پاکستان میں پانی کا بحران، عوام اور حکومت کیا کرہے ہیں؟


خالق کائنات کی ان گنت نعمتیں ہیں ،جس کو انسان شمار بھی نہیں کرسکتا،اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں میں ایک اہم ترین نعمت پانی بھی ہے ،جس پر انسان کی بقا اور حیات موقوف ہے ۔پانی بہت بڑی ہے نعمت ہے ،انسان کو ا س کی اہمیت اور ضرورت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب پیاس کی شدت اس کو بے چین و بے قرار کردے ،تب اسے ایک گھونٹ پانی کی قدر کا احساس ہوگا اور سمجھ میں آئے گا کہ یہ اللہ تعالی کی کیسی عظیم الشان نعمت ہے۔اس خوبصورت اور حسین زمین کو %71 پانی نے ڈھانپ رکھا ہے ،جس میں%96.5 سمندر اور دریائوں کا پانی ہے، %1.7 پانی زیرِ زمین پایا جاتا ہے، %1.7 گلیشیر کی صورت میں موجود ہے۔ %0.001 پانی نمی کے طور پر ہوا میں بھی پایا جاتا ہے۔%2.5 پانی صاف ستھرا یعنی کسی حد تک پینے کے قابل ہے۔ مگر المناک بات یہ کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بارشیں کم ہورہی ہیں، جس کی وجہ سے ڈیموں میں ذخیرہ پانی کا استعمال زیادہ اور آب کی آمد کم ہے۔ دوسری بڑی وجہ پانی کا بے دریغ استعمال ہے۔

2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک ترقی پذیر ممالک میں پانی کی طلب %50 بڑھ جائے گی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق 2025 تک آدھے سے زائد دنیا پانی کی شارٹیج اور کسی حد تک خشک سالی کا شکار ہوجا ئے گی، اس کا مطلب ہے کہ آدھی سے زائد دنیا پانی سے محروم ہو جائے گی۔ کیپ ٹاؤن جو دنیا کا پہلا ڈے زیرو شہر بننے کے دوراہے پر تھا، وہاں حکومت اور لوگوں کی سمجھداری کی وجہ سے ڈے زیرو کی لٹکتی تلوار اگلے سال تک ٹل گئی ہے۔ البتہ پانی کی شدید کمی کے شکار ممالک کی روز بروز طویل ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ پاکستان میں منگلا اور تربیلا ڈیم خشک ہو رہے ہیں، تربیلا ڈیم میں اس وقت 2لاکھ ایکڑ پانی موجود ہے اور پانی کا اخراج 40 ہزار کیوسک ہے۔ اس وقت پنجاب اور سندھ کو %70 پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ اس وقت دریاؤں میں پانی کا مجموعی بہاؤ 31 ہزار کیوسک اور اخراج 68 ہزار کیوسک ہے یعنی اس برس بھی ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بارشوں کا سارا پانی سمندر برد ہو جائے گا مطلب پانی ضائع ہو جائے گا۔ پھر ہم وہی رونا رویا جائے گا کہ ملک شدید پانی کے بحران سے دو چار ہے اور حکومت اس بحران سے نمٹنے کی کوشش نہیں کررہی۔

بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی دنیا میں پانی کے بحران کا شکار ممالک کی فہرست میں پاکستان تسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے بھی اپنی رپورٹ میں پیشنگوئی کی ہے کہ اگر حکومت نے آبی وسائل کو محفوظ بنانے کے لئے کو خاطر خواہ انتظام نہ کیے تو پاکستان 2025 تک شدید خشک سالی کا شکار ہو جائے گا۔ زمین سے حاصل کردہ پانی مزید نیچے چلا جائے گا اور بور سے حاصل کردہ پانی بھی ختم ہو جائے گا۔ یقیناَ دہشت گردی پاکستان میں ایک بڑا خطرہ ہے مگر پانی کا بحران کسی دہشت گردی کے خطرہ سے کم نہیں۔ آدھا ملک تو ہو ویسے ہی پانی خرید کر پینے پر مجبور ہے۔ غور کیجئے کہ اگر تمام پاکستان کے لوگ خرید کر پانی پیئے گے تو کیا ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ 2025 میں آنے والے پانی کے شدید بحران اور ملک میں خشک سالی سے کیسے بچا جائے؟ حکومتی سطح پر پانی کے بحران پر بہت کام کی ضرورت ہے۔ ہنگامی طور پر ڈیم تعمیر کیے جائیں اور کم ازکم تین چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر پابی کو سٹور کرنے کی حکمت عملی مرتب کی جائے۔

واٹر سٹریس سے بچنے کے لئے آبی ایمرجنسی لگائی جائے یعنی پانی کی ترسیل کا کام راشن کارڈ کے ذریعے کیا جائے اور فی گھر پانی دینے کا نظام متعارف کرایا جائے۔ فلٹریشن پلانٹس زیادہ سے زیادہ نصب کیے جائیں۔ انفرادی سطح پر پانی کے بچاؤ کے لئے عوام کو بھی سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ہاں جس طرح کپڑوں کو دھونے کا نظام ہے اس سے ہم تقریباً 116 لیٹر پانی کا ضیاع کرتے ہیں۔ اگر عوام سمجھداری کا مظاہرہ کریں تو بالٹی کا استعمال کرتے ہوئے کپڑے دھو سکتے ہیں، ایسا کرنے سے ہم 36 لیٹر میں بھی یہ کام مکمل کر سکتے ہیں جو 116لیٹر میں ہم ہر دوسرے روز کرتے ہیں۔ اس علاوہ ہم جدید ٹوئلٹ اور نہانے کے لئے شاور کا استعمال کرتے ہیں اور اس طرح ہم دن بھر میں تقریباً 20 لیٹر پانی صرف فلش کرنے میں ضائع کردیتے ہیں۔ اگر بالٹی کا استعمال ہو تو 6 لیٹر پانی استعمال ہوگا یعنی 14 لیٹر پانی اس خوبصورت عمل سے بچایا جا سکتا ہے۔ شاور میں نہانے سے تقریباً 100 لیٹر پانی کا ضیاع ہوتا ہے، اگر بالٹی کا استعمال ہو تو 6 لیٹر پانی استعمال ہو یعنی 94 لیٹر پانی ہم انفرادی سطح پر بچا سکتے ہیں۔

اکثر ہمارے یہاں مرد حضرات شیو کی غرض سے پانی کا نل کھلا چھوڑ دیتے ہیں جس سے تقریبا 5 لیٹر پانی کا ضیاع ہوتا ہے، شیو کے لئے مَگ کا استعمال کیا جائے تو 0۔ 5 لیٹر میں بھی شیو کی جا سکتی ہے۔ صبح اٹھ کر منہ دھونے اور دانت صاف کرنے میں ہم نل کھلا رکھتے ہیں، اس سارے عمل میں ہم ہر روز تقریبا 5 لیٹر پانی کا ضیاع کرتے ہیں اگر ضرورت کے تحت نل کھولیں، کفایت شعاری سے پانی استعمال کریں تو 0.75 لیٹر پانی استعمال ہو۔ گاڑی دھونا ہمارے ہاں معمولی کا عمل ہے، پاکستان میں گاڑی دھونے عوام سو لیٹر پانی ضائع کرتے ہیں، بالٹی کا استعمال کیا جائے تو 2 سے 3 بالٹیوں میں بھی ہم گاڑی دھو سکتے ہیں۔ اس کا مطلب کہ ہم اس طرح 94 لیٹر تک پانی بچا سکتے ہیں۔

ہم وہ عظیم قوم ہیں، جو لنڈا بازار سے کپڑے خرید کر ایک سوٹ کو دو سے تین بار واش کرتے ہیں۔ ایک لمحے کو سوچیں کہ ہم کسی دن نیند سے اٹھیں اور خبر ملے کہ شہر بھر میں پانی ختم ہوگیا ہے۔ زمین بنجر ہو گئی ہے اور پانی کے ذخائر بھی ختم ہوگئے، اب پوری زندگی ہی پانی کے بغیر گزارنی ہے تو کیسا محسوس ہوگا؟ کھان کھائے بغیر تو انسان کسی نہ کسی طرح زندہ رہ سکتا ہے مگر پانی کے بغیر زندہ رہنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ان باتوں کا خیال رکھیں، اپنی اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بچائیں۔ پاکستان میں پانی کے بحران کے حوالے سے آج کل ہر روز خبریں آرہی ہیں، کہا جارہا ہے کہ اس سال پانی کی کمی پچاس فیصد سے زائد ہوگی۔ پانی کے بحران کے حوالے سے سرکاری سطح پر اجلاس بھی ہورہے ہیں، ایمرجنسی اقدامات بھی کیے جارہے ہیں، لیکن میڈیا پر پانی کے بحران کے حوالے سے آگاہی اور شعور فراہم نہیں کیا جارہا، اس لئے ضروری ہے کہ پانی کے بحران کے حوالے سے نیوز چینلز اور اخبارات میں اشتہارات چلائے جائیں تاکہ عوام کو بنیادی آگاہی اور شعور ان کے گھر میں میسر ہو۔

المناک صورتحال یہ ہے کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی نے تازہ ترین رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت آبی زخائر میں دو لاکھ بیس ہزار کیوسک پانی رہ گیا ہے۔ نہروں میں صرف پنتیس فیصد پانی مہیا ہے۔ ارسا کے مطابق گلیشیئرز کا جلد پگھلاؤ نہ ہوا، اور مون سون کی غیر معمولی بارشیں نہ ہوئی تو حالات بدترین ہو جائیں گے۔ ارسا کی رپورٹ کے مطابق تربیلا ڈیم ڈیڈ لیول تک پہنچ گیا ہے۔ کلائیمیٹ چینج منسٹری کے مطابق شمالی علاقہ جات میں گلیشیرز جس تیزی سے پگھل رہے ہیں، اس سے پانچ ہزار نئی جھیلیں بن چکی ہیں جو کہ اب پھٹنے کو تیار ہیں۔ تھوڑی سی مزید گرمی بڑھی تو اگلے بیس روز میں سیلاب آسکتا ہے۔ سیلاب کا مطلب ہے کہ پانی ضائع ہوگا اور جانی و مالی نقصان بھی ہوگا، پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے بھی تو کوئی سائینٹیفک سسٹم موجود نہیں ہے۔

حال ہی میں نیشنل واٹر پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے۔ سنا ہے اس پالیسی میں اہم اقدامات کو نظر ا انداز کیا گیا ہے۔ چالیس فیصد پانی جو دستیاب ہے صرف اس لئے ضائع ہورہا ہے کہ نہروں اور کھالوں کی لائینگ نہیں ہوئی۔ پاکستان 1990میں آبی قلت کے دور میں داخل ہوا تھا، 2005 میں اس ملک نے آبی قحط کی لائن عبور کی، اور اب یہ صورتحال ہے کہ ضرورت کا پانی بھی دستیاب نہیں۔ پاکستان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے وہ پانی کے مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیتی، وہ مسئلہ جس کے بارے میں دنیا کے ریسرچ پیپرز میں یہ کہا جارہا ہے کہ اب پانی کے مسئلے پر جنگ ہوں گی۔ وہ ملک جو دنیا کے ان پانچ ملکوں میں شمار ہوتا ہے جہاں پانی کا شدید بحرا ن وہاں کی حکومتیں پانی کے مسئلے کو مسئلہ ہی نہیں سمجھ رہی ہیں۔ امید ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے بعد آنے والی حکومت پانی کے بحران کے حوالے سے مربوط پالیسی اپنائے گی۔ عوام سے صرف اتنی اپیل ہے کہ وہ انفرادی سطح پر اقدامات اٹھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).