چھوٹا اسکول، بڑا خواب


سامنے ملک کے بڑے سیاسی بھٹو خاندان کی رہائش گاہ۔ المرتضیٰ۔ عقب میں وسیع اسٹیڈیم۔ وسط میں میرا سرکاری اسکول۔ میونسپل ہائی اسکول۔ آبائی شہر۔ قدیم شہر۔ لاڑکانہ۔ سویکارنو ہوں یا یاسرعرفات۔ شنہشاہ ایران ہوں یا معمر قذافی۔ یہ عالمی رہنماء ہزاروں برس کی تہذیب موہن جودڑو کے کھنڈرات کے قریب واقع ایئرپورٹ سے ہوتے ہوئے میرے اسکول کے سامنے والی سڑک پر بھٹو کی رہائش گاہ پر آتے۔ اسکول کے قریب ہی کامریڈ بخاری کا چھاپہ خانہ اور کامریڈ سوبھوگیان چندانی کی اوتاک۔ اسکول سے واپسی پر دونوں کبھی کبھار بچوں میں روسی ادب کی کہانیاں تقسیم کرتے۔

کچھ فاصلے پر میرا حویلی نما آبائی گھر لکھپت بھون۔ اور اس کے ساتھ ہی رضوی صاحب کی زیرنگرانی ادبی ثقافتی بزم ادب۔ سینکڑوں کتابیں۔ بچپن میں فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، حبیب جالب جیسے شعراء اور صابری برادرز کے کلام کو سننے کا یہیں موقع ملا۔ قرۃالعین حیدر، منٹو، کرشن چندر، گورکی اور حمزہ توف کی تحریروں سے بھی یہیں آشنائی ہوئی۔ مشہور پاکستان چوک پر میرے اسکول کے نسبتاً نوجوان اساتذہ اور شہر بھر کے سینئر طالب علم کیفے مدینہ میں چائے کی ایک پیالی اور شامی کباب پر دن بھر سی ایس ایس کی تیاری اور سیاسی گفتگو میں گزارتے۔

ہم جیسے کم عمر طالب علموں کو اگر اردو، انگریزی کے مضامین اور تقاریر کی نوک پلک درست کروانی ہوتی تو اسی کیفے کا رخ کرتے۔ اپنی اپنی بساط کے مطابق ادائیگی، لب و لہجہ درست کرواتے اور معروف شخصیات کے اقوال بھی ازبر یاد کرواتے۔

کسی بھی مضمون میں دقت ہوتی، اساتذہ کے گھر چلے جاتے۔ کیمسٹری مرلی دھر، ریاضی عتیق صاحب، انگریزی کے لئے پاجامہ شیروانی میں ملبوس نفیس صاحب، ہر فن مولا مہدی صاحب جو کرکٹ اور ہاکی کے بہترین کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ انگریزی اور اردو ادب پر مہارت رکھتے تھے۔ نہ ٹیوشن نہ ٹیوشن سینٹرز۔ قصہ مختصر، میرے اسکول کی عمارت جتنی بھی غریب ہو خود اس ادارے اور گرد و نواح کا ماحول ادبی، سماجی اور سیاسی تربیت گاہ تھی۔ ہر طرف تعلیم و تربیت کے خزانے موجود تھے۔

اسکول سے فارغ ہوئے تو کراچی میں ڈی جے کالج آئے۔ حیدر بخش جتوئی، دانشور ابراہیم جوئیو، معروف قانون دان اے۔ کے بروہی، کامریڈ سوبھو جیسی سندھ کی بڑی شخصیات اور مجھ جیسے ناچیز کی تعلیمی آماجگاہیں کراچی میں این جے وی، سندھ مدرستہ السلام اور ڈی جے کالج جیسے ادارے ہوتے تھے۔ میٹھا رام ہاسٹل میں قیام۔ شہر کی تیز رفتار زندگی سے عارضی اور خود غرضی پر منحصر دوستیاں اور زندگی کی دوڑ میں حصہ لینا یہیں سیکھا۔ شخصیت سے آوارہ گردی اور حقیقت پسندی کا ملاپ بھی یہیں ہوا۔ خاندانی مجبوری کے سائنس مضامین کو الوداع کہا، جامعہ کراچی کی پُرشکوہ اور وسیع عمارت میں تاریخ کا مطالعہ کیا۔ اساتذہ نے تاریخ کے تقابلی جائزے کا ایسا چسکہ ڈالا کہ نہ صرف ماضی بلکہ حال اور مستقبل کے سفر کو بھی اسی عدسے سے جانچا۔

اسکول سے یونیورسٹی تک تعلیم پر غالبا چند ہزار ہی خرچ ہوئے ہوں گے۔ ریاستی تعلیمی ادارے۔ بے لوث اساتذہ۔ نہ پرائیویٹ اسکول، کالجز نہ یونیورسٹیاں۔ بگاڑ۔ ریاست نے اپنی بنیادی ذمہ داری تعلیمی تاجروں کی منڈی میں نیلام کی ہوئی ہے۔ چمکتے دمکتے تعلیمی ادارے، بلند و بالا عمارتیں، بھاری بھرکم فیسیں، انگریزی میڈیم۔ ماں پیٹ سے ہوئی تو بچے کا نام پلے اسکول میں رجسٹر کروانا لازمی، دیسی پرائیویٹ اداروں کا غیرملکی برانڈنگ کا دعوی، تعلیمی معلومات کے بجائے نمبر گیم، غیر ملکی جامعات میں داخلے کی گارنٹی وغیرہ وغیرہ۔

گذشتہ دہائیوں میں حکمرانوں کی ترجیحات کی فہرست سے شعبہء تعلیم کو نظرانداز کیا جانا اور پرائیویٹ اداروں کے بڑھتے ہوئے تسلط سے طبقاتی خلیج میں اضافہ۔ ہمارے زمانے میں سیاستدان، کروڑ پتی کاروباری، جاگیردار، زمیندار، سرمایہ داروں کی اولادیں اور ہم جیسے متوسط گھرانوں کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اب ایسا ممکن نہیں۔ اس تعلیمی کاروبار کی دوڑ میں اشرافیہ کی اولادیں آگے اور متوسط اور غریب گھرانوں کے بچے کہیں پیچھے نظر آتے ہیں۔

ہماری اور ہم سے پہلی نسلوں کی تعلیم سرکاری اسکولوں میں ہوئی۔ کہیں کوئی دقت نہ ہوئی۔ نام کمایا، دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ کولمبو سے کابل تک، لندن سے یروشلم تک، کمبوڈیا، ویت نام سے نیپال کی پہاڑیوں تک صحافت کا عملی سفر طے کیا۔ پردیس کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں بھاشن دیے۔ اپنے دیس میں دور دراز علاقوں کے سرکاری تعلیمی اداروں میں طالب علموں سے گفتگو کا جب بھی موقع ملتا ہے مجھے لاڑکانہ میں اپنا چھوٹا سا اسکول اور استاد کی نصیحت یاد آجاتی ہے۔ اسکول چاہے جتنا چھوٹا ہو خواب بڑا ہونا چاہیے۔ چھوٹا اسکول، بڑا خواب۔

اویس توحید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس توحید

اویس توحید ملک کے معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں ای میل ایڈریس owaistohid@gmail.com Twitter: @OwaisTohid

owais-tohid has 34 posts and counting.See all posts by owais-tohid