“پاکستان میں جاگیردارانہ سیاست کی اجارہ داری”


پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس ملک کی حکمرانی چند وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور خاندانوں کی اجارہ داری سے عبارت ہے۔ اس تاریخ کا آغاز 1937 کے انتخابات سے شروع ہوگا جس میں مسلم لیگ کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا اور تمام وڈیروں اور جاگیر داروں نے انتخابات لڑنے کے لئے کانگریس کا انتخاب کیا۔ 1946 کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ اور کانگریس نے جو منشور دیا اس میں کانگریس نے لینڈ ریفارمز کا اعلان کیا تو ان جاگیر داروں کو اپنی زمینیں اور جائیدادیں ضبط ہونے کا خطرہ لاحق ہوا۔ انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنا ہی اپنے لئے مفید سمجھا۔ پاکستان بننے کے بعد اس ملک کی نیا ڈبونے کی ٹھان کر تمام بڑے سرکاری عہدے اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کو دیے گئے۔ ان کی آپسی اقتدار کی جنگ میں پہلے 10 سالوں میں 7 سے زائد وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔

انگریزوں کی ان باقیات نے ایوب خان کے مارشل لاء کا خوش آمدید کہا اور بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں اس کے صف اول کے ساتھی ثابت ہوئے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف سازشیں اور انہیں غدار قرار دینے کا پروپیگنڈا بھی اشرافیہ کے اس طبقے نے ایوب کے ساتھ مل کر چلایا اور تاریخی دھاندلی کے ساتھ فاطمہ جناح کو شکست دی۔

ایوب کے جانے کے بعد بھٹو کے کامریڈ بن کر ابھرے اور نظریاتی جمہوری ہونے کا ڈھونگ رچایا۔ مشرقی پاکستان کے بنیادی حقوق سلب کر کے اقتدار کا مزا لینا خود کے لئے بہتر گردانا۔

بھٹو کی نیشلائزیشن، لینڈ ریفارمز اور دیگر معاشی پالیسیوں سے اختلاف کرنے کے بعد اس کے خلاف سازشیں شروع کیں اور اسے سزائے موت دلوا کر ضیاءالحق کے جہادی ساتھی بن گئے۔ اس کے ساتھ مل کر ملک کو مذہبی انتہاء پسندی کی طرف دھکیل کر امریکی ڈالروں کے عوض ملک میں دہشتگردی، جہادی کلچر اور طالبان پیداکیے اور ملکی سلامتی کا سودا کیا۔ ضیاءالحق کے طیارے کے تباہ ہوتے ہی نواز شریف کو سگا بھائی اور بینظیر کو بہن بنا کر چند متبرک اداروں کے ساتھ مل کر ملکی جمہوریت کی دھجیاں ادھیڑیں۔

جب پرویز مشرف نے اس سلسلے کو مارشل لاء لگا کر ختم کیا تو یہ ٹولہ مشرف کا ساتھی بن کر اقتدار میں شامل ہو گیا۔ اپریل 2002 میں ہونے والے ریفرنڈم میں مشرف کے غیر آئینی اقدام کی توثیق کی اور خود کو اس کے وفادار ساتھی ہونے کا ثبوت کیا۔ اس وفاداری کا صلہ انہیں اکتوبر 2002 میں ہونے والے پری پلینڈ انتخابات میں اقتدار دے کر دیا گیا۔ جس میں انہوں نے امپورٹڈ وزیراعظم شوکت عزیز، جمالی اور شجاعت حسین کی کابینہ میں شامل ہو کر 5 سال اقتدار کا مزا لیا۔

مشرف کے اترنے کا انتظار تھا کہ انہیں پیپلز پارٹی کی یاد ستائی اور زرداری صاحب کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ 2008 سے 2013 تک اپنے روایتی طرز سیاست کو اپناتے ہوئے ملک کو لوڈ شیڈنگ کی آگ میں دھکیل کر فرار ہوگئے۔

2013 میں نواز شریف کی ہوا دیکھ چلی کر اس کیپناہ لینے میں بہتری جانی اور کرپشن کا بازار گرم کر کے خود کو تحریک انصاف کی لانڈری میں دھونے کے لئے پیش کر دیا۔ اپنی تاریخ کو دہراتے ہوئے انتخابات سے چند عرصہ قبل انہیں نواز شریف اپنے جیسا محسوس ہوا تو عمران خان کی ٹیم میں شامل ہوکر تحریک انصاف کے کارکنان کا استحصال کیا۔ اور بہت بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے پارٹی ٹکٹ لے اڑے۔

وڈییروں اور جاگیر داروں کی مفاد پرست اور اقتدار کی سیاست پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایسا کڑوا سچ ہے جو ہم آسانی سے نگل جاتےہیں۔ اس تاریخ میں سیاستدان، مارشل لاء لگانے والے فوجی جرنیل، غیر ٓئینی فیصلے دینے والے جج حضرات، اور ان کا ساتھ دینے والے سرکاری افسر وقتا فوقتا ٓئے اور چلے گئے مگر جو طبقہ مستقل اور مشترک رہا وہ جاگیر طبقہ ہے۔ پارلیمان میں سیاسی جماعتوں کی حکومتیں بدلتی رہتی ہیں مگر یہ طبقہ ذاتی مفادات کی غرض سے پارٹیاں بدل کر کسی نا کسی طرح پارلیمنٹ کا حصہ رہا یہی وجہ ہے کہ اس طبقے نے عوام کے بنیادی حقوق کی بات نہیں اور نا نچلے طبقے کو سیاسی عمل کا حصہ بننے دیا۔

وہ طبقہ جو پارٹی کے لئے ہر پلیٹ فارم پر دن رات محنت کرتا ہے، پارٹی کے اچھے برے وقت میں اس کے ساتھ کھڑا رہتا ہے، پارٹی سے امید باندھے رکھتا ہے، پارٹی کا ہر سطح پر دفاع کرتا ہے جب اسے امید ملتی ہے کہ پارٹی کسی بہتر مقام پر پہنچ گئی ہے جس سے وہ سیاسی عمل کا حصہ بنیں گے۔ مگر عین اسی وقت یہ جاگیردار سیاسی طبقہ اس پارٹی پر دھاوا بول دیتا ہے اور نظریاتی کارکن ان کے اس استبداد تلے دب جاتا ہے۔ الیکشن سے مہینہ قبل پارٹی تبدیل کر کے اس کے ٹکٹ ہر انتخاب لڑا جاتا ہے۔ اور یہ طبقہ از سر نو اس سیاسی عمل کا حصہ بن جاتا ہے۔

پاکستانی سیاسی تاریخ اس جاگیر دار طبقے کے استبداد سے بھری پڑی ہے، جس نے پاکستان بننے کے فورا بعد اس مک کی جڑی کھوکھلی کرنا شروع کردیں اور ہر اس سوچ کا ساتھ دیا جس نے ملک میں معاشی و ماشرتی نا انصافیوں کی راہ ہموار کی۔

پاکستان کے سیاسی کلچر میں بہتری درکار ہے تو سب سے پہلے سالہا سال لوٹنے والے اس جاگیردارانہ سیاسی نظام کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ ان وڈیروں اور جاگیر داروں کے خلاف اعلان جنگ کرنا ہوگا جو وقت کے بہتے دھارے کے مطابق اپنی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرتے ہیں۔ نظریاتی سیاست کو فروغ دینا ہوگا تبھی جا کر یہ ملک جمہوریت کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرے گا۔ بقول جالب،

اصول بیچ کر مسند خریدنے والو
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تمہیں تھا نا ہو سکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).