شیطان اور شرم و حیا


زندگی کی بائیس خزاں نما بہاریں دیکھنے کے باوجود بھی دماغ یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ آخر یہ شرم و حیا کس بلا کا نام ہے؟ آیا یہ کوئی ایسی صفت خاص ہے جو محض پاک باز اور نورانیت کے حامل افراد کے زیر تصرف ہے یا پھر ہم جیسی ادنی اور غیر خالص ارواح کا بھی اس سے کوئی رشتہ تعلق ہے؟ کیا بے شرمی کا فتویٰ بہت ارزاں ہے جو جب چاہے کسی پر بھی عائد کر دیا جائے؟ کیا شرم و حیا مذہب اور تہذیب کے متبادل الفاظ ہیں؟ میں نے خطیبانہ انداز میں اپنا مدعا اس کے سامنے رکھا۔

ہاں بات میں تو تمھاری دم ہے لیکن اگر شرم و حیا جیسے مہروں کو پس پشت رکھ دیا جاۓ تو فتنہ برپا کرنے کی اور کون سی صورت باقی رہ جائے گی؟ اس نے سلاخوں کے پیچھے سے اپنے سینگوں کو کھجلاتے ہوئے سوال داغ دیا۔

کیا فساد برپا کرنا ضروری ہے؟ میں نے التجا آمیز انداز میں پوچھا۔

تم کیا چاہتی ہو میرا دھندا ٹھپ ہو جائے؟ دنیا میں پھیلے ہوئے میرے اربوں مقلدین بے روز گار ہو جائیں؟ اس نے مجھے کڑی نگاہوں سے دیکھا۔

میں تمھاری مجبوری سمجھتی ہوں لیکن یہ شرم و حیا کا مہرہ کچھ زیادہ ہی مہلک ثابت ہو رہا ہے۔ پچھلی گلی کے اکبر نے اسی شرم و حیا کے نرغے میں آ کر اپنی بہن نورین کو موت کے گھات اتار دیا۔ پڑوس کی آسیہ کو طلاق ہو گئی۔ لڑکے والے پورے وثوق سے کہہ کر گئے ہیں کہ لڑکی میں شرم و حیا کی کمی ہے۔ اس کی ساس تو محلے میں کھڑی ہو کر یہاں تک کہہ گئی:

”ارے! ایسے بھی کوئی بیوی منہ پھاڑ کر شوہر کے حقوق ادا کرنے سے منع کرتی ہے؟ کیا ہو گیا اگر بچے نے جذبات میں آ کر دو چار تھپڑ جڑ دیے۔۔۔ ارے مرد ہے آ گیا غصہ۔۔۔ لیکن اگر تمھاری لڑکی خاندانی ہوتی تو اتنی سی بات پر کبھی کورٹ کچہری کے چکر نہ لگاتی۔ ارے یہ فائدہ ہوا پڑھی لکھی بہو لانے کا؟ ارے رکھو اپنی بے شرم بیٹی اپنے پاس۔ ہمارے لڑکے کو رشتوں کی کمی نہیں۔“

میں نے تاسف سے اسے پوری روداد سنائی۔ جوابا وہ دانت نکال کے ہنسنے لگا۔
”ارے! ابھی تو بڑی علمیت جھاڑ رہی تھیں۔ اب ایک دم سارے مسائل چھوڑ چھاڑ کر بس گلی محلے کی عورتوں کے قصوں پر اتر آئیں؟! تمھارا قصور نہیں، عورت ہو نا، اسی لیے تمھیں صرف عورت ہی دکھی اور مظلوم نظر آتی ہے۔“ میرے عورت پن نے اسے میری ذہانت کے حصار سے باہر لا کھینچا۔

”تم میری بات نہیں سمجھ رہے۔ بڑی مشکل سے مہلت مانگ کر تمھاری قید کے دنوں میں تم سے ملنے آئی ہوں۔ مجھے مایوس مت کرو۔ تمھیں تمھاری شیطنیت کا واسطہ! یہ شرم و حیا کا کھیل اب بند کر دو۔“
میں نے اس کے قید خانے کی سلاخوں کو مضبوطی سے پکڑ کرالتجا کی۔

”لوگ شرم و حیا کو بہانہ بنا کر اپنا ذاتی بغض نکالتے ہیں۔ کل ہی اخبار میں ایک لڑکے کو زندہ جلا دینے کی خبر آئی ہے۔ قاتلوں کا کہنا ہے کہ اس نے بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے مذہب اور عقیدے پر سوال اٹھایا، جس کی بنا پر اس کا قتل کر دیا گیا۔“

میں نے اپنی فائل میں سے اخبار نکال کر اس کے سامنے لہرایا۔ اس نے فورا میرے ہاتھوں سے اخبار اچک لیا اور بڑی دیر تک آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اخبار کو گھورتا رہا۔

”یہ واقعہ تو کل کا ہے۔“
اس نے حیرت و استعجاب سے اخبار کو الٹ پلٹ کر اس کی تاریخ دیکھی۔
”ہاں! ہاں! کل ہی کا ہے۔“ میں نے جھنجھلاتے ہوئے جواب دیا۔

”یہ نورین اور آسیہ والا واقعہ کب پیش آیا؟“ اس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے۔ پے در پے ایسے واقعات ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ کیوں نہ تم سے براہ راست بات کر کے معاملہ سلجھا لوں۔“ میں نے اس کے چہرے کے تاثرات  کو پرکھے بغیر اپنی بات جاری رکھی۔

”ارے لڑکی! تیرا دماغ خراب ہے کیا؟ میں تو پچھلے سولہ روز سے یہاں قید ہوں۔ ان سب واقعات سے میرا کوئی تعلق نہیں، جا! جا کر اپنی دنیا کے شیطانوں سے التجا کر۔ امید تو نہیں ہے لیکن ہو سکتا ہے شاید تیری داد رسی ہو جائے۔“

اس نے اخبار میری طرف اچھال کر نفرت سے مجھے گھورا اور واپس اپنی کوٹھڑی میں جا کر بڑبڑانے لگا: ”ہنہ! باتیں بنوا لو بس، مجھ سے بڑے شیطان تو یہ انسان ہیں۔“
میں اپنی انگلی دانتوں تلے دبائے بوجھل قدموں سے اپنی دنیا میں لوٹ آئی۔

صدف سلیم
Latest posts by صدف سلیم (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).