جب زمین انسانوں سے چھین لی گئی


2008ء میں ہالی ووڈ کی ایک مووی ریلیز ہوئی جس کا نام “The Day the earth stood still” تھا۔ اس فلم میں دنیا ختم ہونے کے چند مناظر دکھائے گئے اور دکھایا گیا کہ اس سیارے کا خاتمہ دوسرے تمام سیاروں کی مخلوقات ملکر کرنا چاہتی ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اس زمین نامی سیارے کو انسانوں نے کسی بھی سپی شیز یا جیون جاتی کے قابل نہیں چھوڑا۔

خود انسانوں کے لیے بھی یہ جگہ اب محفوظ نہیں رہی بلکہ دوسرے سیاروں کی مخلوق اس زمین کو برباد کرنے میں انسان کو ہی سب سے زیادہ قصو وار ٹھہراتی ہے اور اب جبکہ یہ سیارہ بالکل ہی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے تو اس سے پہلے کیوں نہ یہاں سے باقی ماندہ انسانوں کو ہی ختم کر کے اس کی بحالی کا کام کیا جائے۔

یہ فیصلہ دوسرے تمام سیاروں کی مخلوقات کا مشترکہ فیصلہ ہوتا ہے لہذا دوسرے سیارے سے چند ایلینز یعنی دوسری دنیا کے لوگ زمین پر بھیجے جاتے ہیں تاکہ وہ یہاں سے انسانوں کا خاتمہ کر سکیں۔

ایلین زمین پر اپنے مشن کو پورا کرنے کے لیے نکل پڑتے ہیں اور اسی دوران ایک ایلین کی ملاقات ایک ایسی لڑکی سے ہوتی ہے جو خود ایک سائنسدان کی بیوی ہے۔ ایک ایسے سائنسدان کی بیوی جو ناسا میں کام کرتا ہے۔

جب اس لڑکی کو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایلین زمین سے انسان جاتی کا خاتمہ کرنے آیا ہے تو وہ اسے مخاطب کر کے کہتی ہے کہ تم زمین کو محفوظ کرنے کے لیے انسانوں کی جان کیوں لینا چاہتے ہو، انسانوں نے آخر کیا بگاڑا ہے۔ تم ایسا نہ کرو۔

ایلین کہتا ہے “نہیں ایسا ممکن نہیں! ہم نے بہت انتظار کیا کہ تم لوگ بدلو، شاید سمجھ جاؤ۔ امید، یقین ، انتظار سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن اب نہیں!

“تمھاری وجہ سے سب سے پرامن سیارہ سب سے زیادہ خطرناک بن چکا ہے لہذا اس کے بچاؤ کے لیے تم لوگوں کا ختم ہونا بہت ضروری ہے۔”

اس ایلین کی انکھیں غصے سے سرخ ہو رہی ہوتی ہے  بالکل ایسے ہی جیسے کوئی کسی کے باغیچے کو خراب کر کے رکھ دے، چھوٹے پودے جڑوں سے اکھاڑ پھینکے، درخت کاٹ دے اور باقی کی لکڑی کو آگ لگا دے۔

ماحولیات کے عالمی دن پر نجانے کیوں اچانک مجھے اس فلم کے یہ چند مںاظر یاد آرہے ہیں اور میں اس دوران 48 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں ماحولیات کے عالمی دن کے حوالے سے بلاگ لکھنے کا سوچ رہا ہوں۔

اس دوران چھت پر لگا پنکھا گرم ہوا کے ساتھ میرے کمرے میں حبس زدہ ماحول پیدا کر رہا ہے اور کھڑکی سے نظر آنے والے درخت کے پتے یوں ساکت نظر آرہے ہیں جیسے نظر آنے والا درخت دراصل کوئی تصویر ہو۔

اس کی شاخیں اور پتے ہرگز سراسراہٹ کا شکار نہیں ہیں بلکہ بے جان ہیں۔

اقوام متحدہ کو 1974ء میں اس دن کو منانے کا خیال آیا جس کا مقصد لوگوں کو قدرتی ماحول کے حوالے سے آگہی فرام کرنا تھا لیکن آج صرف چند سالوں میں آگہی تو دور کی بات قدرتی ماحول کے نتائج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے باسی 2025ء میں یہاں پانی ختم ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔

یہ حالات کچھ یوں ہیں کہ زیر زمین پانی ختم ہونے کو ہے۔ پودے، درخت غائب ہیں۔ پکے مکانوں میں باغیچوں کی جگہ بڑے بڑۓ گیراج اور کچے مکانوں کے صحن میں برگد اور نیم کے درختوں کی بجائے پکی اینٹوں کے فرش ہیں۔

دوسری جانب زمین کو سب سے زیادہ تباہ حال کرنے والی پلاسٹک آلودگی کے نقصانات سے لوگ آج بھی نابلد ہیں اور حال یہ ہے کہ یہاں کے چاروں موسم بھی ہم سے روٹھ گئے ہیں۔

اندرون سندھ، پنجاب، بلوچستان غرض پورے پاکستان میں درجہ حرارت کی زیادتی اور خاص کر کراچی کا حال آپ ہر نیوز بلٹین میں دیکھ اور سن سکتے ہیں۔

ایسے میں ہمارا حال کیا ہونے والا ہے اس کا احساس شاید ہمیں تب تک نہ ہو جب تک یہ سب ہم پر بیت نہ جائے۔

“ہماری زمین پر ہر سال ڈیڑھ لاکھ درخت ضائع ہو رہے ہیں جبکہ اسے دوسرے لفظوں میں بیان کیا جائے تو ہر ایک منٹ میں 56 ایکڑ جنگلی رقبہ زمین سے ختم ہو رہا ہے۔

مندرجہ بالا متن زمین کے عالمی دن 2017ء کے موقع پر ارتھ ڈے آرگنائزیشن کی جاری کردہ رپورٹ سے شامل کیا گیا ہے۔

ایسے میں ہمیں درختوں کی بے انتہا ضرورت ہے۔ پلاسٹک کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ قدرتی ایندھن (درخت) سے باز آنے کی ضرورت ہے۔ پانی کا صحیح اور جائز استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ گاڑیوں کو پینے کے پانی سے دھونے کی بجائے گیلے کپڑے سے صاف کرنے کی ضرورت ہے۔

دکانوں، گھروں اور شاہراؤں پر بے دریغ صاف پانی پھینکنے کی بجائے اسے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ گھروں میں پودوں کی آبیاری کی ضرورت ہے۔ ٹیوب ویل، ٹربائن کی بجائے نہری پانی استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ درختوں کے قتل عام کو روکنے کی ضرورت ہے اور سب سے بڑی بات اس وقت کی نزاکت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

“خود کو قدرت سے جوڑئیے، اپنے گھر سے باہر نکل کر کسی قدرتی مقام پر جائیں، درختوں اور پھولوں کے بیچ صبح یا شام کی تازہ ہوا میں ایک جی بھر کر لمبی سانس لیں اور محسوس کریں اس خوبصورتی کو اور اس کی اہمیت کو اور اسکے ساتھ ہی تہیہ کریں کہ آپ ہی نے اس قدرت کا تحفظ کرنا ہے۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).