کتاب میں کچھ کالا ہے


مجھے نہیں لگتا کہ ریحام کی کتاب میں عمران کے حوالے سے کوئی انکشاف ہوگا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کپتان 1976میں کرکٹ کے میدان میں اترا اور وہ میڈیا کی آنکھ کاتارا بن گیا ۔پاکستان سمیت دنیا کے پاپا رازیوں نے اس کا پیچھا کیااور عمران کی زندگی کا لمحہ لمحہ کیمروں نے بھی محفوظ کیااور اس سے متعلق شہ سرخیاں اخبارات میں بھی جگہ پاتی رہیں۔

اگرچہ ریحام خان کوئی پیشہ ور رائٹر نہیں ہے لیکن اس کی لکھی کتاب اسلئے اہمیت کی حامل ہے کہ وہ 9ماہ تک عمران کے نکاح میں رہی۔ ایک تاثر قائم کیا گیا ہے کہ اس کتاب کے صفحات پر ایسے راز افشا ہوں گے جن سے عمران کی ذاتی زندگی کے چھپے مزید حقائق سامنے آئیں گے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کتاب کا شہرہ ہے ، یوں لگتاہے کہ کپتان کے سیاسی مخالفین اس کتاب سے اسکی کردار کشی کرتے ہوئے اسے سیاسی نقصان پہنچاناچاہتے ہیں۔

ریحام خان پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اسے کتاب لکھنے کے لئے نون لیگ کے قائدین میاں برادران نے ایک لاکھ پونڈ کی رقم ادا کی ہے۔

ریحام پر یہ الزام اداکارحمزہ عباسی نے بھی عائد کیا لیکن جب اسے ثبوت پیش کرنے کے لئے کہا گیا تواس نے بھی وہی جواب دیا جو 35 پنکچروں سے متعلق عمران نے دیا تھا ۔ 2013 کی انتخابی دھاندلی کے حوالے سے کئی ہزار داستانیں دہرائی گئیں لیکن اس کامنطقی انجام یہ ہوا کہ جب عمران سے پوچھا گیاکہ یہ الزام ثابت کیسے کیاجاسکتا ہے؟ تب کپتان نے کہا تھا کہ اسے ایک اینکرپرسن نے بتایا تھا کہ نجم سیٹھی نے 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 35 نشستوں پر دھاندلی کرا کر نون لیگ کو جتوایا تھا۔

اس مبینہ بدعنوانی کو 35پنکچر لگانا قراردیا گیا۔ ریحام کی کتاب ابھی شائع نہیں ہوئی لیکن اس سے قبل ہی واویلامچ گیا ہے۔ اس سے قبل جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی کتاب منظر عام پر آئی تو طوفان برپا ہوگیا۔ مصطفی زیدی نے اپنے کسی شناساسے شناسائی کا ذکر یوں کیا تھا کہ

فنکار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی

سوشل میڈیا میں عمران کے ٹائیگرز یہ مہم چلارہے ہیں کہ اس کتاب سے نون لیگ عمران کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہے۔ریکارڈ گواہ ہے کہ ہم من حیث القوم مالی کرپشن کو گناہ نہیں سمجھتے اس کے برعکس ذاتی برائی ہمارے نزدیک گناہ کبیرہ بن جاتاہے۔ عمران کے کیس میں نون لیگ کا نقطہ نظر ہے کہ ان کی سیاست کے بلند وبالا مینار کی بنیادیں عظیم اخلاقی روایات پر تعمیر کی گئی ہیں ۔ لیکن عملی طور پر عمران خان اور ان کی پارٹی اپنے دعوئوں سے اتنی ہی دور ہے جتنا شمالی افریقہ کا مشہور صحرا صحارا منجمد بحیرہ بالٹک سے ہے ۔

پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کتاب دوستی کی روایت دم توڑ چکی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ عوام کی ریحام کی کتاب میں اس قدر ہی دلچسپی ہے جتنا ہماری لیڈر شپ کا علم و ادب سے لگائو ہے ۔تین سال قبل سائرہ بانو نے مجھ سے رابطہ کرکے اس خواہش کا اظہار کیاکہ وہ دلیپ کمار صاحب کی آٹو بائیو گرافی DILIP KUMAR the substance and the shadow پاکستان سے بھی شائع کرانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

ان کا خیال تھاکہ پاکستانی دلیپ صاحب سے والہانہ پیار کرتے ہیں اس لئے اس کتاب کو پاکستان سے بھی شائع کرانا چاہیے ۔اس سلسلے میں جب میں نے پاکستان کے معروف اشاعتی اداروں سے رابطہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ 21کروڑ کے اس عظیم ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس کتاب کی صرف پانچ ہزار کاپیاں شائع کی جا سکتی ہیں۔

اس ضمن میں وہ سائرہ بانو کو دس سے پندرہ فیصد رائلٹی کی پیش کش کریں گے جو زیادہ سے زیادہ تین چار لاکھ ہوسکتی ہے۔ یہ پیشکش مجھے دلیپ صاحب کے شایان شان نہ لگی تو میں نے ارادہ بدل دیا۔ دلیپ صاحب کی آٹو بائیوگرافی کی پاکستان میں اشاعت کے حوالے سے میں نے اس وقت کے وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن میں کامیاب نہ ہوسکا۔نون لیگ کی حکومت کے صرف ایک پانی پروجیکٹ میں 40ارب روپے کی کرپشن کا شور ہے ۔ریحام کی کتاب کے پیچھے ایک لاکھ پونڈ کی اسپانسر شپ کا واویلا بھی کیا جا رہا ہے، اگرچہ اس ضمن میں پی ٹی آئی والے کوئی ثبوت پیش نہیں کر پائے لیکن ’کتاب میں کچھ کالاہے۔

میرے خیال میں ریحام کی کتاب ’’باکس آفس ‘‘ پر کوئی خاص دھوم نہیں مچا سکے گی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کپتان سے علیحدگی کے بعدریحام ایک ٹی وی پروگرام کے ساتھ ساتھ کالم نویسی کی مشق بھی کرچکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس قومی خدمت کے لئے محنتانہ انہیں عوام کے ٹیکسوں کی کمائی سے ادا کیا جاتا رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ریٹنگ اورینٹڈ ٹیلی وژن انڈسٹری میں ریحام کا ٹی وی پروگرام مسلسل خسارے میں رہا جس کے باعث بالآخر اسے بند کرنا پڑا۔

ریحام خان کی کتاب کے دو ایڈیشن ہیں ۔ایک ایڈیشن ریحام نے لکھا ہے دوسرا زمانہ لکھ رہا ہے۔ خیال ہے کہ ریحام کی کتاب کے جو صفحات اور اقتباسات زمانہ لکھ رہا ہے اس کے پیچھے بھی اسی پایے کے شہ دماغ ہیں جنہوں نے مخالفین کو ’’ٹین پرسنٹ‘‘ اور دوسرے ٹائٹلز دئیے تھے ۔ کہتے ہیں محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے ۔ایک عرصہ ہوا محبت اورجنگ میں انتخابات جیسی سرگرمی بھی شامل ہوچکی ہے ۔

ہمارے ہاں ہر الیکشن پر انگلی اٹھائی گئی ہے ،دھاندلی کی تکنیک سے ہی محترمہ فاطمہ جناح کو جنرل ایوب نے شکست دی تھی۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے عمل میں جہاں بہت سے عوامل کارفرما تھے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کا سبب بنا تھا۔ لیکن حیرت ناک امر ہے کہ اس قدر عظیم سانحہ کو ایک غلط عنوان دے کر’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ قوم کو آج تک دھوکا دیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر حسن عسکری کے حوالے سے کہاجارہا ہے کہ وہ نون لیگ اور میاں برادران کے شدید مخالف ہیں لہذا بطور نگران وزیر اعلیٰ ان کی تقرری موضوع نہیں ہے۔ اس بابت میں نون لیگ سے متفق ہوں. نگران وزیر اعلیٰ وہ ہونا چاہیے جس کے نزدیک نوازشریف’ ملزم‘ تو ہوں لیکن وہ انہیں ’مجرم ‘ نہ سمجھتے ہوں۔ 85 کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں نوازشریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوکر تخت لاہور کی بنیاد رکھی تھی اوراس کے بعد 1988 کے انتخابات میں بھی اس وقت کی ’’خلائی مخلوق‘‘ نے ان کی بھر پور مدد کی تھی۔

1990کے انتخابات میں تو نوازشریف بذات خود نگران وزیر اعلیٰ تھے اور انہوں نے تخت لاہور پر بیٹھ کر انتخابات کے ایسے نتائج مرتب کئے جس کے نتیجے میں وہ پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے اور پھر چل سوچل ۔یہ وہی الیکشن تھے جن میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لئے اس وقت کی خلائی مخلوق نے میاں نوازشریف سمیت دیگر سیاستدانوں کو دھاندلی کے لئے پیسے دئیے تھے ۔

یہ واردات اور قومی وقوعہ ہمارے ہاں اصغر خان کیس سے منسوب ہے، 28سال گزر نے کے بعد اب جبکہ مقدمہ کے مدعی اصغر خان قبر میں جا لیٹے ہیں تو ملزمان کو پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ قومی فلم کی کہانی، اسکرین پلے اور کرداروں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی صرف ان کے نفسیاتی اور اخلاقی کردار کی جزئیات بدل گئی ہیں ۔ جو کل تک لاڈلے تھے وہ آج سوتیلے ہیں اور جن پر سیکورٹی رسک جیسے الزامات تھے وہ آج قومی سلامتی کے پرچم تلے کھڑے ہیں۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).