کہے سندھڑی ساری جیے پلیجو۔۔۔۔ الوداع کامریڈ پلیجو


صحافت کے طالب علم جانتے ہیں کہ گریو ڈگر تھیوری کیا ہے۔ جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد اس کی قبر کھودنے والے گورکن سے کیے گئے انٹرویو اور اس کی اشاعت کے بعد یہ تھیوری متعارف ہوئی جس سے مراد کسی بھی نئے اینگل پر اسٹوری بنانا۔ میں بھی اپنے اس کالم کی شروعات سندھ اور پاکستان کی ایک بڑی شخصیت کے مزار سے کرنا چاہتا تھا، لیکن بات صرف مزار تک محدود نہیں، وہ شخصیت اتنی قدآور اور پھل دار درخت کی مانند ہیں کہ ان پر کچھ لکھے بغیر بات نہیں بنتی۔ یہ ایک انقلابی کے آخری سفر کی کہانی ہے، اس کی اپنی کہانی کیا ہے؟ اس کے لیے تو کئی کتابیں چاہییں، آخر سفر کی اس کہانی میں دکھ، درد، جوش جذبہ، ولولہ اور انقلاب کے رنگ شامل ہیں۔ یہ جو تصاویر ہیں کیا یہ معمولی ہیں؟

ایسا سفر جس کے مناظر دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں اور کافی آنکھوں کو شاید پھر کبھی ایسے مناظر دیکھنے کو مل نہ پائیں۔ پہلے تو اس شخصیت کی بات، جو کئی دنوں سے علیل تھی، وہ کافی عرصہ سے کراچی کے ایک اسپتال میں داخل تھے، ان کی صحت دن بدن بگڑ رہی تھی، اسے دیکھنے کے لیے اسپتال میں اور اس کے آس پاس کئی ساتھی موجود تھے۔ سب دیکھ رہے تھے کہ اب امید بر نظر نہیں آتی، لیکن ان میں سے کوئی بھی موت کی بھیانک خبر سننے کو تیار نہ تھا۔ اس کرشماتی شخصیت نے نہ صرف اپنی پوری زندگی لڑ کر گذاری تھی لیکن جہالت کے اندھیروں سے لڑکر جینے کا درس اپنی پوری جماعت کے ساتھی بچوں، مرد اور خواتیں کو دیے تھے۔ انہوں نے پوری قوم کو جہالت، دقیانوسی قبائلی روایات، انتہا پسندی، مذہبی جنونیت، علم دشمنی، استحصال، آمریت اور سامراج کا مقابلہ کرنے کے گر سکھائے، اس لیے کچھ لوگ ان کو گرو ، کچھ استاد، کچھ وڈا اور باقی ان کے نام کے ساتھ صاحب لگا کر پکارتے تھے، نام ہے ان کا رسول بخش پلیجو، وہ پلیجو جو ابراہیم جویو کا شاگرد کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔

اسپتال میں وہ آخری ہچکیاں لے رہے تھے لیکن باہر سب کی زبان پر تھا کہ وہ سنبھل رہے ہیں، کسے بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ موت کے آگے سرینڈر کردیں گے، سب سوچ رہے تھے یا اس بات کے خواہاں تھے کہ وہ موت سے موت کے بستر پر ہی لڑ کر اسے شکست دیں گے اور ایک بار پھر اپنی انگلیوں کو وکٹری بنا کر مسکرا کر بولیں گےِ، کامریڈ موت ہمیں کیا مارے گا؟ اس کے ساتھی پلیجو میں انقلاب دیکھتے تھے، لیکن اس بار یہ سب کچھ نہیں ہو سکا، وہ جانبر نہ ہو سکے اور نہ جھکنے والے، نہ بکنے والے رسول بخش پلیجو ایسے سفر پر چل دیے جہاں سے کوئی واپس نہیں ہوتا۔ اس کے موت کی خبر نے سندھ کے ساتھ ملک اور دنیا کے تمام لبرل، جمہوریت، ترقی پسند اور بائیں بازو کی سوچ کے حامل لوگوں کو سوگوار کر دیا، کیوںکہ رسول بخش پلیجو کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں، وہ جہد مسلسل کی علامت اور سندھ کی ایک جیتی جاگتی تاریخ تھے، وہ ایسی ہمہ گیر شخصیت تھے جو صدیوں کے بعد پیدا ہوتی ہیں۔

مجھے ان کی موت نے لرزا دیا تھا، میں ایک صحافی ہوتے بھی خود کو سنبھال نہ پایا، وہ مجھ سمیت ہزاروں لوگوں کی سیاسی استاد تھے، میں ایک اضطرابی کیفیت سے گذر رہا تھا، لیکن اچانک مجھے اپنے ہی اس استاد کی ایک تقریر یاد آئی جو انہوں نے اپنے پی ایک تحریکی ساتھی فاضل راہو کی شہادت پر کی تھی انہوں نے کہا تھا کہ “ہمیں اس صدمے کو طاقت میں تبدیل کرکے آگے بڑھنا ہے، اپنے دکھ کو انقلابی جذبے میں بدل کر مقابلہ کرنا ہے”۔ میری بدقسمتی ہے کہ جب پلیجو صاحب شدید علیل اوراسپتال کے وینٹی لیٹر پر مصنوعی سانسیں لے رہے تھے ان ہی دنوں میرے ہاتھوں میں ایک ایسی کتاب کا مسودہ تھا جس کا بڑا حصہ پلیجو صاحب کے خلاف لکھا گیا تھا، وہ کتاب مجھے پروف اور ایڈیٹنگ کے لیے دی گئی تھی ۔کتاب کے مصنف خود پلیجو صاحب کے ہی سیاسی شاگرد رہے ہیں، یہ بھی ایک بدقسمتی ہے کہ پلیجو صاحب کے کئی سیاسی طالب علم ان کو بیچ بھنور میں چھوڑ کر چلے گئے، ان کو پھر سے ایک نیا قافلہ بنا کر آگے بڑھنا پڑتا تھا، پھر آگے کوئی رکاوٹ آ جاتی اور کئی پلیجو پیدا ہوکر اصل پلیجو کو چھوڑ دیتے۔

مجھے پلیجو کے ساتھ چار دہائیاں چلنے والے ماموں عارب کیڑانو کے ان الفاظ نے رلا دیا کہ “میں اس کا لاڈلا بھی ہوں اور نافرمان بھی ہوں۔۔۔ پر اس وقت ایسی حالت میں ہوں کہ یہ بیان نہیں کر سکتا کہ پلیجو کیا تھے”۔ ساتھ چھوڑنے کے باوجود آج بھی اس کے کئی سیاسی مخالف پلیجو صاحب کو اپنا سیاسی استاد مانتے ہیں، اب پلیجو صاحب نہیں رہے تو اب یہ دعویٰ اور زیادہ بڑھنے لگیں گے۔ میں اس کتاب کی بات کررہا تھا اب یہ نہیں معلوم کہ اس کتاب پر کوئی نظرثانی ہوگی کہ نہیں یا اس کتاب کی اشاعت سے اب کوئی فائدہ بھی ہوگا کہ نہیں۔ رسول بخش پلیجو کی موت نے ان کے مخالفیں کو بھی رلا دیا، میں نہیں جانتا کہ پاکستان، ایشیا یا دنیا میں وہ کن شخصات کے جنازے اس غیر معمولی انداز میں نکلے تھے۔ میں سرکاری سپاہیوں یا قومی ترانوں کی دھن میں دفنائے جانے والے جنازوں کی بات نہیں کرتا، میں عوامی سیاستدان کے موت کے بعد کی بات کر رہا ہوں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ انسانی حقوق کی علمبردار محترمہ عاصمہ جھانگیر کی ناگہانی موت پر کچھ خواتیں اپنے گھروں سے نکلی تھیں اور سماجی بندھن توڑ کر ان کے جنازے میں شریک ہوئیں، فتوی بازوں نے ان پر بہت کچھ کہا، لاہور اور اسلام آباد سے تعلق رکھنی والی ان خواتین میں ایلیٹ، لبرل، پڑہی لکھی اور انسانی حقوق کی ورکر کلاس شامل تھی، وہ جنازہ لاہور کے ایک قبرستان کی ایک لحد میں اتارا گیا تھا۔ لیکن لاہور اور گوٹھ منگر خان پلیجو میں بہت فرق ہے، جیسے لوٹے، پھوٹے، بکھرے، اجڑے سندھ اور ترقی کرتے پنجاب میں فرق ہے۔ اس گاؤں منگر خان پلیجو میں رسول بخش پلیجو کا جنازہ بھی بڑی دھوم دھام سے نکلا، ہم مردہ پرست قوم ہیں، بندے کی زندگی میں اس کا قدر نہیں کرتے اور مرنے کے بعد ان کے دشمن بھی گن گاتے ہیں، وہ بحث بھی الگ لیکن لاڈ بائی کے اس بیٹے نے جو سیاسی نسل تیار کی تھی انہوں نے اپنے لیڈر کو جس چاہ، پیار اور دھوم دھام سے الوداع کیا اس کی مثال پاکستان تو کیا اس خطے میں کہیں نہیں ملتی۔ کتنے سیاستدان ہیں جن کی جماعت کی خواتین نے مردوں کے ساتھ ان کی جنازہ نماز پڑہی ہے؟ موت ناگزیر ہے، لوگوں نے آنا ہے اور چلے جانا ہے، مرتے لوگوں پر بس دعا دم درود اور پھر ان کو منوں مٹی تلےدبا دیا جاتا ہے، لیکن یہ پلیجو کا جنازہ تھا جس میں ہر آنکھ اشکبار اپنی جگہ لیکن ہر دل میں تجدید عہد وفا تھا۔

رسول بخش پلیجو کا انتقال کراچی کے ایک مقامی اسپتال میں ہوا تھا۔جہان سے میت پہلے ایدھی کے سردخانے پھر کراچی کے گھر لائی گئی، بعد میں ان کی میت کو ابائی گاؤں منگر خان پلیجو لے جایا گیا، جب ان کا جنازہ کراچی سے گاؤں لے جایا گیا تو کراچی اور ٹھٹہ کے بیچ کے تمام شہروں میں لوگ راستوں پر نکل آئے، ٹھٹہ پلیجو کا ابائی گاؤں ہے، اور انہوں نے سیاست کی شروعات بھی یہاں سے کی، وہ ان کے گاؤں والے بھی تھے تو پرانے کامریڈ ساتھی بھی، سارے شہر کے لوگ جھنڈے اور ان کی تصاویر لے کر کھڑے ہوگئے، جن میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل تھیں، جنازے والی ایمبولنس جہاں جہاں سے گذر رہی تھی لوگ انقلابی انداز میں اپنے قائد کو سلامی دے رہے تھے۔ جب جسد خاکی والی ایمبولنس تاریخی قبرستان جنگ شاہی پہنچی تو سینکڑوں خواتین ایک ڈسپلین عوامی فوج کی طرح قطار در قطار بنا کر کھڑی ہوگئیں۔ ان میں سے کئی خواتین کی گود میں بچے، ہاتھوں میں پارٹی کے جھنڈے اور تصاویر تھیں۔

رسول بخش پلیجو ایک ایسی انقلابی تنظیم کے سپریم کمانڈر تھے جن کے نیچے فاضل راہو جیسے زمیندار بھی کارکن بن کر کام کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، فاضل راہو پر پارٹی یا پلیجو کو فخر اس لیے رہا ہے کہ انہوں نے کبھی ڈسپیلین نہیں توڑا۔ یہ آخری سفر عجب اس لیے تھا کہ لوگوں کی آنکھیں اشکبار تھیں لیکن ان کی زبان پر کورس کے انداز میں انقلابی گیت تھے، وہ گیت جن میں امید ہی امید تھی، اور مایوسی کی کوئی جھلک کہیں دور سے نظر نہیں آ رہی تھی، لوگ دہاڑیں مار کر رو رہے تھے، تسلیوں کو کندھے ڈھونڈ رہے تھے لیکن ان خواتین اور مردوں کے زبان پر اپنے قائد کی عظمت کے نعرے تھے، وہ خواتین اپنے سپریم کمانڈر انقلابی لیڈر کی میت کو سلامی دی رہی تھیں وہ بچیاں، بچے، بوڑھے، جوان سب ایک ہی ضابطے میں تھے۔یہ سب وہ خواتیں تھی جو عوامی تحریک کے محاذ سندھیانی تحریک کی ورکر تھیں اور ان سب نے رسول بخش پلیجو کے ساتھ مل کر جدوجھد کی تھی۔ آج ان کا انقلابی رہنما ان میں نہیں تھا، رسول بخش پلیجو سے اختلاف رکھنے والے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ انہوں نے سندھ کی خواتین کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر ایسا متحرک کیا کہ ایم آرڈی سے لیکر کالاباغ ڈیم یا آمر مشرف کے خلاف چلنے والی تحریک میں انہوں نے ھراول دستوں کا کام کیا۔

یہ تدفین کے ایک دن پہلے کی بات تھی ، جب جمعہ کے دن پلیجو صاحب کی تدفین ہوئی تو پورے سندھ سے سینکڑوں خواتین اور اس گاؤں میں پہنچ چکی تھیں، جس کی مٹی کو اپنے لاڈلے کی مٹی نصیب تھی۔ رسول بخش پلیجو کی میت کو سندھیانی تحریک کی ورکرز، فاضل راہو شھید کی بیٹی شھناز راہو، سسئی پلیجو و دیگر کاندھا دے کر گھر سے باہر لائیں، اس سماج میں جہاں خواتین کو قبرستان پر جانے نہیں دیا جاتا وہاں پلیجو کی سیاسی طالبات نے اپنے لیڈر کے جنازے کو اپنا کاندھا دیا، جنازہ گاہ میں رسول بخش کی میت کو اجرک اور پارٹی کے جھنڈے میں لپیٹ کر لایا گیا تو بھی ایک طرف سسکیاں اور آہیں ضرور تھی، لیکن کئی زبانیں ایسی تھیں جن پر انقلابی گیت تھے، کئی لب تھے جن پر نعرے تھے۔ پرجوش نعرے، انقلابی گیت، میت کوسرخ سلام، پھولوں کی بارش، پلیجو اپنے پیچھے ہزاروں کارکنان سوگوار چھوڑ کر گیے ہیں، یہ کسی واحد سیاسی لیڈر کا جنازہ تھا جہاں ہزاروں خواتین نےمردوں کے ساتھ صفیں بنا کر جنازہ نماز پڑہی ہے، اس جنازے میں ہر ایک کے پاس اپنا درد اور یاد تھی، لیکن درد بھرے گلے سے نکلتی انقلابی گیتوں کے مدہم سروں کی گونج میں پلیجو صاحب کو الوداع کیا گیا۔

میں نے جو مناظر دیکھے وہ صرف رقت آمیز ہی نہیں تھے مجھے وہ مناظر بدلتے سندھ کی تصویر دکھائی دے رہے تھے، سندھ میں سیاسی اجارہ رکھنے والے سیاستدان آج بھی اپنی خاتون کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دینے سے کتراتے ہیں، سندھ کے بھوتار کلاس کی خواتین کو کار میں سوار کرنے سے پہلے کار کے شیشوں کو مٹی لگائی جاتی ہے، پلیجو کے ہم عصر سندھ کے کسی قوم پرست سیاستدان نے اپنی خواتین کو برقعہ میں رہنے کی ہی تلقین کی اور مرتے دم تک ان کو گھروں میں بند رکھا، لیکن یہ رسول بخش پلیجو اور فاضل راھو تھے جنہوں نے کہا کہ انقلاب کی شروعات گھر سے کرنی چاہیے اور پھر کر کے دکھایا، پلیجو صاحب کا آخری دیدارکرنے والے اس ھجوم میں کئی وہ چہرے تھے جو برسوں پہلے رسو ل بخش پلیجو سے سیاسی راہیں جدا کر چکے تھے، لیکن آج وہ بھی اداس تھے ان خاموش چہروں پر اداسی کے ساتھ پشیمانی کی ریکھائیں بھی تھی لیکن ان سب پر بڑا سوال یہ تھا کہ اب سندھ کا کیا ہو گا؟ کیوںکہ وہ سندھ کے حقوق کے ایک بڑے وکیل کو اپنے ہاتہوں سے مٹی ماں کے حوالے کرنے آئے تھے، ایسا وکیل جس نے ساری عمر لڑتے، جدوجھد کرتے اور انقلاب کے درس دیتے گذار دی۔

“جھان کی ڈیو مبارکون، اسین پیا کاھیندا اچون،

نون سرن میں زندگی جا گیت گائیندا اچوں”۔

آہوں اور سسکیاں سے ملےجلے سروں میں مٹی کے حوالے ہوئے پلیجو کے لیے خواتین گا رہی تھیں کہ ”کہے سندھڑی ساری جیے پلیجو، کہیں دیس کے ہاری جیے پلیجو، رہبر ایسا قوم کا ہوگا کبھی نا کوئی”۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar