گھریلو زندگی جہنم کیوں بن جاتی ہے؟


سوشل میڈیا پر جب پاکستان میں خواتین پر گھریلوں تشدد کی ویڈیوز دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں اتنا ظلم کیوں۔ آخر لوگ بیٹیاں ان وحشی مردوں کو بیاہتے ہی کیوں ہیں؟

شادی اور بچوں کی پیدائش میں سب سے زیادہ رول سماجی دباؤ کا ہوتا ہے۔ پھر جب لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں تو ذہنی دباؤ مزید بڑھتا ہے۔ ان کی شادیاں جلد از جلد کرنے کی فکر میں کسی کے پلے بھی باندھ دی جاتی ہیں۔ شوہر جوانی میں اکیلا ہوتا ہے، نئی نوکری، یار دوست۔ حلے گلے، ماں باپ کا سہارا، لمبی امیدیں اور بہت سی باتیں۔ لیکن پھرشادی کے بعد اس کا سامنا حقیقت سے ہوتا ہے۔ پورا زور لگا کر بھی مہینے کا خرچہ پورا نہیں ہوتا۔ الزام تراشیاں شروع ہو جاتی ہیں؛ سماجی دباؤ پھر سے بڑھنے لگتا ہے۔ بچے چاہئیں، اپنا گھر نہیں، معاشرے میں کوئی مقام نہیں؛ یہ کر سکتا تھا وہ کر سکتا تھا؛ دوست ایسا ہے ویسا ہے؛، بازار بھرے پڑے ہیں لیکن یہ کچھ خرید نہیں سکتا، افسروں اور اکابرین سے ذلیل ہونا وغیرہ وغیرہ۔

اب مرد کو سکون کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ باہر بھی خوش نہیں اور گھر میں بھی پریشانیاں، دوست اپنے اپنے پسینے میں ڈوب گئے، بسیار گوئی کم گوئی میں بدل جاتی ہے اور غصہ جو ہر وقت غالب رہتا ہے اب کسی پر نکال نہیں سکتا۔ مرد کو وہی پرانا وقت یاد اتا ہے، لیکن وہ واپس نہیں آسکتا۔ اب وہ وجہ تلاش کرتا ہے کے آخر اس کی اس بدحالی کا ذمہ دار کون ہے؟ چونکہ سب کچھ شادی کے بعد ہی بدلا ہوتا ہے، اسی لیے بیوی کو قصوروار ٹہرایا جاتا ہے۔ پہلے زبانی کلامی جھگڑے ہوتے ہیں، پھر ایک ادھ چمانٹ بھی چل جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ تشدد کا ٹھیک ٹھاک سلسلہ چل پڑتا ہے۔

عورت کی زندگی اب تک ویسے ہی جہنم بن چکی ہوتی ہے۔ وہ دل ہی دل میں چاہتی ہے کہ جیسے اس کا مرد اپنے ماں باپ کو پیسے دیتا ہے، کاش وہ بھی اپنے مزید بوڑھے ہوتے ہوئے ماں باپ کا سہارا بنتی; اپنے لیے الکرم کی لان تو نہیں لے سکتی لیکن بچوں کے دو چار جوڑے زیادہ ہوتے تاکہ روز روز دھلائیاں نہ کرنی پڑتیں؛ کمیٹی ڈال سکتی یا کمیٹی کے پسے بچا سکتی؛ بچوں کی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں اب ڈپریشن میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ گنڈے، تعویز، منتیں۔ پتا نہیں کیا کیا، صرف اس لئے کہ تھوڑا سکون آ جائے زندگی میں۔ سر میں درد، کمر میں درد، خون کی کمی۔ غیر صحتمند غذا اور ٹینشن کی وجہ سے صحت وہ نہیں رہتی، وزن بڑھتا یا انتہائی کم ہو جاتا ہے۔ مرد کو فریاد نہیں کرتی کیونکہ اسے غصہ اتا ہے، ڈاکٹر اور دوائیں جو مہنگی ہیں؛ ایسے میں اگر مرد کی نوکری چھوٹ جائے تو سونے پر سہاگہ (الٹے سینس میں)۔ اب گھر کا سسٹم کچھ یوں چلتا ہے: مرد باہر سے ذلیل ہوکے گھر میں عورت کو ذلیل کرتا ہے، پھر عورت بچوں کو۔ قوم تو ویسے بھی دنیا بھر میں ذلیل ہے، لیکن وہ ذلالت ہمارے چور حکمرانوں کے حصے میں آتی ہے جو انتہائی ڈھیٹ ہوتے ہیں، اس لئے ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا۔ خیر واپس اتے ہیں اپنے موضوع پر۔ ساس بہو، بہو دیورانی اور نندوں کے ایپسوڈ الگ۔

ایسے میں تین چار قسم کی کہانیاں آگے چلتی ہیں۔ پہلی، جیسے تیسے کر کے وقت گزاریں، بچے بڑے ہوں اور اپ اپنی کہانی ان کے حوالے کر دیں۔ دوسری: جھگڑے شدت اختیار کریں، مار پیٹ سے تنگ اکر بیوی گھر چھوڑ دے، منتیں سماجتیں یا ڈرا دھمکا کر واپس لائیں، پھر ایسا ہو اور آخر میں طلاق یا خلہ پر معاملہ ختم (ختم مطلب اب ایک نئی اور زیادہ دردناک کہانی شروع)۔ وٹے سٹے کی صورت میں پیچیدگیں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ تیسری شکل یہ کہ عورت خود کشی کر لے یا مرد اسے مار دے، یا وہ مرد کو مار دے۔ ایسا نہایت غریب گھرانوں میں ہوتا ہے، اور اتنا کامن بھی نہیں۔ آخری شکل یہ کہ معاشی حالت بدل جائیں اور محبتیں گھر کو واپس لوٹ آئیں، خواہ ایسا مرد کی وجہ سے ہو یا ان کے بچوں کی کامیابی کی وجہ سے۔

یہ کہانیاں ہر دوسرے گھر کی ہیں، خصوصاً جب پاکستان کی بہت بڑی آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ یہ زندگی نہیں، جرم ہے، ایک گناہ ہے۔ اس جہنم میں مزید بچے لانا گناہ کبیرہ ہے۔ وہ بچے اس وحشت میں پل بڑھ کر یا تو خود بھی وحشی بن جانتے ہیں، یا احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔ سب ایسے نہیں ہوتے لیکن بہت سوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ بحث لمبی ہو جائے گی اگر معذور بچوں کا تذکرہ بھی کیا جائے، جو کہ اس سے بھی کہیں زیادہ درد بھری داستان ہے۔

اس جذباتی، نفسیاتی اور سماجی مسئلے کا حل ریاستی پالیسیوں میں ہے۔ ریاست ایک بڑی کیمپین چلائے، جس میں لوگوں کو بتایا جائے کہ: (1) شادی ہر شخص کے لیے ضروری نہیں اور اس کے بغیر بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے (مجھے پتا ہے اپ میں سے بہت سے کیا سوچ رہے ہیں لیکن جو حالات میں نے بیان کیے ان میں بھی کوئی خوشی نہیں رہ سکتا)؛

(2) شادی تب کریں جب آپ ”اعتماد“ کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں، جو غیر شادی شدہ آدمی کے لیے چالیس پینتالیس سال کی عمر ہوتی ہے۔ اگر آپ چالیس سال کی عمر تک ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہوتے تو آپ بہت میچور(بالغ النظر) ہوجاتے ہیں۔ اب اگر آپ شادی بھی کر لیں تو آپ کے اور اپ کے ساتھ رہنے والوں کے خوش رہنے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں؛

(3) لوگوں کو بتایا جائے کہ زیادہ بچے ضروری نہیں۔ اگر آپ کا ایک ہی بچہ ہوگا تو نہ صرف آپ اس کی پرورش صحیح طریقے سے کر سکیں گے بلکہ آپ اس کے بچپن کو اینجوائے بھی کریں گے۔ وہ آپ کی غیرمشروط محبت کا مرکز ہوگا اور آپ کو بدلے میں ڈھیر ساری خوشیاں اور مسکراہٹیں دے گا;

(4) ریاست عورتوں کے تحفظ کو یقینی (سچ مچ مطلب ٹی۔ ٹی۔ پی والا یقینی) بناے تاکہ عورتیں (لڑکیوں سمیت) بے خوف و خطر ہر قسم کے کام کر سکیں خوا وہ ٹیکسی چلانا ہو، مزدوری ہو، ٹائلوں کا کام، وورکشاپ یا کوئی اور؛

(5) عورتوں کو تعلیم دی جائے کہ وہ مردوں سے کسی طور کم نہیں اور سب سے پہلے ان کی اپنی ذات ہے پھر کوئی اور نظریہ؛
(6) معاشرے کو تعلیم دی جائے کہ سیکس کوئی عیب نہیں۔ اسے عورتوں کی لیبلنگ کا ہتھیار نہ سمجھا جائے۔ ایک عورت اپنے مختلف جنسی رجحانات کے باوجود نہایت اچھی خاتون، انسان، ماں، بیوی، بہن ہو سکتی ہے۔ یہ پوئنٹ نہایت اہم ہے، کیونکہ یہ نہ صرف عورت کو تحفظ دے گا بلکہ اس کے ماں باپ کو بھی اس کی پیدائش سے شادی تک کی کشمکش سے کافی حد تک نکال باہر کرے گا۔

(7) آخر میں مذہبی معلمین اور مبلغین پر پابندی لگانی چاہیے کہ وہ کوئی ایسی بات پبلک سفیر (عوامی مقامات اور تقریبات) میں نہ کریں جس کا تعلق کسی فرد کی ذات سے ہو اور جس کا اثر منفی طور پر لوگوں کی انفرادی زندگی پر یا ان کے متعلق معاشرے کی رائے پر پڑے۔ ہاں اگر کوئی مولوی صاحب سے مل کر انفرادی زندگی کے مسائل پوچھنا چاہتا ہے تو ضرور کرے۔

دوستوں ۔ ہم اس دنیا میں ایک ہی بار آے ہیں۔ جنت جہنم جا کر بھی ہم دوبارہ یہاں نہیں آسکتے۔ اپنی اور دوسروں کی زندگی میں مسائل کم کیجیے۔ صرف خوشیوں کو تلاش کرنا کافی نہیں، غموں کا راستہ روکنا بھی ضروری ہے۔ شادی کے اس سوشل کنٹریکٹ کو بدلنا ہوگا، عورتوں کے رول کو اسٹیٹ کی سطح پر دوبارہ ڈیفائن کرنا ہوگا۔ اگر ہم اپنے سوچنے کے طریقے کو بدل لیں تو اس جہنم پر پانی ڈالا جاسکتا ہے۔
اپنی کم عقلی پر آپ سے پیشگی معذرت، مولوی صاحبان سے دعا کی درخواست!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).