شکوہ اللہ سے ہے


انگریزوں نے 1926 میں کوئلے کی کانوں کے بارے میں قانون میں لکھا تھا کہ ہر مزدور کو ایک ماسک دیا جائے گا جس کے ساتھ پشت پر آکسیجن بیگ لگا ہوگا۔ ہر کان میں دو سوراخ ہوں گے کہ ہوا کے گزرنے کا اہتمام ہو۔ ہر چار فٹ پر دروازہ ہوگا اور اوپر ایک تختہ لگا ہو گا کہ کان کھدائی کے دوران بیٹھ نہ جائے۔ پرانے زمانے میں خاص کر حبیب اللہ مائنز میں اب تک ٹرین کوئلہ اکھٹا کرنے جاتی ہے۔

میں یہ ساری تفصیل کیوں بتارہی ہوں، اس لئے کہ کسی اور حوالے سے رئوف کلاسرا نے لکھا ہے ’’چلو اس طرح کچھ غریب کم ہوئے۔‘‘ مجھ سے رئوف بہت چھوٹا ہے مگر بڑا ظالم فقرہ لکھا ہے اور مجھے جسٹس کوہلی جو بلوچستان میں اس محکمے کے سربراہ رہے تھے، بتارہے تھے کہ وہ باتیں انگریزوں کے زمانے کی تھیں۔ آج کل کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ دو نخرے والے ماسک نہیں دیئے جاتے کہ اس پر خرچ آتا ہے۔ اب انجینئر اپنے دفتروں میں اور مزدور سارا دن کوئلہ نکال کر اپنے تنبوئوں میں سو رہتے ہیں۔ اس لئے آئے دن ایسے سانحات ہوتے رہتے اور غریب کم ہوتے جاتے ہیں۔اس فقرے کے بعد مجھ سے لکھا نہیں گیا۔

میرے قلم نے نظم اگلنی شروع کردی ’’شہید کان کنوں کا شکوہ‘‘

’’شکوہ اللہ سے ہے
تم سے بھلا کیا کہنا (سرکار)
اے مرے رب لا شریک! تو نے ہمیں مٹی سے بنایا
پھر مٹی

میں دفن کرنے کا وعدہ بھی کیا
تو نے غضب کے عالم میں یہ نہیں کہا
’’ریاکاروں کو میں کوئلہ بنا دوں گا‘‘
ہم ان پڑھ تو تیری ہر قدرت سے لاعلم تھے
میں اور وہ سب، کوئلے کی کان میں
’’ماں کے لئے سوکھی روٹی کمانے آئے تھے‘‘

میں اور وہ سب نے
جب گھٹنوں چلنا سیکھا تھا
تو مٹی کھانےلگے تھے
ہم مٹی پہن کر ہی جوان ہوئے
کان میں مزدوری ملنےکی خبر
ہماری زندگی کی پہلی خوشی تھی

دوسری خوشی
پہلی تنخواہ ملنے کا انتظار تھا
اس خوشی میں ہم کبھی کبھی بھوکےبھی سو جاتے تھے
اے مرے رب لاشریک
تجھ سے بس اتنا _ شکوہ ہے
تو ہمیں واپس مٹی ہی بنا دیتا

تو نے ہمیں کوئلہ بنا کر
غریبوں کو کم کرکے
دنیا کو کیا سبق سکھایا ہے!

ویسے تو اظہارالحق نے ہمارے سیاستدانوں کے کھانوں کے نخروں کا حوالہ دیا ہے مجھے تو وہ دن بھی یاد ہیں جب سی ون تھرٹی میں ولیمے کی دیگیں پک کر جایا کرتی تھیں۔ ویسے آج بھی دیکھا ہے کہ چھوٹے شہروں میں انتخابات کے لئےجلسیاں کرنے کو بڑے شہروں سے تنبو قناتیں اور کبھی کبھی تو بڑے ہوٹلوں کو کھانے کا خاص آرڈر دیا جاتا ہے۔ چونکہ غریب غربا تو دیگوں ہی میں ہاتھ ڈال کر اپنی بھوک مٹا لیتے ہیں۔

بری باتوں کےبعد اب کچھ اچھی باتیں۔ ہمارے کوہلی صاحب، بلوچستان کے پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور سینئر جج ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال 8 اسسٹنٹ کمشنراور 2 سیکشن آفیسر خواتین تعینات ہوئی ہیں۔ مجھے یہیں جلیلہ حیدر کی ہزارہ برادری کیلئے بھوک ہڑتال یاد آئی تو کوہلی صاحب ذرا سے رنجیدہ ہوکر بولے ’’اب وہ لوگ اپنے گھروں سے ہی کم نکلتے ہیں۔‘‘

پہلے شناختی کارڈ دیکھ کر سامنے سے گولی ماری جاتی تھی، لڑکیوں کی یونیورسٹی کی بس پہ بم مارا جاتا تھامگر اب شاید فوج اور باجوہ صاحب سے ڈر کر اور پھر سرحد پر باڑ لگانے سے توقع ہے کہ سائیکلوں کے ساتھ بھی بم نہیں باندھے جائیں گے۔

میں نے کوہلی صاحب کو کہا ’’لیں آپ کو میں بھی ایک خوشی کی خبر سنائوں، ملائیشیا کا وہ شخص جس نے ملائیشیا کی تقدیر بدلی، 92 سال کی عمر میں مہاتیر محمد پھر حکومت میں  آگیا ہے۔ کوہلی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ’’تمہیں تو اپنے ملک کی خبر رکھنی چاہئے کہ یہاں کونسی مخلوق حکومت کرے گی۔‘‘ میں چپ ہوکر خلا میں گھورنے لگی۔ اب تو کوہلی صاحب بھی خاموش ہو گئے۔

پھر مجھے خیال آیا کہ جاوید چوہدری تو چیف جسٹس سے مل کر خوش ہوگیا تھا اور مجاہد بریلوی نے پنجاب کے چیف منسٹر کا کھانا تو نہیں کھایا، ان کے کارناموں کو فخریہ لکھ رہا تھا۔ تو میں بھی ذرا امجد اسلام کی طرح تھوڑی دیر کو نعیم بخاری کے حس مزاح کو یاد کرتے ہوئے دعا کروں کہ اس طرح مسکراتا نعیم واپس آ کر سیاست میں جو رنگ دیکھے ہیں وہ نصرت جاوید کی طرح سنائے۔ یا پھر کوڑے کھانے والے نوجوان خاور نعیم ہاشمی کی طرح اپنی سیاسی اور صحافتی زندگی کے تجربے مزےمزے سے لکھے۔

مجھےبہت خوشی ہوگی جب میرا دوست ظفر اقبال اپنی حس مزاح کو آج کل کے آشوب پر منو بھائی کی طرح در فنطنی چھوڑے کہ مسائل پر تو کوئی بات ہی نہیں کرتا! نہ ہوسکتی ہے!

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).