یادرفتگان پیر مقبول احمد شاہ


آپ کا تعلق کھڑی شریف کے گاؤں بنی میں آباد ایک دیندار اور علمی گھرانے سے تھا۔ آپ کے آباؤاجداد تین صدی قبل بغداد سے ہجرت کر کے تبلیغ کی غرض سے ہندوستان تشریف لائے اور بشندور ضلع جہلم کے مقام پر قیام کیا۔ وہاں سے ان کے ایک فرزند جناب دین محمد شاہد صاحب بنی میں تشریف لائے جو کہ اس وقت راجواڑوں کی حکومت کا علاقہ تھا۔ راجہ نے آپ کی دین داری، شرافت اور کرامات کو دیکھ کر آپ کو 30 ایکٹر زمین عطا کی اور یہاں مستقل قیام کی درخواست کی۔ ان کی درخواست قبل کرتے ہوئے یہ خاندان بنی میں آباد ہو گیا۔

انیسویں صدی کے آخری عشرہ میں سن 1894 ء پیر صاحب کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت علاقہ میں کوئی قابل ذکر علمی درسگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کرنے کے بعد آپ نے درس کی تعلیم اپنے ننھیال گولیکی ضلع گجرات میں حاصل کی۔ لیکن گھر والوں نے اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے واپس بلا لیا اور چودہ سال کی عمر میں محنت مزدوری میں لگا دیا۔ اس وقت نہر اپر جہلم کی کھدائی کا کام شروع تھا۔ آپ نے بھی منگلا کے مقام پر ایک کھدائی کرنے والی مشین کے اپریٹر کے ہیلپر کے طور پر کام شروع کر دیا۔ ایک دن مشین کی صفائی کے دوران انگریز اپریٹر نے مشین چلا دی۔ جس سے آپ کا دایاں بازو اور ہاتھ مشین میں آ گیا۔ آپ کو ابتدائی طبی امداد کے بعد لاہور ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں کہنی تک بازو میں کاٹنے کے باوجود صحت مند نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو دہلی منتقل کر دیا گیا۔ جہاں ڈاکٹروں نے آپ کا بازو کندھے تک کاٹ دیا۔ مکمل صحت یاب ہونے میں دو سال کا عرصہ لگ گیا۔ صحت یاب ہونے پر آپ کو دہلی میں ہی رکھا گیا اور بائیں ہاتھ سے لکھنے اور دوسرے کام کاج کرنے میں تربیت دی گئی۔ اسی دوران آپ نے دہلی میں ایک مدرسہ کے علاوہ ایک حکم صاحب کے مطب میں کام شروع کر دیا۔ دس سال مطب میں کام کرنے اور طب کا علم سیکھنے کے بعد آپ نے وطن واپسی کا قصد کیا اور 1920 ء میں وپس گاؤں تشریف لائے ۔ گاؤں میں آکر اپنا مطب قائم کیا اور ساتھ ہی سماجی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس وقت مسلمان بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں تھے۔ کشمیر میں ڈوگرہ حکومت کا راج تھا آپ نے ڈوگرہ راج حکومت میں ملازمت کو ٹھکرا دیا اور مسلمانوں کی بہتری کیلئے کام کرنا چاہا۔ اپنے جوانوں اور بچوں کو پڑھائی کی طرف راغب کیا۔

متحدہ پنجاب کے اضلاع گوجرانوالہ اور گجرات میں رشتہ داری ہونے کی وجہ سے اکثر وہاں جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ کشمیر میں مہاراجہ کے بالا وجہ ٹیکسوں کی وجہ سے رعایا خصوصاً مسلمان بہت تنگ تھے۔ جب دوسرے علاقوں میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو آپ نے علاقہ کے مسلمانوں کو اس بارے میں آگاہی دی۔ آزادی کی تحریک کے دوران لاہور اور دوسرے علاقوں میں مسلم لیگ کے جلسوں میں شرکت کی۔ 1940 ء کی قرارداد پاکستان کے جلسہ میں اپنے پھوپھی زاد بھائی پیر شیر عالم کے ساتھ لاہور میں شرکت کی۔ کشمیر کی جنگ آزادی میں بھی بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور لوگوں کو مسلم کانفرنس کے پرچم تلے جمع کیا۔ آپ 1950 ء میں مسلم کانفرنس علاقہ کھڑی کے بانی صدر تھے۔ اس وقت کے صدر آزاد کشمیر جناب سید علی احمد شاہ نے آپ کی ان کوششوں کی وجہ سے آپ کو حسن کارکردگی کی سند عطا کی۔ آپ نے 1955 ء تک علاقہ کھڑی مسلم کانفرنس کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں اور جماعت کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

پاکستان بننے کے فوراً بعد مہاجرین کی آمد کی وجہ سے غذائی قلت ہوئی تو حکومت نے راشن بندی کر دی اور حکومت نے گندم ارزاں نرخوں پر منظور شدہ ڈپوؤں سے فراہم کرنا شروع کی۔ آپ کی نیک نامی، شرافت اور پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے آپ کو بھی ڈپو کا لائسنس دیا گیا۔ لیکن مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے آپ نے لائسنس لینے سے انکار کر دیا لیکن پھر راشن بندی کا تمام ریکارڈ مرتب کرنے اور اس کی نگرانی کا کام آپ کے سپرد کیا گیا جو کہ آپ نے بہت ہی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔

1950 ء کی دہائی میں آپ نے محسوس کیا کہ علاقہ میں ڈاک کی ترسیل کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے تو آپ نے محکمہ ڈاک کو گاؤں میں برانچ پوسٹ آفس کھولنے کیلئے درخواست دینا شروع کیں۔ محکمہ نے آپ کی درخواستوں کے جواب میں 1958 ء میں بنی گاؤں میں ڈاکخانہ کی برانچ کھولنے کی منظوری دی اور ساتھ ہی اس کا انتظام بھی پیر صاحب کے سپرد کر دیا۔ اس وقت ناخواندگی کی وجہ سے بہت کم لوگ خط و کتابت کرتے تھے تو آپ خود ہی اپنی طرف سے لوگوں کو خط لکھتے اور واپسی جواب کی تلقین بھی کرتے تاکہ زیادہ خط آنے جانے کی وجہ سے برانچ قائم رہ سکے۔ ابھی بھی یہ پوسٹ آفس، سب آفس کے طور پر قائم و دائم ہے۔

1958 ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگایا اور عنان حکومت سنبھال لی تو ایک سال بعد ہی بنیادی جمہوریت کیلئے ایک نیا سیٹ اپ بنایا۔جس میں چار پانچ دیہات کو ملا کر ایک یونین کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تقریباً 600 سے 700 تک کی آبادی تک کے گاؤں میں ایک ممبر یا کونسلر اور 15000 تک کی آبادی یا سات سے آٹھ دیہات کیلئے ایک یونین کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یونین کونسل کی سطح پر ساتھ آٹھ ممبران مل کر ایک چیئرمین کا انتخاب کرتے تھے۔ علاقہ کھڑی میں یونین کونسل سموال شریف کا قیام عمل میں لایا گیا اور 1960 ء میں باقاعدہ انتخاب کروا کے اس یونین کونسل کو کھڑا کیا گیا۔ آپ اپنے گاؤں سے بلا مقابلہ ممبر منتخب ہوئے اور پہلا چیئرمین چوہدری قاسم ظفرکو بنایا گیا۔ لیکن ان کی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے انہوں نے یونین کونسل کا سارا نتظام پیر صاحب کے سپرد کر رکھا تھا جوکہ آپ نے یہ ذمہ داری اگلے دس سال تک بڑے احسن طریقہ سے انجام دی۔ اسی دوران علاقہ کی تعمیر اور ترقی کیلئے کافی زیادہ کام سرانجام دیئے جن میں یونین کونسل کے دفتر کا قیام اور اس کی تعمیر، گاؤں اور مختلف دیہات تک رابطہ سڑکوں کی تعمیر شامل ہیں۔ گاؤں سے نہر تک سڑک کیلئے لوگوں نے بہت روڑے اٹکائے لیکن آپ کی سمجھ داری اور سڑک کی اہمیت اجاگر کرنے پر لوگ مان گئے اور آج بھی لوگ ان کو یاد کرتے ہیں۔

1969 ء کے بعد کا یونین کونسل کا الیکشن برادری ازم پر لڑا گیا تو آپ نے اس سے دستبرداری کا اعلان کیا اور عملی سیاست سے علیحدگی اختیار کر لی اور یاد الہٰی میں زیادہ وقت صرف کرنا شروع کر دیا۔ 1970 ء میں گاؤں کی مسجد کی نئے سرے سے تعمیر کا کام آپ کے سپرد کیا گیا کیونکہ برادریوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے کوئی بھی یہ ذمہ داری اٹھانے سے ڈرتا تھا۔ آپ نے مہارت سے تمام اخراجات کا باقاعدہ حساب رکھ کر گاؤں والوں کو دکھایا۔

آپ نے تمام زندگی خدمت اور عبادت میں گزاری۔غربت اور ناگفتہ بہ مالی حالت کے باوجود ایک باوقار زندگی گزاری۔ آپ نے حکیم گری کا جو علم دہی سے حاصل کیا تھا اس کو عمل میں لائے اور یونانی ادویات کا ایک دواخانہ ’’مقبول عام دواخانہ‘‘ کے نام سے گاؤں میں قائم کیا اور لوگوں کو طبی امداد فراہم کرتے رہے۔ غریب اور نادار لوگوں کا مفت علاج کیا۔ اس ضمن میں ایک واقعہ ہے کہ آپ کسی کام سے بذریعہ ٹرین کراچی جا رہے تھے۔ ٹرین میں ان کے ساتھ ایک فیملی بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر اولاد نہیں ہے اور ہوتی ہے تو فوت ہو جاتی ہے۔ آپ نے ان کو نسخہ لکھ کر دیا اور استعمال کا طریقہ بھی بتا دیا لیکن وہ بضد ہو گئے کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں اور خود بنا کر دیں۔ اس پر آپ نے اپنے ایک حکیم دوست جناب حکیم عبداﷲ جن کا مطب پاپڑ منڈی لاہور میں تھا کو خط لکھ کر دیا نسخہ مع پیغام بھیجا اور ساتھ ہی بنانے کی ترکیب بھی لکھ بھیجی حالانکہ حکیم لوگ اپنا نسخہ اپنے ساتھ قبر میں لے جاتے ہیں۔

فیملی نے جو کہ صادق آباد ضلع رحیم یار خان کے باسی تھے وہ نسخہ استعمال کیا اور ان کے گھر اولاد ہوئی تو وہ یہاں گاؤں میں پیر صاحب کے پاس تشریف لائے اور ان کو ساتھ لے کر اپنے گاؤں گئے اور دو تین گاؤں آپ کے مرید ہو گئے اور ان کا سارا خاندان پیر صاحب کی وفات تک حاضری دیتا رہا اور ابھی تک ان کے عقیدت مند ہیں۔

دہلی میں قیام کے دوران آپ کو کتابوں کا شغف ہو جو ساری عمر رہا ۔ وہاں سے واپسی ہر حکمت اور دوسرے علوم کی کافی کتابیں اپنے ساتھ لے کر آئے اور گاؤں میں اپنا کتب خانہ بنایا۔ جس میں کافی تعداد میں کتابیں فارسی زبان میں تھیں۔ ایک دفعہ خانہ فرہنگ جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کے انچارج سے اپنے ہاں موجود پرانی فارسی قلمی کتابوں کا ذکر کیا۔ جس پر خانہ فرہنگ کے انچارج نے اصرار کیا کہ وہ قلمی کتابیں ان کو دے دی جائیں۔ بعد ازاں خانہ فرہنگ کے انچارج خود بنی گاؤں آئے اور قلمی فارسی کتابیں اپنے ساتھ لے گئے۔ اب وہ باقاعدہ پیر صاحب کے نام کے ٹیگ کے ساتھ خانہ فرہنگ کتب خانہ کا حصہ ہیں۔ قرآن مجید کا ایک قلمی نسخہ جو کہ تقریباً تین سوسال پرانا ہے پیر صاحب کے بزرگ جناب دین محمد شاہد صاحب کے ہاتھ کا تحریر شدہ ہے آج بھی راقم کے پاس موجود ہے اور خاندان کیلئے خیر و برکت کا ذریعہ ہے۔

آپ تہجد گزار تھے، زندگی کے آخری دو سال صاحب فراش ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے لیکن اس حالت میں بھی پنجگانہ نماز نہیں چھوڑی۔ راقم کو یہ شرف حاصل رہا کہ تہجد سے لے کر عشاء تک ان کی تمام نمازوں کیلئے وضو کا اہتمام کرتا رہا۔ قرآن مجید کافی حد تک زبانی حفظ تھا۔ خاص کر تیسویں پارے کی آیات روزانہ رات کو بلند آواز میں تلاوت کرتے۔ اس کے علاوہ ان کو سیف الملوک بھی زبانی یاد تھی جو کہ وہ اکثر و بیشتر بلند آواز میں پڑھتے۔ آپ نے آخری دن تک نماز نہیں چھوڑی بستر پر اشاروں سے بھی پڑھتے رہے۔ وفات کے دن بھی فجر کی نماز ادا کی اور کچھ آیات تلاوت کیں کہ فرشتہ اجل نے آلیا۔ آپ گیارہ جون 1978 ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ ہر سال آپ کی برسی کا اہتمام ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).