پدر سری عدالت میں شک کا فائدہ


خدیجہ صدیقی کیس کے بارے طلبہ و اساتذہ استفسار کر رہے تھے کہ میں اپنی رائے کا اظہار کروں تو میری ناقص رائے کے مطابق فوجداری قانون کا ایک مسلمہ اصول ہے
accused is the most favorite child of law
اور استغاثہ کا صرف ایک کام ہوتا ہے کہ
To prove the case beyond any reasonable doubt

جبکہ وکیلِ صفائی کو سب سے پہلے اپنا کیس general exceptions سے ثابت کرنا پڑتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو سکتا ہو تو پھر Benefit of Doubt سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں جہاں ٖکرمنل انویسٹیگیشن اور استغاثہ کا نظام انتہائی پرانا اور فرسودہ ہے یہ ایک نہایت آسان کام ہے اور کوئی بھی تجربہ کار زیرک
وکیل بڑی آسانی سے ملزم کو شک کا فائدہ دلا کر بری کرا سکتا ہے۔ اب جسٹس سردار احمد نعیم صاحب نے جو فیصلہ کیا ہے کیا وہ مبنی بر قانون ہے یا بار کے پریشر میں فیصلہ لکھوایا گیا ہے تو میری سمجھ کیمطابق ملزم کو شک کا فائدہ جو دیا گیا ہے وہ درست کیا گیا ہے۔ جیسے کہ

1۔ دن 2 بجے سکول کے سامنے چھریوں کے وار کیے گئے جبکہ اور بھی گاڑیاں وہاں موجود تھی لیکن کسی غیر جانبدار گواہ کو پیش نہیں کیا گیا
2۔ ملزم کو ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا اور پانچ دن کے بعد اس کا نام لیا گیا
3۔ مضروبہ اگر ہوش حواس میں نہیں تھی تو میڈیکل آفیسر کے سوالات کے جوابات صحیح کیسے دیتی رہی جبکہ ایف ائی آر اس کی موجودگی میں درج ہوئی
4۔ خون آلود کپڑوں کا ذکر نہیں ملتا نہ پیش کیے گئے

5۔ پہلے 11 ضربات کا ذکر ہے اور بعد میں 23 جبکہ جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ مضروبہ کی حالت نازک تھی اور اسے آپریشن کے لئے بھیج دیا گیا اور آپریشن کے بعد 12 ضربات کی نشاندہی ہو سکی جبکہ اس بابت اپریشن کرنے والے کسی سرجن کا کوئی ریکارڈ یا بیان نہیں۔
6۔ اگر الزام علیہا کی حالت نازک تھی تو وہ مجسٹریٹ کی کورٹ سے میڈیکل سر ٹیفیکیٹ کی اجازت کیسے حاصل کر آئی جبکہ مجسٹریٹ نے دونوں خواتین کو ملاحظہ کرنے کے بعد میڈیکل سرٹیفیکٹ کی اجازت دی۔
اس کے علاوہ بھی موٹیو کا ذکر ہے ہیلمٹ کا ذکر ہے آلہ ضربات کی ریکیوری 5 ماہ بعد کی ہے، ہائی پروفائل کیس ہے وغیرہ وغیرہ۔

اب آ جاتے ہیں استغاثہ کیطرف خدیجہ پر حملہ ہوا ڈرائیور ان کو ہسپتال لے گیا اور پولیس میں درخواست جمع کرائی جبکہ ڈرائیور کو ملزم کے نام کا پتہ کیسے ہوگا خدیجہ ڈری ہوئی ہوگی شاید اس لئے نام نہ لے سکی ہو، ملزم کو پانچ ماہ بعد گرفتار کیا گیا اور گرفتاری کے بعد ملزم کی نشاندہی پے چھری برآمد ہوئی ظاہر ہے اس وقت تک چھری پر نشان نہیں ہوں گے، ملزم کا بیان 340 کا ہے (2)340 کا نہیں ہے اور میرے شاگرد جانتے ہیں کہ میں اس بابت کافی زور سے بات سمجھاتا ہوں۔

ہیلمٹ کا رنگ کالا کہا جبکہ وہ لال تھا یا اصل میں دو رنگا تھا ذکر نہیں ہے۔ ہیلمٹ پر خون کے دھبے خدیجہ کے تھے اور اس کی تصدیق serologist کی رپورٹ سے ہوئی یا نہیں فیصلے میں ذکر نہیں ہے، ہائی پروفائل کیس ہونے پر زور دیا گیا مگر وضاحت نہیں کی گئی۔ کار جو کہ جائے وقوعہ ہے جج صاحب کے بقول پیش نہیں کی گئی جبکہ خدیجہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ کار کی باضابطہ سُپرداری کرائی گی اور اس میں سے اہم شواہد ملزم شاہ حسین کے خلاف اکٹھے کیے گیے اور ٹرائل کورٹ میں پیش بھی کیے گئے۔

یہ کیس جج صاحب کی پدر سری ذہنیت، پولیس کی ناقص تفتیش،   استغاثہ کے وکیل کی ناتجربہ کاری، وکیل کی طاقت اور بار کی سیاسی ساکھ اور اثر و رسوخ کا بہترین مظہر ہے،   کچھ باتیں جو میں نے محسوس کی ہیں بیان کر دی ہیں اب اس فیصلے کے حق میں بھی اور خلاف بھی دلیلیں دی جا سکتی ہیں۔ اس کیس کے فیصلے کا انحصار محمد منشا بنام سرکار 2018 SCMR 772 پر کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).