آدھی صدی پہلے مضافات کی عید


شاعر مشرق کے ہم وطن اور پچھلی صدی کے وسط تک مرے کالج، سیالکوٹ میں فارسی کے نامور استاد حکیم جمشید علی کبھی کبھار علامہ کی بے پناہ مقبولیت سے حیرت زدہ ہو کر یہ شکوہ کیا کرتے کہ ’’میں بھی ایم اے، پی ایچ ڈی اور ڈاکٹر اقبال بھی ایم اے، پی ایچ ڈی۔۔۔ لوگ انہیں مانتے ہیں، مجھے کوئی نہیں مانتا ‘‘ ۔

حکیم جمشید، جنہیں سارا شہر ایک درویش صفت بزرگ کے طور پر جانتا تھا، اپنی علمیت، دینداری اور حق ہمسائیگی کی بنا پر اقبال سے کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور رکھتے ہوں گے، لیکن اب میں نے بھی پیدائشی سیالکوٹی ہونے کی حیثیت سے محلہ چوڑی گراں اور ٹبہ کشمیریاں کی حد بندی کو کھینچ تان کر حضرت علامہ کے ساتھ سکونتی رشتہ ثابت کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور یہ بھی معلوم کر لیا ہے کہ انہیں بھی میری طرح عید کی سویاں دودھ کی بجائے دہی کے ساتھ زیادہ پسند تھیں۔

اقبال کے تصورات کی روشنی میں اگر پاکستان کو مسلم تمدن کے احیا کا ایک مرکز تسلیم کر لیا جائے تو اس کی بنیاد ہمارے وہ معروف دینی عقائد ہی ٹھہریں گے جن پر ہم عبادات، اخلاق و اطوار اور دیگر اجتماعی قدروں کی عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ظاہر ہے بنیاد جتنی پختہ ہوگی اتنا ہی اسے عمارت کی مضبوطی کی دلیل خیال کیا جائے گا ۔

صرف یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ خانہ خالی را دیو می گیرد، چنانچہ انسانی استعمال کے لئے بننے والی عمارتیں خالی نہیں رکھی جاتیں اور انسانوں ہی کے دم قدم سے آباد رہتی ہیں،چنانچہ عمارت کی کھڑکیوں، دریچوں اور بر آمدوں سے جھانکیں تو باہر کی تازہ، ہوا دار اور روشن فضا میں ہمارے موسموں کے رنگ، شہر و قصبات اور گاؤں، ہماری نئی اور پرانی روایات کے باغ باغیچے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ انہی میں ایک خوش رنگ، مگر بدلتا ہوا منظر پاکستانی عید کا بھی ہے۔

نئی نسل کو عید کی فلم دکھانے کے لئے مجھے کہانی کو ذرا فلیش بیک میں لے جانا پڑے گا، جس کے شروع کے سین آج کل کے تھری ڈی ناظرین کے ذوق کی تسکین نہیں کرتے۔ پرانے زمانے کی اصطلاح میں، آپ اِسے ایک گھسے پٹے بلیک اینڈ وائٹ ’ٹوٹے‘ کا شرطیہ نیا پرنٹ سمجھ لیں۔۔۔ سب سے پہلے تو پس منظر میں سیالکوٹ کی ’اقبال منزل‘ سے کوئی چار سو گز دور کھلونوں کی ’ٹی ٹی، پا پاں‘ جیسی نیچرل ساؤنڈ اور پیش منظر میں محلہ ککے زئیاں، ٹبہ ٹانچی اور نائیوں والی ’ڈھکی‘ سے اراضی یعقوب یا کرنل خالد بٹ کی اصطلاح میں ہیٹھلے محلے کی عمومی سمت میں پھدکتے ہوئے ہر سائز کے بچے۔

ملبوسات ذرا ’پینڈو‘ فیشن کے مگر نئے ہیں جن کے سامنے عین چھاتی کی طرف ایک ایک ریشمی رومال اُس طرح کی سیفٹی پن کے ذریعہ نمائشی انداز میں آویزاں ہے جو عام حالات میں شیر خواروں کے لنگوٹ باندھنے کے کام آتی ہے۔

اِس کے بعد بجلی گھر کے نواح میں عید گاہ کا منظر، جہاں لوگوں کی موومنٹ دکھائی جائے گی اور چھ زائد تکبیروں سے پیدا ہونے والا دلچسپ گھپلا، جس سے اسٹوری میں ہیومن اینگل آ جائے ۔ کچھ ہی پہلے ایک متوسط درجہ کا خاندان سویاں کھاتے ہوئے جس میں چار اور پانچ سال عمر کے دو نہائت خوش باش لڑکوں کے کلوز اپ بھی ہیں ۔

دونوں دل ہی دل میں ’گٹک‘ رہے ہیں کہ تھوڑی دیر میں اپنے کم گو مگر ’حرکتی‘ دادا ابا کی قیادت میں نماز ادا کر کے واپسی پر میلہ دیکھیں گے۔ زیادہ جوش اس لئے کہ کیا پتا پچھلی عید کی طرح بچوں کو گول جھولے کی سیٹوں پہ بٹھاتے ہی خود ابا جی بھی کود کر گھومنے والے گھوڑے پہ سوا ر ہو جائیں ۔ اِس ’کرتب‘ سے جہاں بچوں کا دِل پشوری ہو گا، وہاں اس تاثر کی نفی بھی ہو گی کہ پچھلے دنوں ’ریلوائی ‘ کے کام میں سخت گھاٹا پڑنے سے ملک فضل الٰہی کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔

فضل الٰہی کی کمر تو الحمد للہ اُس وقت بھی نہ ٹوٹی جب 1931 ء میں سید عطا اللہ شاہ بخاری کے حکم پر بیوی بچوں کو خدا کے آسرے پہ چھوڑ کر وہ ’کشمیر چلو‘ تحریک کے سرفروشوں میں جا شامل ہوئے تھے۔

قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’’پہلی یورش سیالکوٹ کی جانب سے شروع ہوئی۔۔۔ ماؤں نے بیٹوں کو، بہنوں نے بھائیوں کو اور بیویوں نے خاوندوں کو خوشی خوشی دعائیں دے کر ریاست میں داخل ہونے کے لئے رخصت کیا۔۔۔ اندازہ ہے کہ صرف پنجاب سے پینتالیس ہزار نوجوان گرفتار ہوئے‘‘۔

جموں و کشمیر کی ادھم پور جیل اور پھر ’ٹھیکری پہرے‘ والے فیروز پور کیمپ میں اسیری کے چالیس برس بعد جب میں نے پوچھا کہ ابا جی، آپ کو گرفتار ہوتے ہوئے اپنے سات سالہ اکلوتے بیٹے اور اُس کی چھوٹی بہن کا خیال نہ آیا تو انہوں نے بڑی سادگی سے کہا ’’بیٹا، وہ تو قومی کام تھا نا‘‘۔ اِس کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف لوک گائیکی کا یہ نمونہ گنگنانے لگے :

پردے دار بیبیاں تے لاٹھیاں ورسا کے

مال سارا لُٹ لیا نیں گھراں وچ جا کے

اٹھو، اٹھو، مومنو، رخ کرو کشمیر دا

راج کر تباہ سٹو ڈوگرے بے پیر دا

عید کی فلم میں انٹرول کے بعد کا سنیما اسکوپ منظر اگلی عید الفطر پر واہ کی مرکزی مسجد کا لانگ شاٹ ہے، جہاں سے کیمرہ آہستہ آہستہ زوم کر کے پاکستان آرڈنینس فیکٹری کے شیروانی پوش ویلفیئر آفیسر پہ جا کے رکے گا جن سے معانقہ کرتے ہوئے دونوں سیالکوٹی لڑکوں کے ’باؤ‘ ٹائپ والد کی آواز گونج رہی ہے ’’واہ، جعفری صاحب، آپ کی توند سے ملنے کا مزا آ گیا۔ لگتا ہے اسپرنگ لگے ہوئے ہیں‘‘۔

یہ آواز سن کر جان میں جان آتی ہے، وگرنہ خطبہ ختم ہوتے ہی جب بہت سے مراد آبادی، رامپوری اور شاہجہانپوری بزرگ ’جانے نہ پائے‘ کے جذبہ کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف لپکے تو فوری طور پہ یوں لگا کہ نمازیوں میں ہاتھا پائی شروع ہو گئی ہے۔

دراصل اس سے پہلے سیالکوٹ کی عید گاہ سے امام علی الحق شہید کے مزار والے میدان تک، جہاں میلہ لگتا، ہم نے کبھی کسی شخص کو عید مبارک کہتے یا گلے ملتے نہیں دیکھا تھا ۔

آج کل کے نوجوان پوچھیں گے کہ سر، اگر یہی بات ہے تو پھر اپنے بچپن میں آپ نے دیکھا ہی کیا تھا۔ جواب یہ ہے کہ میں نے اپنے شہر میں بس سے اترتے ہی جوتے سر پہ رکھ لینے والی دیہاتی عورتیں دیکھ رکھی تھیں، تانگے کے ساتھ دوڑ لگا کر پائیدان پہ ’جھونٹا‘ لینے والے باہمت بچے دیکھے تھے اور راہ چلتے وہ بزرگ جو عید کے دن بھی ملتے تو اس طرح جیسے ایک دوسرے سے شرما رہے ہوں۔

بامعنی علیک سلیک کی نوبت کم ہی آتی ۔ بہت ہوا تو ’’آئے او‘‘ ’’آہو چاچا، آئے آں‘‘۔ عید ملنا، ہاتھ ملانا، یہاں تک کہ باضابطہ ’’السلام علیکم‘‘ کہنا بہت سے لوگوں کے نزدیک ’ایلیٹ‘ ہونے کی نشانی تھی ۔

ممکن ہے یہ محض ایک علاقائی یا طبقاتی مسئلہ ہو، لیکن میں نے وسطی پنجاب اور بعض شمالی اضلاع کے قصباتی تمدن میں ایسی پسماندگی کے جزیرے ضرور دیکھے۔

البتہ، عید کا میلہ ایک ایسا جشن تھا،جس میں علاقائی اور طبقاتی امتیاز مٹ جاتا۔ لاہور میں بیرون دہلی دروازہ کا پرانا میدان ہو، سیالکوٹ میں امام صاحب کا احاطہ ہو یا واہ میں لائق علی چوک کی گراؤنڈ، ہر جگہ ایک ہی مانوس منظر دکھائی دیتا ۔

منہ سے سارا سارا دن رنگین گڈی کاغذ نکالنے والا آدمی، بارہ من کی دھوبن کا نظارہ اور روغنِ سرسوں سے نچڑے ہوئے لکڑی کے اونچے نیچے پنگھوڑوں کی مشفقانہ ’چوں۔۔۔ اوں۔۔۔ اوں‘ جس کی لے پر ایک تسلسل کے ساتھ ’بھائی زور دی‘ کا کورس گونجتا رہتا ۔

بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری نے ’عید کا میلہ ‘ میں ٹیڑھے میڑھے سرکس، موت کے کنویں اور ہر مال چار آنے کا نقشہ کھینچنے کے بعد جو نتیجہ نکالا وہ انہی کا حصہ ہے :

کیا کوچہ و در، کیا کوہ و کمر،

گلبرگ ہیں سب، گلنار ہیں سب

خوشبو میں بسے گلزار ہیں سب،

رنگوں سے بھرے بازار ہیں سب

بچے تو الہڑ بچے ہیں،

بوڑھے بھی صبا رفتار ہیں سب

پوشاک میں ’چوڑی دار‘ ہیں سب،

خوراک میں ’مرغا مار‘ ہیں سب

ہر سو خوشیوں کا ریلہ ہے،

من منگلا، دل تربیلہ ہے

یارو، یہ عید کا میلہ ہے

اب یہ من منگلا، دل تربیلہ والی بات خالص پاکستانی تمدن سے تعلق رکھتی ہے ۔ میرے لئے اِس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم عید کے دن سفید پوشی، بزرگی اور سماجی حیثیت کو اپنی سپورٹس مین اسپرٹ کے راستے میں حائل نہ ہونے دوں۔

لیکن من منگلا، دل تربیلہ والی نہر اب بڑے شہری مراکز کے فیشن ایبل علاقوں سے ہو کر نہیں گزرتی۔ میں عید کی فلم ہر قیمت پر خوشیوں کے ریلے پہ ختم کرنا چاہتا ہوں، مگر اِس کے لئے ملک کے تمدنی دارالحکومت سے نکل کر کسی ایسے دور دراز قصبے کا رخ کرنا پڑے گا جہاں اپنے دادا کی طرح کود کر گھوڑے والے جھولے پہ سوار ہوا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).