ایران جوہری ڈیل سے امریکی انخلاء اور مشرق وسطیٰ کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ


ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین 2015 میں طے پا جانے والے تاریخی جوہری معاہدے سے انحراف کے بعد امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ایران پر تاریخ کی بدترین پابندیاں نافذ کرنے والے ہیں۔ اس کے جواب میں ایرانی صدر نے اگرچہ اس دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وہ وقت گزر گیا جب امریکہ تنہاء دنیا پر اپنی مرضی مسلط کیا کرتا تھا۔ ہم اپنی قوم کی طاقت سے اپنے طے شدہ اہداف کی جانب بڑھتے رہیں گے تاہم اس صورتحال میں سوچنے کا امر یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مشرق وسطی ایران امریکہ تنازع کیا رخ اختیار کرسکتا ہے؟
امریکی انتظامیہ نے اقتصادی پابندیوں کے علاوہ ایران پر شام سے فوجی انخلاء اور یمن میں موجود حوثی باغیوں کی حمایت سے روگردانی سمیت بارہ ایسی شرائط عائد کی ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جسے ماننے کے لئے ایرانی حکومت تیار ہوگی۔

جوہری معاہدے سے امریکی انحراف کے بعد ایرانی وزیر خارجہ اہم ممالک کے ہنگامی دورے پر روانہ ہوئے تھے جس میں چین، روس اور یورپی یونین شامل ہیں انہوں نے اس دوران یہ واضح کیا کہ تنہا یورپی یونین کے اس وعدے پہ کہ وہ ایرانی جوہری معاہدے کا احترام کریں گے، اعتماد نہیں کرسکتے۔ اس کے برعکس یورپی یونین نے بلغاریہ میں گزشتہ ہفتے اہم سربراہی اجلاس بلایا جس میں ایران جوہری ڈیل اور امریکہ کے انحراف اور پابندیوں کے بعد کی صورتحا ل پر غور کیا گیا۔ یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک کا کہنا تھا کہ جس کے خطے کے صدر ٹرمپ جیسے دوست ہوں اسے دشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔ وہ موجودہ امریکی انتظامیہ کا موازنہ چین اور روس جیسے ممکنہ دشمنوں سے کررہے تھے۔

موجودہ صورت یہ ہے کہ امریکہ نہ صرف معاہدے سے علیحدہ ہوگیا ہے بلکہ وہ ایران پر بقول امریکی وزیر خارجہ کے بدترین اقتصادی پابندیاں نافذ کرنے والا ہے جس کے نتیجے میں ایرانی معیشت تباہ ہوجائے گی۔ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے مطابق اگر یورپی کمپینوں نے امریکی اقتصادی پابندیوں کا لحاظ نہ کیا تو انہیں بھی تادیبی کارروائی بھگتنی ہوگی۔ تاہم ابھی تک فرانس، برطانیہ اور جرمنی یورپی کمپنیوں کے ایران میں سرمایہ کاری کے حق اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے عزم پر قائم دکھائی دیتے ہیں۔

دوسری جانب اسی معاملے پر اگر ایشیاء میں اس امریکی اقدام کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو بھارت کی مدد سے ایران میں تعمیر ہونے والی چابہار بندرگاہ اس امریکی فیصلے سے متاثرہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ امریکی صدر کے حالیہ فیصلے نے صرف یورپ ہی نہیں بھارت اور افغانستان کے لئے بھی پریشانی پیدا کی ہے۔ افغانستان کی حکومت اس بندرگاہ کو آئندہ سالوں میں افغان تجارت کا دروازہ سمجھ رہی تھی۔ بھارت بھی اس بندرگاہ کے ذریعے پاکستان کی زمینی حدود کو بائی پاس کرتے ہوئے مشرق وسطی اور وسط ایشیاء تک تجارتی راہداری پھیلانے کے عزائم رکھتا تھا۔ انہی تمام معاملات کو لے کر وزیر اعظم مودی روس کے ایسے دورے پر ہیں جس میں ہونے والی گفتگو کے موضوعات کو میڈیا میں پیش نہیں کیا گیا۔

صدر ٹرمپ کے حالیہ اقدام کے بعد ممکنہ طور پر نتیجے میں ایرانی حکومت اپنی جوہری سرگرمیاں بحال کر تے ہوئے یورینیم کی افزودگی تیز کردے گی۔ یوں مشرق وسطی میں ایک نیا گیم شروع ہوگا جہاں اسرائیل اور سعودی عرب جیسے امریکی اتحادی امریکہ کو ایران سے جنگ پہ اکسائیں گے۔ چین اور روس اگرچہ اس صورت میں غیر جانبدار رہنا چاہیں گے تاہم یورپ کے لئے نیٹو اتحاد کے ہمراہ اس جنگ میں کودنا بہت مشکل ہوگا۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں کسی بھی فوجی کارروائی کی حمایت کی کوشش میں امریکہ کو روس اور چین کی مزاحمت کا سامنا ہوگا۔

ایسی صورتحال میں عالمی دنیا کے پاس دو ہی آپشن باقی ہوں گے اولاً یا تو وہ صدر ٹرمپ کو روک رہی ہوگی کہ وہ مشرق وسطی میں نئی جنگ نہ چھیڑیں اور یا اس جنگ میں خاموش رہے اور غیر جانبدار رہے گی۔

صدر ٹرمپ کی مشرق وسطی پالیسی اور ان کے نیتن یاہو اور محمد بن سلمان جیسے اتحادی اگلے دو سالوں میں ایران کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی ولی عہد کی زیر قیادت سعودی عرب نے امریکہ سے اگلے چند برسوں میں 380 بلین ڈالرز کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ جبکہ اسرائیل تو ہر سال امریکہ سے 3اعشاریہ 8 ارب ڈالر کی فوجی امداد حاصل کرتا ہے۔

تاہم اس صورتحال کے جواب میں اگر زمینی حقائق ملاحظہ کیے جائیں تو ایران کی موجودہ جیواسٹریٹیجک پوزیشن اور اس کی عسکری قوت اور خطے میں موجود اس کی حمایت یافتہ طاقتور ملیشیاؤں کی موجودگی میں ایران کی عسکری شکست آسانی سے ممکن نظر نہیں آتی۔

اگرچہ یمنی سرزمین پچھلے کئی سالوں سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان غیر علانیہ جنگ کا میدان ہے اور شام میں اسرائیل اور ایران درجنوں مرتبہ ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا چکے ہیں تاہم اگر امریکہ اسرائیل یا سعودی عرب کی جانب سے ایرانی حکومت کے خاتمے کے لئے کوئی مکمل فوجی مہم شروع کی گئی تو بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق یہ سالوں پہ محیط ایک ایسی لڑائی ہوگی جس کے اختتام تک مشرق وسطی کا بہت سا جغرافیہ بدل چکا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).