظر دفتر سے چھٹی بھی نہ کر سکا، لہٰذا میں نے بھی ان دو دنوں میں روزہ نہ رکھنے کے سبب سامنے آنے والے مسائل کا سامنا کیا اور اس تازہ تجربے کی بنیاد پر مجھے محسوس ہوا کہ مصنفہ کے پیش کردہ مسائل شاید ان کے اپنے ذہن میں کچھ زیادہ ہی پروان پا چکے ہیں، اورحقیقت سے دور ہیں۔ اس لئے میں نے سوچا کہ اپنے تجربات کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالا جائے،  شاید کہ اس طرح مصنفہ سمیت دیگر خواتین بھی ان مسائل کا شکار ہونے سے محفوظ رہ سکیں۔

سب سے پہلے تو جو نکتہ محترمہ نے اٹھایا کہ سکول،  کالج،  یونیورسٹی اور دفاتر میں پیڈز مہیا ہونے چاہئیں،  تو اس سلسلے میں صرف اتنی سی گذارش کرنا چاہوں گا کہ اس نکتے کا ماہِ رمضان سے کوئی تعلق نہیں،  بلکہ یہ تو سارے سال پر لاگو ہوتا ہے۔ لہٰذا اس نکتے کو رمضان کے کھاتے میں ڈالنا بالکل درست نہیں۔

دوسری جگہ پر محترمہ فرماتی ہیں کہ یہ ان کا حق ہے کہ رمضان کے دوران جب وہ حیض پر ہوں تو بغیر جھنجھٹ کھا پی سکیں،  تو عرض یہ ہے کہ روزہ کی چھوٹ صرف حیض کی حالت میں نہیں،  بلکہ بیماری کی حالت میں بھی ہے،  اور بہت دفعہ آپ بیمار ہونے کے باوجود دفتر سے چھٹی نہیں کر سکتے،  تو ایسی صورت میں صرف حیض پر زور دینے کی بجائے اگر محترمہ بیماری کو بھی ساتھ ملا لیتیں تو ان کے موقف کو زیادہ بہتر تائید حاصل ہو سکتی تھی۔ میں خود جب بیماری کی حالت میں دفتر آیا تو مجھے علم تھا کہ دفتر کی کینٹین بند ہو گی،  اس لئے اگر مجھے دن میں دوائی کھانے سے پہلے کھانا کھانے کی ضرورت ہے تو مجھے گھر سے اس کا انتظام کر کے ساتھ لے جانا چاہیئے۔

مجھے یہ بھی علم تھا کہ دفتر میں موجود ڈسپنسر پر لگی پانی کی خالی بوتل اب عید کے بعد ہی بدلی جائے گی،  لہٰذا اس سلسلے میں واویلا کرنے کی بجائے اگر میں خود گھر سے پانی کی چھوٹی بوتل ساتھ لے جاؤں تو میرا دن بھی اچھا گزر جائے گا اور سارے دفتر میں میرے روزہ نہ ہونے کا ڈھنڈورا بھی نہیں پٹے گا۔ دن بھر دفتر میں آپ کا واسطہ دفتر کے سارے لوگوں سے نہیں پڑتا،  بلکہ آپ سے متعلقہ شعبے کے چند لوگوں سے ہی ہوتا ہے، اور میرے خیال میں ان چند لوگوں سے آپ کی انڈر سٹینڈنگ اتنی اچھی تو ہوتی ہی ہے کہ وہ آپ کی ’پرسنل سپیس‘ کا خیال رکھ سکیں۔ تو اگر ان چند لوگوں کے علم میں ہے کہ آپ کسی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکے تو آپ ان کے سامنے بیٹھ کر بھی اتنی ہی آزادی سے کچھ کھا پی سکتے ہیں جتنا کہ آپ رمضان کے علاوہ سارا سال کھاتے پیتے ہیں۔ اب یہ آپ کی اپنی چوائس ہے کہ آپ ان کے سامنے بیٹھ کر کچھ کھانا پسند کریں یا کسی ایسی الگ جگہ کا انتخاب کریں جہاں کوئی ہر وقت نہ بیٹھا رہتا ہو، بلکہ یہ جگہ کسی مخصوص وقت یا مخصوص عمل کے لیے ہی استعمال میں لائی جاتی ہو،  جیسے کہ کیفے ٹیریا،  میٹنگ روم،  لیکچر ہال، ڈے کئیر سینٹر وغیرہ۔ محترمہ کے بقول ”الگ جگہ ڈھونڈی جائے تو وہاں بھی آ کر تانک جھانک ہوسکتی ہے اور اپنے جذبات زبردستی مجروح کروائے جا سکتے ہیں “ توبالفرض اکا دکا لوگ اس حرکت کے مرتکب ہوئے بھی ہوں (جو مجھے گمان ہے کہ کوئی نہیں ہوں گے) پھر بھی اس مفروضے کو بنیاد بنا کر آپ کا دفتر کے سارے لوگوں پر (یا بالعموم پورے پاکستان کے لوگوں پر؟) تانک جھانک کا لیبل چپکانا بذاتِ خود ایک ناپسندیدہ عمل کہلایا جا سکتا ہے۔ اس قسم کی عمومیت سے بہر حال گریز ہی کرنا چاہیئے۔

ہا ں کچھ دفاتر ایسے ضرور ہوتے ہیں کہ جہاں الگ تھلگ بیٹھنے کی کوئی خاص جگہ میسر نہ ہو،  لیکن اس قسم کے دفاتر بالعموم بہت ہی محدود عملے پر مشتمل ہوتے ہیں،  اور ان چند افراد میں سے اگر ایک دو آپ کے قابل ِاعتماد کولیگز ہیں تو وہ اس سلسلے میں آپ کے کھانے پینے کی جگہ مہیا کرنے کیلئے آپ کی مدد کر سکتے ہیں، آپ کسی کو اعتماد میں لے کر تو دیکھیں۔ اگر آپ کے دفتر میں کوئی کیفے وغیرہ ہے،  جسے رمضان کے دوران بند کر دیا گیا ہے تو بھی آپ اپنے سینئرز سے بات کر کے اس کو مخصوص اوقات میں کھلوانے کی اجازت لے سکتے ہیں۔ پھر بھی چونکہ اس طرح کے دفاتر میں کام کرنے کا میرا اپنا کوئی تجربہ نہیں،  اسلئے اس معاملے میں میری رائے ناقص ہو سکتی ہے۔

میں نے رمضان میں روزہ نہ رکھتے ہوئے اپنے چند کولیگز کو آگاہ بھی کیا اور ان کی موجودگی میں ایک کونے میں بیٹھ کر کھایا پیا بھی، لیکن نہ تو کسی کا روزہ ٹوٹنے کے خطرے سے دو چار ہوا اور نہ ہی چند لوگوں کے علاوہ کسی کو علم ہو سکا کہ میرا روزہ نہیں ہے۔ بہت زیادہ خدشات کو ذہن میں بٹھا کر کسی پر اعتماد نہ کرنا اور ہر کسی سے شر کی توقع رکھنا بہرحال انسانیت کے بنیادی اقدار کے منافی ہے۔ اس لئے میرا موصوفہ سمیت دیگر خواتین کو ہمدردانہ مشورہ یہی ہو گا کہ خواہ مخواہ کے خدشات کو اپنے سر پر سوار نہ کریں،  اگرآپ مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنے نکل ہی کھڑی ہیں تو مردوں کی طرح اپنے دیگر کولیگز پر اعتماد بھی کریں اور اپنے حقوق کے لئے مردانہ وار ڈٹ کر کھڑے ہونا بھی سیکھیں۔ اگرآپ کے بقول مرد حضرات سب کے سامنے گرمی اور لمبے سفر کا بہانا بنا کر رمضان میں کھانا کھا سکتے ہیں تو آپ کو بھی اپنی کسی بھی کیفیت کی وجہ سے روزہ نہ رکھتے ہوئے شرمندہ نہیں ہونا چاہیئے، بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنا حق حاصل کرنا چاہیئے۔ ان چند باتوں پر عمل پیرا ہو کر انشاء اللہ آپ بہت سے مسائل کا شکار ہونے سے بچ جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).