سیاست اور اس کی آلودگی


ایک ماحول وہ ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں جس کی دھوپ اور جس کی دھول ہمارے چہروں پر گرتی ہے۔ جس کے دریا ہمار ی زندگی کو سیراب کرتے ہیں اور جس کے درختوں کی چھائوں ہمیں پناہ دیتی ہے۔ اورایک ماحول وہ ہے جس میں ہم سوچتے ہیں۔ جو ہمارے ضمیر اور ہمارے جذبوں کی آبیاری کرتا ہے۔ جو ہمارے خوابوں کی پرورش کرتا ہے۔

یوں میں دو مختلف دنیائوں کی بات کر رہا ہوں منگل کے دن جب ہم نے ماحولیات کا عالمی دن منایا تو ہم نے اس ماحول کی بات کی جسے ہم مادی سطح پرپامال کر رہے ہیں اور اپنے نصف ایمان سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ جو دنیا ہم نے اپنی اولاد سے مستعار لی ہے اس کے قدرتی وسائل کو ہم مٹی میں ملا رہے ہیں۔ ماحولیات کے عالمی دن کے تبصروں میں ٹھوس اعداد و شمار سے بنائی جانے والی پاکستان کی تصویر ہم نے دیکھی اور اپنے کاروبار اور اعمال میں کسی بڑی تبدیلی کا آغاز کئے بغیر آگے بڑھ گئے۔

اب کوئی ہمیں دریائوں کا نوحہ سنائے گا تو کچھ دیر کے لئے ہم پریشان اور شرمندہ ہو جائیں گے اور بس! کچھ یہی معاملہ اس دوسرے ماحول کا ہے کہ جسے آپ چاہیں تو ذہن کی ہریالی کہہ لیں۔ اس کا تعلق تعلیم سے تو ہے لیکن صرف درسی تعلیم کی حد تک نہیں کہ جو محض سبق یاد کر لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ وہ ماحول ہے جو ہمیں سوچنا سکھاتا ہے۔ جو ہمارے اخلاق اورہمارے عمل کی تازہ ہوا سے زندگی کے حسن کو نکھارتا ہے۔ اس کا تعلق اجتماعی دانش اور کردار سے بھی ہے۔

ہوا اور پانی والے ماحول کا حوالہ تو اس ہفتے موجود ہے۔ جس دوسرے ماحول کی میں بات کر رہا ہوں اس کا جواز میرے پاس کیا ہے؟ اس سوال کا جواب شاید آپ کی سمجھ میں آجائے اگر آ پ یہ دیکھیں کہ ان دنوں ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ جی ہاں! انتخابی معرکے کی فضا بن رہی ہے۔ سیاسی ماحول کی ہلچل کچھ اس نوعیت کی ہے کہ جیسے اس ملک کی تقدیر ایک نیا روپ ڈھالنے والی ہے۔ اصل مسئلہ جمہوریت کے قیام اور اس کی بقا کا ہے۔ ایمپائر کی انگلی کی بات پرانی ہو چکی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کونسی طاقتیں جمہوریت کی انگلی تھام کر اسےکدھر لے جا رہی ہیں۔

سیاست کے موجودہ ماحول کی چند خصوصیات واضح ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ تقریباً تمام سیاست دانوں کی اپنی جماعتوں، اپنے نظریات اور اپنے اصولوں سے وفاداری مشکوک دکھائی دے رہی ہے ۔ یوں توایک جماعت چھوڑ کر دوسری میں شامل ہونے کی روایت پرانی ہے، خاص طور پر انتخابات سے پہلے کی صف بندی کے دوران ۔لیکن اس دفعہ تاش کے پتے کچھ زیاد ہ پھرتی سے پھینٹے جا رہے ہیں۔ بادشاہوں جیسا زعم رکھنے والے سیاست داں بھی اور جوکر نما سیاسی کھلاڑی بھی نئے ہاتھوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔

سب سے زیادہ پتے عمران خان کی جماعت کے حصے میں آئے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کام انتخابات کی بساط بچھ جانے کے بعد بھی جاری ہے۔ مثال کے طور پر سردار ذوالفقار کھوسہ نے پہلی جون کو اپنے پورے خاندان کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔ پورے خاندان کو ساتھ لے چلنا اس جاگیردارانہ سیاست کا وطیرہ ہے کہ جس کی موت کی گھنٹی کئی بار بجائی جا چکی ہے۔

لیکن اب بتایا گیا ہے کہ کھوسہ خاندان نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں کا سودا کیا ہے۔ کئی اور مقامات پر یہی ہو رہا ہے کہ باپ، بیٹا، بھائی سب مل کر حلقہ بہ حلقہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کھڑے ہیں۔ تحریک انصاف نے لیاقت جتوئی کے ساتھ بھی اسی طرح کا انصاف کیا ہے۔ کیونکہ یہ کام اس طرح ہو رہے ہیں اس لئے اس انتخابی سیاست میں اہم قومی مسائل پر سنجیدہ گفتگو کی گنجائش بہت کم ہے۔

نہ ہی عوام کے سیاسی شعور میں اضافے کا کوئی امکان دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میڈیا اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھے خاموش کھڑا ہے۔ جو واقعی بنیادی نوعیت کے موضوعات اور تنازعے ابھر کر سامنے آرہے ہیں ان پر بحث کی اجازت نہیں ہے اس طرح سیاسی ماحول کسی فکری گہرائی اور معروضی تجزیے سے محروم ہے۔

صورت حال کچھ ایسی ہے کہ ریحام خان کی چلمن سے لگی خود نوشت نے ایک کہرام مچا دیا ہے۔ کتاب ابھی شائع نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے کچھ حصے سوشل میڈیا میں سرگرداں ہیں اور دکھائی یہ دے رہا ہے کہ عمران خان کی مطلقہ ایک طوفان کو مٹھی میں دبائے بیٹھی ہیں۔ یہ بات کھل کر کہی جا رہی ہے کہ کتاب میں جنسی دبائو اور منشیات پر کافی روشنی ڈالی گئی ہے۔

گویا انتہائی سنسنی خیز انکشافات کئے جانے والے ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ ان انکشافات کا عمران خان کی ذات اور ان کی جماعت کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا۔ سیاست میں جنسی نوعیت کے اسکینڈل کبھی سب کچھ بدل دیتے ہیں اور کبھی کسی کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ کچھ بھی ہو، کہنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست کے ماحول میں آلودگی کی سطح بہت بلند ہے۔

اتفاق سے اس پس منظر میں ایک بالکل مختلف مثال ہمارے سامنے ہے۔ جمعرات کی صبح، کراچی کے ایک اسپتال میں رسول بخش پلیجو کا انتقال ہو گیا۔ یہ سندھ کی سیاست کا ایک بڑا واقعہ ہے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاست کے موجودہ منظر نامے میں پورے ملک میں کوئی ایسا سیاست داں موجود نہیں ہے کہ جس کی فکری اور تنظیمی جدوجہد نے عوام کی ایک بڑی تعداد کی سوچ اور سیاسی شعور کو اتنا متاثر کیا ہو۔

میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اس کالم میں رسول بخش پلیجو کی شخصیت اور ان کی سیاست کا تجزیہ کروں۔ اپنے موضوع کے حوالے سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دیکھئے، ایسا ممکن ہے کہ کوئی سیاسی رہنما علم اور دانش کے پیمانے پر اتنا اعلیٰ مقام رکھتا ہو۔ یعنی سیاست کے فکری محاذ پر کوئی اپنا پرچم اتنی شان سے لہرائے۔ سندھ کی مزاحمتی سیاست میں ان کا ایک اچھوتا کردار رہا ہے۔

میں دراصل پاکستان کی سیاست کی فکری پسماندگی کا رونا رو رہا ہوں۔ اب ، رسول بخش پلیجو کی وفات کے بعد یہ احساس زیادہ شدید ہو گیاہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ نظریاتی طور پر ایک مارکسٹ تھے یعنی بائیں بازو کی سیکولر سیاست کرتے تھے۔ ادب، فلسفہ اور تاریخ کا ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ جدلیاتی مادیت کے مفکر تھے۔ کئی زبانوں پر انہیں عبور حاصل تھا۔ انہوں نے کئی کتابیں اور کتابچے تحریر کئے۔ عوامی تحریک کی بنیاد ڈالی ان کی سندھیانی تحریک عورتوں کی ایک ایسی سیاسی تنظیم تھی جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔

ظاہر ہے کہ ان کے خیالات سے اختلاف بہت ممکن تھا لیکن علمی سطح پردلیل، اور حوالوں کے ساتھ، ان سے گفتگو کی جا سکتی تھی۔ میں ایک بار پھر کہونگا کہ یہ چند الفاظ رسول پلیجو کی شخصیت کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ یوں بھی میں موجودہ پاکستانی سیاست کی تاریک وادی میں کسی امید، کسی روشنی کی جستجو میں بھٹک رہا ہوں۔ اس سیاست کےماحول کی کثافتیں خوف اور بے یقینی کے تاثر کو ہوا دے رہی ہیں۔

جہاں تک رسول بخش پلیجو کا تعلق ہے تو میں نور الہدیٰ شاہ کی اس ٹویٹ کو نقل کرنا چاہتا ہوں۔ ’’سندھ دھرتی کا پیار اغدار/ رسول بخش پلیجو/جس نے تین نسلوں کی ذہنی تربیت کی/ حقوق کیلئے احتجاج اور مزاحمت سکھائی/ غداریت کا الزام سینے پر سجانا سکھایا/ فن کاروںکو انقلاب گانا سکھایا/ شاعروں کے مزاحمتی انقلابی شاعری کروائی / سندھی لڑکیوں کو عملی سیاست میں اتارا/ الوداع۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).