ہتھیلی پر سرسوں جمانا آسان تو نہیں
آج کل سوشل میڈیا پر یہ تصویر وائرل ہوئی ہوئی ہے۔ اس میں خان صاحب بیٹھے اپنے فون کی بے ثباتی پر غور کر رہے ہیں اور حیران ہو رہے ہیں کہ یہ ننھی سی سکرین کیوں ان کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کی جا رہی ہے۔ پہلے گلالئی نے اسی سکرین پر کچھ پیغامات کا غل مچایا تھا۔ بمشکل اس صدمے سے سنبھلے تو اب ریحام آ گئی ہیں کہ سالم فون کا پول وہ کھولیں گی۔
سامنے دو معززین بیٹھے ہیں۔ ایک تو شاید کسی قلمرو کے بادشاہ ہیں کہ نام ان کا شاہ فرمان بتایا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر اطلاعات ہوا کرتے تھے۔ ہماری رائے میں وہ چٹکی بجا کر کسی پیچیدہ مسئلے کا حل نکال رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نون لیگی مخالفین کو الیکشن میں مچھر کی طرح مسل دینے کی مشق کر رہے ہوں۔
داڑھی والے ارباب عاصم بتائے جاتے ہیں کہ ضلع ناظم پشاور ہیں۔ وہ اپنی ہتھیلی کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ سر ہتھیلی پر رکھ کر الیکشن میں اترنے کا ارادہ باندھ رہے ہوں۔ یا پھر ہتھیلی سے ہتھیلی مل کر افسوس کر رہے ہوں گے کہ وہ قومی انتخاب نہیں لڑ رہے۔ یا ممکن ہے کہ ان کے پاس بہت سا روپیہ آنے والا ہو کہ ہتھیلی کھجانا اسی کی علامت بیان کی گئی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی لیڈر شپ کو یقین دلا رہے ہوں کہ وہ ہتھیلی پر سرسوں جما کر دکھا دیں گے۔ زمانہ قدیم کی لغت دیکھیں تو اس میں ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا مطلب ہے کوئی ناممکن کام کر دکھانا۔ فرہنگ آصفیہ اس کا مطلب بتاتی ہے کہ ”کار سخت و دشوار تر کو بہت شتاب اور نہایت جلد بکمال چابکدستی انصرام کو پہنچانا، طلسم سازی و شعبدہ بازی سے کوئی کام جھٹ پٹ کر کے دکھا دینا“۔ مثلاً پشاور میٹرو کو الیکشن سے پہلے مکمل کر دینا۔
جدید بول چال میں اس کو طنزاً استعمال کرنے کا رواج ہے۔ ڈاکٹر عشرت جہاں کی کتاب ”اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ“ میں اس کا مطلب کچھ یوں لکھا ہے۔
”بہت جلدی میں کام کرنا اور یہ چاہنا کہ وہ بہتر سے بہتر ہو ہتھیلی پر سرسوں جمانا اِس کے لئے محاورہ کے طور پر لیا جاتا ہے جیسے آپ تو ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں کہیں یوں بھی کام ہوتا ہے اس کام کے لئے تھوڑا وقت چاہیے توجہ اور محنت چاہئیے۔ اِس محاورہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم جادو کرشمہ اور معجزہ کے طور پر کوئی کام ہو جائے چاہتے ہیں پلاننگ منصوبہ بندی وسائل کی فراہمی اور مسائل پر نظر داری ہماری سوچ اور اپروچ کا کوئی حصہ ہی نہیں اسی پر یہ ایک کمنٹ ہے اور یہ دکھانا مقصود ہے کہ ہتھیلی پر کہیں سرسوں جمتی ہے یہ تو کرشمہ کے طور پر ہو سکتا ہے باقی کام محنت سے اور منصوبہ بندی کے تحت ہوتے ہیں۔ “ یعنی ادھر بھی پشاور میٹرو کے منصوبے کی طرف اشارہ ہے۔
اب اگر مسلم لیگ نون کے شریر لوگ یہ دعوی کریں کہ یہ دونوں حضرات مل کر خود سے سگریٹ بنا رہے ہیں تو ان کی سوچ پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ آج کل کون اتنی محنت کرتا ہے کہ بازار سے پہلے سگریٹ کا کاغذ خریدے، پھر اس میں تمباکو بھرے اور رول کر کے اپنی سگریٹ بنائے۔ ایسا پرانے وقتوں میں ہوا کرتا تھا جب لوگوں کے پاس وقت کھلا ہوتا تھا۔ اب لوگ بازار سے سگریٹ کی ڈبی خرید کر پی لیتے ہیں۔
لیکن ہتھیلی دیکھنے کا معاملہ ہو تو استاد یوسفی اس پر بھی خوب راہنمائی کر گئے ہیں۔ ان کا ایک مضمون ہے ”صبغے اینڈ سنز“۔ صبغے نے قسمت کچھ ایسی پائی تھی کہ وہ سونے میں بھی ہاتھ ڈالتے تھے تو وہ مٹی ہو جاتا تھا۔ اس تصویر میں تو ویسا معاملہ ہونے کا امکان نہیں ہے کہ یہ تو مٹی کو سونا بنانے والے لوگ ہیں، مگر دنیا میں بہرحال کچھ بدقسمت لوگ صبغے جیسے بھی ہوتے ہیں۔ یوسفی لکھتے ہیں:
”داہنی ہتھیلی دیکھنا ان کی بڑی پرانی عادت ہے جسے زمانہ طالب علمی کی یادگار کہنا چاہیے۔ ہوتا یہ تھا کہ دن بھر خوار و خستہ ہونے کے بعد وہ رات کو ہوسٹل میں کسی نہ کسی کے سر ہو جاتے کہ صبح تمہارا منہ دیکھا تھا۔ چنانچہ ان کے کمرے کے ساتھی اپنی بدنامی کے خوف سے صبح دس بجے تک لحاف اوڑھے پڑے رہتے اور کچھوے کی طرح گردن نکال نکال کر دیکھتے رہتے کہ صبغے دفعان ہوئے یا نہیں۔
جب اپنے بیگانے سب آئے دن کی نحوستوں کی ذمہ داری لینے سے یوں منہ چھپانے لگے تو صبغے نے ایک ہندو نجومی کے مشورے سے یہ عادت ڈالی کہ صبح آنکھ کھلتے ہی شگون کے لئے اپنی دائیں ہتھیلی دیکھتے اور دن بھر اپنے آپ پر لعنت بھیجتے رہتے۔
پھر تو یہ عادت سی ہو گئی کہ نازک و فیصلہ کن لمحات میں مثلاً اخبار میں اپنا رول نمبر تلاش کرتے وقت، تاش پھینٹنے کے بعد اور کرکٹ کی گیند پر ہٹ لگانے سے پہلے، ایک دفعہ اپنی داہنی ہتھیلی ضرور دیکھ لیتے تھے۔ جس زمانے کا یہ ذکر ہے ان دنوں ان کو اپنی ہتھیلی میں ایک حسینہ صاف نظر آ رہی تھی جس کا جہیز بمشکل ان کی ہتھیلی میں سما سکتا تھا“۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).