پانی کا بحران اور آبی ذخائر کی کمی کانوحہ


اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تواندازہ ہوتا ہے کہ پرانے وقتوں میں جنگ کے دوران حملہ آور قلعہ کی سپلائی لائن کاٹ دیتے تھے تاکہ محصورین تک پانی اور رسد نہ پہنچ سکے اور وہ بھوک پیاس سے تنگ آکر ہتھیار ڈال دیں۔بھارت نے جنگی میدان میں پاکستان سے شکست کے بعد یہی آبی جارحیت کی پالیسی اپنائی تاکہ پاکستان پانی کی کمیابی کے باعث صومالیہ، ایتھوپیا اور راونڈا کی طرح زندہ انسانوں کا گورستان بن جائے۔بھارت اسی منصوبہ بندی کے تحت پاکستان میں پانی کا بحر ان پیداکررہاہے تاکہ پاکستان کی معیشت کو تباہ کیا جاسکے۔

پاکستانی صوبوں کے درمیان پانی کے مسئلے پر پہلے ہی تنا زعات مو جو د ہیں اگر بھا رتی ڈیموں کے باعث پانی میں مزید کمی ہوتی ہے تو ان تنازعات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔شریر بھارت کی بھی یہی سازش ہے کہ پاکستانی صوبوں کے درمیان تنازعات میں اضافہ ہو جس سے ملکی سا لمیت اور یک جہتی کو نقصان پہنچے۔ مستقبل میں پانی کے شدید بحران کے نتیجہ میں پاکستان کی زراعت کو نقصان پہنچتا ہے تو اس سے اس کا صنعتی شعبہ بھی شد ید متاثر ہوگا اور بجلی کا بحران شدید سے شدید تر ہو تا چلا جائے گا۔ اس طرح پاکستان معاشی لحاظ سے اتنا کمزور ملک ہو جائے گا کہ وہ کسی بھی میدان میں بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عالمی بینک نے کشن کنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کی شکایات اور شواہد کو ناکافی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔درحقیقت یہ پاکستان کی بھارت سے سفارتی محاذ پر ایک بڑی شکست ہے۔کشن گنگا ڈیم کی تعمیر 2009ء میں شروع ہوئی جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور ن لیگ مضبوط اپوزیشن تھی۔2011 کے بعد دو سال تک یہ کیس عالمی عدالت میں چلتا رہا لیکن بالآخر عالمی ثالثی عدالت نے نہ صر ف پاکستان کے اعتراضات مسترد کر دیے بلکہ بھارت کو پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی۔

یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیا جارہا تھا اور خارجہ امور کا قلمدان بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پاس تھا۔بھارت نوازی کی داستان صرف یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ دریائے سندھ پر بنائے جانے والے متنازعہ پن بجلی کے منصوبے نیموباز گو کے خلاف بھی وزیر اعظم صاحب کے احکامات کے مطابق عالمی عدالت میں جانے سے روک دیا گیا کہ “خوامخواہ اس کیس پر وقت ضائع ہوگا”۔بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کر لیا ، یہی نہیں اس دوران “چٹک” کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور ہم صرف بھارت سے پینگیں بڑھانے کے خواب دیکھتے رہے۔

گزشتہ چھ دہائیوں سے کسی آبی ذخیرے کو تعمیر کرنے میں ہماری ناکامی مستقبل کے لیے ہماری بے فکری کو ظاہر کرتی ہے۔ ہم سالانہ 145 ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل کرتے ہیں، جس میں سے ہم صرف 14 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرتے ہیں اور 34ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔ ہم عملاً نئے آبی ذخائر تعمیر نہ کرکے 21ارب ڈالر کا پانی ضائع کر رہے ہیں۔اس وقت پاکستان میں کْل دریائی پانی 153ملین ایکڑفٹ جبکہ زیرِ زمین پانی 24ملین ایکڑ فٹ ہے اوراگرآبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی اورآبی ذخائر بڑھانے پر توجہ نہ دی گئی تو 2025میں پاکستان کو 33ملین ایکڑفٹ پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نیشنل ریسرچ ایجنڈا برائے پانی کے مطابق اس وقت پاکستا ن کے پاس صرف 30 دن کا پانی محفوظ کر سکتا ہے جبکہ بھارت کے پاس 250دن کا پانی محفوظ رکھنے کی صلاحیت ہے۔

ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری کا یہاں سے اندازہ کر لیں کہ گزشتہ کچھ عرصہ میں بھارت صرف دریائے سندھ پر چودہ چھوٹے ڈیم اور دو بڑے ڈیم مکمل کر چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ منگلا ڈیم اکتوبر 2017 سے خالی پڑا ہے جبکہ تربیلا ڈیم بھی اس وقت بارش کا محتاج ہے۔

یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، پانی کے حوالہ سے ہمارا مستقبل بہت دردناک ہے، دو سال قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے محتاج کر دے گا اور وہ اس پر عمل کر رہا ہے۔ بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52ڈیم بنا رہا ہے اور دریائے چناب پر مزید24ڈیموں کی تعمیر جاری ہے۔ اسی طرح آگے چل کر مزید190ڈیم فزیبلٹی رپورٹس ، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں۔زرعی ماہرین کیمطابق بھارتی آبی جارحیت سے پاکستان اور کسانوں کو سالانہ 6 کھرب روپوں کا نقصان ہو گا۔

یہ سب کچھ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے لیکن کوئی اس کے حل کے لیے سامنے نہیں آرہا۔ کوئی نیا پاکستان بنانے کے زعم میں ہے، کوئی ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کر رہا ہے، کوئی مذہب پر سیاست کر رہا ہے تو کوئی محض ذاتی مفاد کے لیے چیئر گیم کا حصہ ہے۔اگر یہ مسئلہ کسی پارٹی کے منشور میں شامل نہیں ہے تو اس کے ذمہ دار ہم ہیں۔عوام کے ووٹ دینے کے معیار نالیاں پکی کرنا، قیمے والا نان یا نام نہاد نمائشی سکیمیں ہیں، دراصل عوام ذہنی غلام بن چکے ہیں جن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ان کے سیاسی خداؤں کے تابع ہیں۔اگر مجھ جیسے کم علم کو یہ حقائق ملکی مستقبل کے لیے فکر مند کرسکتے ہیں تو ہمارے نام نہاد دانشور اور میڈیا ہاؤسز کیوں ان موضوعات پر بات نہیں کرتے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بطورِ عوام ان موضوعات پر بات کرنا ہی نہیں چاہتے۔

پانی کی کمیابی اور دیگر مسائل سے متعلق دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے اور ترقی یافتہ ممالک آئندہ سو سال کو مدِنظر رکھتے ہوئے آبی ذخائر کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہیں۔یہی نہیں ان ممالک میں ایسے مسائل پر عوامی سطح پر شعور اجاگر کیا جاتا ہے جس کے لیے میڈیا ہاؤسز اور تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔اس مقصد کے لیے باقاعدہ ڈسکشن فورمز تشکیل دیے جاتے ہیں جہاں ان مسائل سے متعلق ماہرین اور عام لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور مسائل کے حل کے لیے تجاویز پیش کرتے ہیں۔

ہمار ی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں اہم معاملات کو بھی سیاست ، بحث اورتنا زعات کی نذر کر دیا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ قومی منصوبے فرد واحد کے لیے نہیں ہوتے بلکہ ان سے پور ی قوم کو فائدہ ہوتا ہے ۔کالا باغ ڈیم کے علاوہ بھی کئی ایسے ڈیمز ہیں جن کی تعمیر پر کسی کو اعتراض نہیں ہے مگر پھر بھی ان کی تعمیر میں بھی سستی اور غفلت سے کا م لیا جارہا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ تمام صوبوں کے تکنیکی ماہر ین کی ایک ایسی ٹیم تشکیل دے جو ہر صوبے میں جہاں ممکن ہو چھوٹے بڑے ڈیم بنا نے کے متعلق مشورے بھی فراہم کرے اور اس حوالے سے مو جو د رکاوٹوں کو دورکرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرے ۔عام پاکستانیوں کو ڈیموں کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کیا جانا ضروری ہے لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ بجلی اور پانی کی محرومی زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کرکے ہی دورکی جاسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).