کرپشن کی پولیٹیکل اکانومی کیا ہے؟


ابتدا اس بنیادی سوال سے کرتے ہیں کہ آخر کرپشن کہتے کسے ہیں؟ کرپشن کہتے ہیں بے ضابطگی کو، بے اصولی کو، کوئی اصل چیز چھپا کر نقل کو بطور اصل پیش کرنے کو، جھوٹ کو، اور کسی بھی شے کو اس کی اصل قدر سے کمتر یا برتر ثابت کرنے کو کرپشن کہتے ہیں۔ استاد محترم وجاہت مسعود کے الفاظ میں کرپشن کا مطلب ایسی خرابی ہے جس سے پورا نظام اتھل پتھل ہو جائے۔ خاکسار اس تحریر میں کرپشن کی مالی قسم کو زیر بحث لائے گا کہ آخر وہ کون سے اسباب ہیں جن سے کرپشن کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے، اس کا ہماری معیشت سے کیا تعلق ہے نیز آخر اس پیچیدہ مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے؟

کرپشن کی دو بڑی اقسام ہیں ۔

اول: کرپشن کی وہ قسم جو ریاستی قانون ساز اداروں، عدلیہ، اور انتظامیہ سمیت تمام بیوروکریٹک اداروں میں پائی جاتی ہے، اسے پولیٹیکل اکانومی کی زبان میں سرکاری کرپشن کہتے ہیں جب کہ وہ کرپشن جو عوامی حلقوں، ہمارے سماج، ہمارے روزمرہ کے معاملات، ہمارے نجی کاروباری لین دین وغیرہ میں پائی جاتی ہے اسے \”پرائیویٹ کرپشن\” کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی سڑک کی تعمیر یا مرمت کا ٹھیکہ کسی بیوروکریٹ یا سیاستدان کو رشوت دے کر اپنے نام کروا لیتے ہیں تو یہ سرکاری کرپشن ہو گی۔ اسی طرح اگر آپ کسی سے کوئی چیز ادھار پر خریدتے ہیں اور ادائیگی کے وقت پیسے دینے سے انکار کر دیتے ہیں تو یہ پرائیویٹ کرپشن ہو گی۔ پولیٹیکل اکانومی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں معاشی ترقی کے لئے سب سے خطرناک پرائیویٹ کرپشن ہے کیونکہ یہ براہ راست ہماری معاشی ثقافت پر اثر انداز ہوتی ہے، اس سے پروڈیوسر کی پیداوار کے لئے ترغیبات و محرکات کا خاتمہ ہو جاتا ہے یا اس میں کمی آ جاتی ہے۔  یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ کسی بھی ملک میں معاشی ترقی کا انحصار کل پیداوار پر ہے۔

دیکھیں معیشت کو سمجھنےکا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ کاروبار (بزنس ) کو سمجھیں کہ کیسے کیا جا تا ہے، ایک سے زیادہ کاروبار ایک دوسرے سے کیسے معاملات طے کرتے ہیں۔ وہ کون سے عوامل ہیں جو کاروبار کو ترقی دیتے ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جو اس میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ کاروباری سرگرمیوں کو جب ہم ایک کل میں دیکھتے ہیں تو سامنے نظر آنے والی تصویر کو عموماً معیشت کہتے ہیں۔ کاروباری سرگرمیوں کا انحصار دو یا دو سے زیادہ کاروباری فریقین (بیچنے والا اور خریدنے والا) کے درمیان خرید و فروخت کے معاملات میں ایمانداری، اعتماد اور تعاون پر ہے۔ کسی بھی بے ایمان بد اعتماد اور تعاون سے عاری فریق سے کوئی کاروبار کرنا نہیں چاہے گا۔ پرائیویٹ کرپشن اس اعتماد، تعاون، اور ایمانداری کی اساس کو تباہ کر دیتی ہے، یوں مارکیٹ میں ڈیمانڈ (طلب) ہونے کے باوجود بھی پروڈیوسر پیداواری سرگرمیوں سے پرہیز کرتا ہے۔ مثال کے طور پر میں جانتا ہوں کہ اگر میں مارکیٹ میں کوئی چیز بیچنے جاؤں گا، وہ بک تو فوراً جائے گی مگر مجھے یہ ڈر ہے کہ خریدار چیز خرچ کر کے بھی پیسوں کی ادائیگی سے مکر جائے گا یوں اس پرائیویٹ کرپشن کے نتیجے میں، میں باوجود مارکیٹ میں طلب کے پیداواری سرگرمی سے دور رہوں گا، جس کا مجموعی نتیجہ یہ ہو گا کہ معاشی ترقی رک جائے گی۔ اگر میں کاروبار نہیں کروں گا تو یقیناً روزگار پیدا نہیں ہو گا جس کا نتیجہ غربت اور بھوک ہو گی۔ پولیٹیکل اکانومی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ کرپشن سرکاری کرپشن سے بھی عموماً زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ یہ پیداواری سرگرمیوں کو دفن کر دیتی ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ معاشی عمل کی اول اور اہم سرگرمی پیداوار ہے۔

اس اعتماد (ٹرسٹ ) ایمانداری اور تعاون کا معیشت میں انتہائی اہم کردار ہے۔ مارکیٹ اس وقت عروج پر ہوتی ہے جب تمام کاروباری فریقین (خریدار و بیچنے والا ) کا مارکیٹ پر اعتماد عروج پر ہوتا ہے اور وہ کاروبار کرتے جاتے ہیں۔ مارکیٹ میں بحران اس وقت آتا ہے جب تمام کاروباری فریقین کا مارکیٹ پر اعتماد اٹھ جاتا ہےاور وہ خرید و فروخت روک دیتے ہیں یا کم کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی ملک کی مارکیٹ بحران سے اس وقت نکلتی ہے جب فریقین کا مارکیٹ پر اعتماد پھر سے بحال ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ عموما ایک فطری عمل ہے جو مارکیٹ میں جاری رہتا ہے۔

پرائیویٹ کرپشن کی ایک اور قسم جرائم ہیں جس کی بدترین مثالیں بھتہ، تاوان، چوری چکاری اور لوٹ مار وغیرہ ہیں۔ یہ ایک کاروبار کو خطرات میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر میں نے ایک چیز اپنی فیکٹری میں تیار کی ہے اور گاہک کا آرڈر موصول ہوتا ہے کہ میں اس تک سامان کی ڈلیوری پہنچاؤں، اگر بالفرض مجھے یہ ڈر ہو کہ راستہ میں کوئی ٹرک روک کر سامان چھین لے گا تو میں ہرگز بھی سامان نہیں بھیجوں گا۔ سامان نہیں بکے گا تو میں فیکٹری بند کر دوں گا جس کا ملک کی معیشت اور روزگار پر بدترین اثر پڑے گا۔ اگر معاملہ محض پیسے تک محدود ہے جیسے بھتہ، تو کاروبار ایسے نقصانات کو اپنے پیداواری اخراجات میں ڈال کر اس کے حساب سے قیمتیں طے کرتے ہیں۔ اگر صارف ان قیمتوں کو قبول کر لے تو کاروبار چلتے جاتے ہیں اور اگر صارف اس مخصوص چیز کو زیادہ قیمت کے سبب خریدنے سے انکار کر دے تو کاروباری سرگرمیاں رک جاتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں نقصان سوسائٹی کا ہے۔ مثال کے طور پر اگر میں نے ایک چیز سو روپے کی بنائی ہے، اور بھتہ مافیا مجھ سمیت تمام کاروباری افراد سے 30 روپے بھتہ مانگ رہا ہےتو نتیجہ میں مجھ سمیت تمام کاروباری ادارے اس چیز کی قیمت 130 روپے کی لاگت سے طے کریں گے یوں بھتہ مافیا کی بدمعاشی پر خاموش عوام بھی اس کی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہو گی۔

ریاست جتنی کمزور ہو گی پرائیویٹ کرپشن اتنی زیادہ ہو گی۔ یاد رہے کہ ریاست کی کمزوری سے مراد یہاں تمام ریاستی اداروں کی اپنے اپنے دائرہ کار میں پروفیشنل مہارتوں میں کمی اور غیر سنجیدگی ہے۔ اگر مجھے مال کی ڈیلوری دیتے ہوئے ٹرک چھن جانے کا خطرہ ہے تو سڑکوں کو پرامن بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی باوجود ایک لیگل کنٹریکٹ کے مجھے ادائیگی نہیں کر رہا تو قانونی معا ہدوں کی پابندی کروانا عدلیہ و انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

سرکاری کرپشن

سرکاری کرپشن کی آگے مزید دو اقسام ہیں

ایک: یہ کرپشن کی وہ قسم ہے جس میں سیاستدان اور سرکاری ملازمین یا بیوروکریسی کسی قانونی کام کو سست رفتاری کے بجائے تیز رفتاری سے سرانجام دینے کے لئے رشوت لیتے یا سفارش کا اثر لیتے ہیں، یا دوسرے لفظوں میں معمولی درجے کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد سے رشوت لے کر یا سفارش سن کر جو رعایت دی جاتی ہے، یا پھر کوئی ناجائز فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ اس قسم کی کرپشن کے اخراجات کو بھی عموماً ہر کاروبار اپنے پیداواری اخراجات میں ڈال کر صارف سے وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر مارکیٹ میں مقابلہ کی ثقافت ہے تو وہ اس کوشش میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ وہ کمپنی جس نے رشوت دیئے بغیر قانونی طور پر تمام سرگرمیاں سرانجام دی ہوتی ہیں ان کی پیداواری لاگت چونکہ کم ہو گی اور وہ صارف کو اشیاء یا خدمات بھی کم قیمت پر پیش کریں گے یوں زیادہ قیمت وصول کرنے والا کاروبار مارکیٹ سے باہر ہو جائے گا یا پھر وہ کوئی اور حربہ سوچنے کی کوشش کرے گا۔ اگر میرے گھر کی گلی میں دو دکانیں ہیں اور دونوں میں کسی شے کی قیمت میں فرق ہے تو میں کم قیمت وصول کرنے والی دکان پر جاؤں گا۔ اسی طرح اگر پورے محلے میں صرف ایک ہی دکان ہے تو میں مجبور ہوں گا کہ اپنی ضرورت کے لئے منہ مانگے دام ادا کروں۔ اس قسم کی کرپشن سے دنیا کا کوئی ملک محفوظ نہیں۔ وہ ممالک جہاں مارکیٹ میں مقابلہ کی ثقافت پائی جاتی ہے وہاں اس کے اثرات بھی معاشی سرگرمیوں پر محدود ہیں جنہیں عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلاصفحہ کا بٹن دبائیے

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments