طلاق عیب نہ ہوتی تو آج صبا زندہ ہوتی


اور اب صبا کی باری آگئی۔ اس کو اجل اپنی مرضی سے لے کر نہیں اُڑی بلکہ وہ معاشرے کی سنگ دلی اور بے حسی کی بھینٹ چڑھائی گئی۔ صبا کے قتل کے ذمہ دار تو بہت سارے افراد ہیں۔ سب سے پہلے تو والدین، جو ہر بار اسے سمجھا بجھا کر سسرال نام کے جہنم کی طرف ہنکا دیتے تھے، ان کے نزدیک بھی اہم شاید یہی تھا کہ خاندان کی کانچ جیسی عزت پر آنچ نہ آئے، طلاق کے داغ سے صبا کا دامن داغ دار نہ ہو، لوگوں کی اٹھتی انگلیوں اور بے جا سوالات سے وہ بچے رہیں سو بچ گئے، ہاں بس ایک صبا ہی نہ بچی۔ چلو خیر ہے! مر بھی گئی تو کیا ہوا، خاندان کی ناک تو کٹنے سے بچ گئی۔ جانتی ہوں کہ میرے یہ جملے غم میں ڈوبے ہوئے خاندان کے زخموں کو کریدنے اور اذیتوں کے نئے باب ہی کھولنے کا باعث ہیں، لیکن اکثر سنگ دلی کی حد پر جاکر ہی غلطیوں کی نشان دہی کرنا ضروری ہوجاتا ہے، خصوصاً اس وقت جب معاملہ ایسی سسکتی بلکتی سیکڑوں لڑکیوں کی زندگیوں کا ہو۔

صبا کی کہانی کوئی نئی نہیں۔ صبا کراچی کی رہائشی دو بچوں کی ماں تھی۔ ہر لڑکی کی طرح اس نے بھی اپنے ساتھ ہونے والی ہر نا انصافی پر کسی کے سامنے اپنا دل کھول کر نہ رکھا۔ کیوں! کیا واقعی، صرف اس لیے کہ اس کے ماں باپ دکھی نہ ہوں۔ ارے نہیں جناب، جانے دیجیے! اس بودے سے جواز کو میں نہیں مانتی۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ایک لڑکی شوہر اور سسرال کی طرف سے ہونے والے تمام مظالم اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر صرف اس لیے چپ رہ کر وقت کو آگے کی طرف دھکیلتی ہے کہ کسی کو بتا کر بھی فرق کون سا پڑ جانا ہے؟ سمجھوتے، صبر، برداشت، خدمت اور دل جیت لینے کے وہی گھسے پٹے اسباق رٹوا کر واپس اسی فرعون کی دہلیز پر چھوڑ جانے کے سوا والدین اورکرتے ہی کیا ہیں!

یہی تو صبا کے والدین نے بھی کیا، ہر ظلم کے بعد روتے ہوئے صبا اپنی ماں سے کہتی ’ امی میں ہر طرح سے انہیں خوش کرنے کی کوشش کرتی تو ہوں‘، لیکن اس کے والدین، مزیدو خدمت اور صبر کرنے کی تلقین کر کے واپس بھیج دیتے۔ حتی کہ شوہر نامی جلاد نے مار مار کر جب اسے لہولہان کر دیا، حتیٰ کہ کان کا پردہ بھی پھاڑ دیا، انتہائی بھیانک اس صورت حال میں بھی سمجھا بجھا کر، صبا کو واپس جلاد کے حوالے کردینے کا جرم بہرحال صبا کے والدین سے ہی سرزد ہوا ہے۔ مجھے کہہ لینے دیجیے کہ جس لڑکی کو یہ یقین ہو کہ اس کے گھر والوں کے نزدیک خاندان میں اپنی نام نہاد عزت بچانے سے زیادہ اہم اس کی زندگی ہے، وہ زبان سی کر ملازمہ بننے، بے عزتی برداشت کرنے اور جسمانی تشدد بھگتنے کے بجائے تن کر کھڑی ہوتی ہے اور سسرال والوں کا جوتا انہی کے منہہ پر مار کر چلی آتی ہے۔

صبا کی کہانی بھی، ایسے ہی وحشیوں میں بیاہی گئی ایک عام پاکستانی عورت کی کہانی ہے۔ پست، نیچ اور گھٹیا سوچ جب معاشرے میں مجسم شکل اختیار کرتی ہے تو نشانہ عورت ہی بنتی ہے۔ پھر چاہے اسے نکاح جیسے پاکیزہ بندھن میں ہی کیوں نہ باندھ دیا جائے، وہ ہم سفر اور ہم راز کہاں بن پاتی ہے! بس ایک عورت ہی رہ جاتی ہے، جس کا مقدر صرف ذلت اور رسوائی بنا دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی تقریباً ہر گلی اور کوچے میں ایسی داستانیں بکھری پڑی ہیں جو نہایت خاموشی سے جنم لیتی ہیں اور کمال رازداری کے ساتھ دفن کر دی جاتی ہیں۔

صبا کی موت، معاشرے کے اسی پڑھائے گئے سبق کی عملی تفسیر ہے جو رخصتی کے وقت تقریباً ہر گھر میں، بیٹی کو گھول کر پلایا جاتا ہے۔ لڑکی کی شادی سے قبل خاندان کی ساری بڑی بوڑھیاں بقراط کی بھی خالہ بنی ہوتی ہیں۔ نصیحتوں کا پنڈورا بکس کُھلا ہوتا ہے۔ بٹیا رانی! ڈولی میں بھیج رہے ہیں اب ڈولی میں ہی نکلنا، شکوہ زبان پر نہ لانا، دل مار لینا، زبان پیٹ میں اتار لینا، لب سی لینا، اف نہ کرنا۔ اور نہ معلوم کیا کیا۔ میں نے آج تک نہیں سنا کہ کسی ماں نے بیٹی کو رخصت کرتے وقت کہا ہو کہ بیٹا عزت اور وقار پر کسی صورت سمجھوتا نہ کرنا، کبھی کسی باپ نے سینے سے لگا کر کہا ہو کہ میری شہزادی! تجھے رسم نبھانے کو رخصت تو کر دیا ہے لیکن تیرا غم اب بھی میرا ہی غم ہے۔ کبھی بھائی نے اپنا بازو بہن کے کندھے پر پھیلا کر سرگوشی ہی کی ہو کہ اپنے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دینا، یاد رکھنا، میں تمہارے دفاع کے لیے ہمیشہ ساتھ کھڑا ہوں۔

میں اپنے چاروں طرف نظر دوڑاتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جناب یہ معاشرہ تو ماشا اللہ حاجیوں اور نمازیوں سے بھرا پڑا ہے۔ بظاہر ایک عام سا نظر آنے والا فرد بھی اندر سے ’ولی کامل‘ ہے، دینی امور پر لوگوں کی کیا ہی خوب دست رس ہے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ مجھ جیسے آزاد منش تو اکثر اس ’دینی فضا‘ میں مس فِٹ معلوم ہوتے ہیں، دین دار طبقہ تو پاکستان میں اتنا طاقت ور ہے کہ بسا اوقات ہمیں اپنی جان کے خوف سے اپنے آزاد خیالات پر خود ہی پابندی لگانی پڑجاتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہتی ہوں کہ ان دین داروں کی منافقت سے مجھے گھِن آتی ہے، جب ان کی پگڑیوں کے شملے قرآنی آیتوں سے زیادہ مکرم ہو جاتے ہیں، خاندانی ناک اور جھوٹے وقار کے آگے اللہ اور نبیؐ کے فرمان دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ آخر کیوں! کیوں مسلمانوں کی اکثریت نے اپنی مرضی سے شریعت کے کسی حصے کو تو خود پر حلال کر لیا ہے اور کسی کو حرام۔

اس کی ایک بڑی مثال اللہ کی جانب سے مرد اور عورت کو فراہم کردہ طلاق یا خلع کا اختیار ہے، جو آج جیسے پرآشوب دور میں کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس عین حلال اور شرعی اختیار کو مکروہ اور ناپسندیدہ کے کھاتے میں ڈال کر اس کے ثمرات سمیٹنے کے بجائے یہ معاشرہ بس بیٹیوں کے جنازے گن رہا ہے۔ نقصان صرف ان لڑکیوں کا نہیں جو ظلم سہتے سہتے جان سے جا رہی ہیں بلکہ ان ننھے ننھے بچوں کا بھی ہے جو میاں بیوی کے درمیان ناراضگی مٹانے کی حیوانی کوششوں سے دنیا میں آجاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر نزاعی صورت حال میں میاں بیوی کے درمیان قرآن کے طریقے کے مطابق احسن طور پر علیحدگی ہوجائے تو نہ صرف دونوں ایک نئی اور پر سکون زندگی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں بلکہ بچوں کو بھی ماں اور باپ دونوں کی شفقت اور سایہ میسر آسکتا ہے۔

لیکن نہیں۔ رک جائیے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے خاندانی وقار ملیا میٹ ہوجائے، لہٰذا شوہر کے پاس بیوی سے نجات پانے کا واحد معاشرتی طریقہ بس یہی ہے کہ اس کا قتل کردیا جائے۔ اب کیا کریں اگر اندھے معاشرے کو اسی میں اپنی عزت نظر آتی ہے۔ بس تو پھر گنتے جائیے بیٹیوں کے لاشے اور اٹھائیے ان کے جنازے۔ لیکن شرط وہی ہے صبا کی طرح آپ بھی اپنے لب سی لیجیے اور زبان پیٹ میں اتار لیجیے، کیوں کہ یہ آپ کا اپنا انتخاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).