مستقبل بلاول اور مریم کا ہے


پاکستان کے حالات اچھے نہیں، عدم توازن کا شکار ہوچکے ہیں۔ پاکستان، افغانستان بنتا جا رہا ہے۔ نوٹوں کی بوریاں لے کر جاؤ تو شاپنگ بیگز میں پھل، سبزیاں اور اشیاء خوردونوش خرید کر لانے والوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ مہنگائی کے اس طوفان اور روپے کی بے قدری سے عوام تلملا اٹھے ہیں۔ انتہاؤں کو چھوتی ہوئی معاشی بدحالی میں کارفرما محرکات کوئی نہیں جانتا، پارلیمانی اور فوجی ادارے زیادہ دیر تک اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام نے معاشی بدحالی کی محرکات اور وجوہات کو مزید گھمبیر کردیا ہے۔ قومی اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات رک گئیں تو حکومتی نظام، عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد اور فوجی نظم وضبط پر گہرا شگاف پڑھ سکتا ہے۔ کیا ایسے حالات میں ریاست کی رٹ قائم رہ سکتی ہے؟

 عام انتخابات کے انعقاد میں بے یقینی کا عنصر نمایاں ہے۔ بروقت انتخابات کے نتائج وہ نہیں ہوں گے جن کے لئے تمام تر وسائل اور کوششیں بروئے کار لائی جارہی ہیں۔ اب تک کی تمام کوششیں رائیگاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ہمیں اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ سرمایہ دار، مرکھپ جاتے ہیں، بیورو کریٹس عہدوں سے ہٹتے ہی عبرت کا نشاں بن جاتے ہیں، وردی والے مرجاتے ہیں تو بھول جاتے ہیں مگر سیاستدان کبھی نہیں مرتا۔ وہ مر کر بھی مٹی سے مل کر مٹی ہوکر بھی نہیں مرتا۔ اس کے پیچھے بینکوں میں انبار لگی دولت نہیں، گریڈوں میں چھپی اندھی طاقت نہیں، منصف کی پسند و ناپسند کا ہتھوڑا نہیں، کندوں پر سجے سٹارز نہیں بلکہ ’عوام‘ کی طاقت ہوتی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ نوازشریف اب سرمایہ دار نہیں وہ ’سیاستدان‘ بن چکا ہے۔ حیرت ہے کہ ایک مرے ہوئے شخص سے سیاسی جماعتیں، طاقتور ادارے اور میڈیا ہاؤسز کیوں پریشان ہیں؟

اگر بہتے دریا کا پانی سوکھ چکا ہے تو اس کے آگے بندھ باندھنے کے لئے کوششیں کیوں ہو رہی ہیں۔ ایک سیدھا سا سوال ہے کہ اس مردہ بت میں روح کیسے کوند آئی۔ اتنی طاقت، اتنی ہمت اور اتنی جرت کس طرح پیدا ہوئی؟ 35 سال تک مسلسل سیاست اور اقتدار میں رہنے والے نوازشریف اپنی طبعی سیاسی عمر پوری کرچکے ہیں۔ مگر پھر بھی پوری آب وتاب اور ولولے کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔

 اس میں شک نہیں کہ حالات و واقعات انسان کو توڑ دیتے ہیں، سبھی رشتے ناطے روٹھنے لگتے ہیں۔ انسان ریزہ ریزہ ہوکر بکھرنے لگتا ہے۔ ٹھوکریں کھاتے، گرتے اٹھتے سنبھلنے کی کوشش میں کوئی راستہ نہیں دیتا کوئی منزل نہیں ملتی۔ ایسے میں ایک لمس، جسم و جان میں نئی زندگی، نئی روشنی نئی روح بن کر اترتا ہے۔ بیٹی آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہتی ہے کہ بابا! میں آپ کے ساتھ ہوں۔

نوازشریف نے ہزار غلطیاں کی ہوں گی، وسائل لوٹے ہوں گے، کرپشن کی ہوگی مگر ایک ناتواں بیٹی نے اپنے باپ کا ہاتھ تھام لیا ہے۔ مگر کوئی مانے یا نہ مانے مریم نواز اپنے باپ کی طاقت بن چکی ہے، وہ نوازشریف کو بکھرنے نہیں دیتی، مایوس اور ناکام نہیں ہونے دیتی۔ بیٹی کی پلکوں تلے آنسوؤں کے چراغ جلتے ہیں تو دور تلک اندھیروں میں نئی راہوں، نئی منزلوں کے سراغ کھلتے ہیں۔ بیٹی جب باپ کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے تو باپ کو گرنے نہیں دیتی۔

 میں پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ اب نوازشریف کو ’ملبہ‘ سمجھ کر راستے سے ہٹانا آسان نہیں۔ اب جیتے ہوئے امیدواروں کو پی ٹی آئی میں شامل کروا سکتے ہیں لیکن ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے ووٹ نہیں دلوا سکتے۔ اب تک کے تمام اندازے یہی کہتے ہیں کہ نا اہل ترین اور ناپسندیدہ شخص نوازشریف کو قومی اسمبلی کی 70 سے زائد نشستیں لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پیپلز پارٹی اگر 50 نشستیں بھی لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو میثاق جمہوریت کے سابق پارٹز مل کر حکومت بنا کر میثاق جمہوریت کی نئی بنیادیں رکھیں گے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ عمران خان کا آخری الیکشن ہے۔ پاکستان کی آئندہ سیاست کا محور بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز ہوں گے۔ لولی لنگڑی جمہوریت اگر سلامت رہی تو 2023 کے عام انتخابات میں یہی دونوں مدمقابل ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).