پاکستان میں احمدیوں کی حالت زار


\"munawarپاکستان میں بسنے والے تین ملین سے زائد پاکستانی احمدیوں کی حالت زار دنیا میں گزشتہ تین دہائیوں سے موضوع بنی ہوئی ہے اور اس کا آغاز تیس برس قبل26اپریل1984 کو ہوا تھا جب اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر ضیا ءالحق نے آرڈیننس XX نافذکیا تھا جو کہ امتناع قادنیت آرڈینس بھی کہلاتا ہے جس نے پاکستان میں بسنے والے تمام احمدیوں سے ان کی مذہبی آزادیاں چھین لیں تھیں آئین کے اندر 298B, اور 298C کی نئی ترامیم شامل کرکے احمدیوں پر ایک ننگی تلوار ان کے سروں پر لٹکا دی گئی تھی جس کے استعمال نے ظلم و ستم، نا انصافیوں اور پرتشدد حملوں کی ایک نئی خون آلودہ تاریخ لکھی اور جس کا سلسلہ جاری ہے اس قانون کے نفاذ سے پاکستان میں بسنے والے احمدیوں پرظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے اور ان مظالم اور اندھا دھند گرفتاریوں کی بازگشت اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام بڑے بڑے انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور یورپ و امریکہ و کنیڈا میں بھی پہنچی اور حکومت وقت سے بھرپوراحتجاج کیا گیا اگر نہیں پہنچی تو خود پاکستان کے اندر کی عدالتوں تک نہیں پہنچ سکی۔ اس قانون نے انہی احمدی پاکستانیوں کو اپنے ہی وطن میں بے نام کر دیا ہے اور آج ان کی کوئی شناخت نہیں ہے جنہوں نے قیام، دفاع اور استحکام پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔۔قوانین ملک و معاشرے سے جرائم کے خاتمہ کے لئے بنائے جاتے ہیں جو ملک کے شہریوں کو تحفظ دیتے ہیں لیکن یہ ضیائی قانون ایسا قانون ہے جو خود جرائم کو جنم دے رہا ہے، لوگوں کوجرم کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور اپنے ہی ملک کے شہریوں کے قتل کرنے، ان کی املاک و جائیداد کو لوٹنے کی اجازت دیتا ہے یہ ایسا قانون ہے جس نے رواداری کا خاتمہ کیا اور عدم رواداری کو جنم دیا، انصاف کا قتل کیا اور نا انصافیوں کی بنیادیں رکھیں اور تمام جمہوری، انسانی اور اخلاقی اصولوں کو پامال کیا اس قانون کا مذہب کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں بلکہ یہ مذہبی فرقہ وارانہ سوچ کی اختراع ہے اور اس کے پیچھے وہی طاقتیں چھپی بیٹھی ہیں جو کہتی ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تھا اس قانون کی آڑ میں جماعت مخالف گروہوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی کہ وہ جب چاہیں اور جس کے خلاف چاہیں جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ درج کرادے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی ایک رپورٹ جو اس قانون کے نفاذ کے سات سال بعد ستمبر 1991میں جاری ہوئی تھی میں انکشاف کیا تھا کہ ضیاءکے دور میں اس وقت کی مذہبی جماعتوں اور علمائے کرام نے ضیاءالحق کو الٹی میٹم دے رکھا تھا کہ وہ 30اپریل تک احمدیوں کے خلاف فوری طور پر قومی اسمبلی کے فیصلے کی روشنی میں مزید اقدامات کرے اور پھر اس الٹی میٹم کے ختم ہونے سے چار دن قبل ہی احمدیوں کے خلاف یہ قانون نافذ کر دیا گیا

ایمنسٹی اپنی اسی رپورٹ میں اس قانون کی مذمت کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ۔۔It is contrary to the 1981 United Nations Declaration on the Elimination of All Forms of Intolerance and of Discrimination Based on Religion and Belief. Indeed, in August 1985 the United Nations Sub-Commission on the Prevention of Discrimination and Protection of Minorities passed a resolution expressing \”grave concern at the promulgation of Ordinance XX [see below] …which, prima facie, violates the right to liberty and security of persons, the right to freedom from arbitrary arrest or detention, the right to freedom of thought, expression, conscience and religion, the right of religious minorities to profess and practise their own religion and the right to effective legal safeguard

۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ احمدیوں کے خلاف یہ قانون انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل18 کی خلاف ورزی ہے ۔

\"DARULZKER\"۔26اپریل کو اس قانون کے نفاذکو پورے تیس برس پورے ہوئے ان برسوں میں جس طرح کی انتہا پسندی نے جنم لیا اسکے نتیجہ میں پورے پاکستان اور خصوصا پنجاب کا ماحول ہر احمدی کے لئے ایسا مسکن بن چکا ہے جہاں ہر وقت ان کے لئے خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں اور ایک احمدی جہاں جہاں پڑھتا ہے ، کام کرتا ہے اور کھیلتا ہے وہاں موت اس کی منتظر ہوتی ہے جو نہ جانے کب اس کو دبوچ لے ۔بدقسمتی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کی جانب سے سرد مہری کی پالیسی کے نتیجہ میں پورے ملک کی فضا احمدیوں کے لئے بہت خطرناک ہو چکی ہے۔اس قانون نے پاکستان کے اندر اجتماعی حملوںmobs attack کو جنم دیا جس کا آخری نشانہ بھی گزشتہ سال نومبر میں جہلم میں واقعہ چپ بورڈ کی ایک فیکٹری بنی تھی جس کو ایک مشتعل ہجوم نے نذرآتش کردیا تھا۔اس قانون کے اندر چھپی نفرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے نفاذ کے بعد قبرستانوں میں مدفون احمدی بھی محفوظ نہیں رہے۔

بی بی سی اردو ڈاٹ کام اسلام آباد سے سارہ حسن نے ایک رپورٹ میں پاکستان میں مقیم احمدیوں بارے سالانہ رپورٹ2015 کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس سال احمدیوں کے خلاف جاری نفرت و تشدد کی لہر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے احمدیوں کے تحفظ میں بالکل ناکام رہے۔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے اپنی پریس ریلیز میں تفصیلات کا ذکر کرتے ہو ئے کہا ہے کہ ایسا شرانگیز لٹریچر کھلے عام شائع کرکے تقسیم کیا جا رہا ہے جس میں احمدیوں کے سماجی و معاشی بائیکاٹ سے لے کر قتل تک کی ترغیب دی جا رہی ہے۔پریس ریلیز کے مطابق2015 بھی اردو پریس کی طرف سے بے بنیاد اور اشتعال انگیز خبروں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا اور1570 سے زائد خبریں اور334 سے زائد مضامین مخالفانہ پروپگنڈے کے طور پر شائع کئے گئے
جماعت احمدیہ پاکستان کے انسانی حقوق ڈیسک کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ 2015 میں تفصیل کے ساتھ اس قانون کے نفاذ کے بعد درج کئے جانے والے مقدمات کی تفصیل بیان کی گئی ہے اس رپورٹ کے مطابق اس قانون کے نفاذ کے بعد سے دسمبر 2015 سے اب تک مختلف نوعیت کے3996 مقدمات درج ہو چکے ہیں ان میں اذان دینے، خود کو مسلمان ظاہر کرنا، کلمہ طیبہ کے بیج سینے پر آویزاں کرنا ، نمازوں کی ادائیگی ، تبلیغ کرنا ، اسلامی شعائر کا استعمال کے علاوہ دیگر مذہبی بنیادوں پر بھی ہزاروں مقدمات بھی شامل ہیںتضحیک مذہب کے مقدمات میں بھی اس قانون کو بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے جماعت کی مخالف دینی جماعتوںکے دباﺅپر 1984 کے بعد سے اب تک احمدیہ جماعت کی27مساجد کوشہید کیا چکا ہے جبکہ32مساجدکو سرکاری احکامات کے تحت سیل کیا گیا،بیس کو آگ لگائی گئی یا کوشش کی گئی ، سولہ مساجد پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا ، اور پچاس کی تعمیر کو زبردستی روکا گیا۔ قبرستان کا اور قبروں کا تقدس اس قانون کے ذریعے پامال کیا گیا اور اس وقت جماعت کے تمام جرائد و رسائل پر سینکڑوں کی تعداد میں مقدمات درج ہیں، جبکہ مساجد سے کلمہ طیبہ مٹانے اور اکھیڑنے کے درجنوں واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں ۔ اسی رپورٹ کے مطابق39 تدفین شدہ میتوں کو مذہبی جماعتوں کی مخالفت اور احتجاج پر قبروں سے نکالا گیا65 فوت شدگان کو مشترکہ قبرستان میں دفن ہونے سے منع کیا گیا اس کے علاوہ102واقعات ایسے ہیں جن میں احمدیوں کی مساجد سے کلموں کو مٹایا یا اکھیڑا گیا۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ امتیازی قوانین اور جانبداری کے نظریات اور تصور کے ساتھ کوئی ریاست اور حکومت استحکام پا سکتی ہے اور نہ ہی ترقی کی منزلیں طے کر سکتی ہے ایسا ہی کچھ پاکستان کے ساتھ بھی ہوا ہے کیونکہ اس قانون نے پاکستان کے اندرسے ایمانداری، قابلیت، دیانت، ذہانت اور فراست سبھی کے دروازے بند ہوتے گئے اور وہ ادارے جو کبھی پاکستان کی نیک نامی اور اس کے استحکام کی ضمانت ہوا کرتے تھے اس قانون کے باعث اب زبوں حالی کا شکار ہو چکے ہیں ادارے ہی کسی ریاست کی کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں لیکن اس قانون کے باعث اب ہر طرف ناکام ریاست کی بازگشت سنائی دیتی ہے کاش کہ کوئی سنے اور سمجھے تو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments