موت اور مذہب کا غیر منطقی استدلال



\"Tasneef\"تصنیف حیدر

کائنات میں بہت سے ایسے اسرار ہیں، جن تک دماغ کے کلبلاتے ہوئے ریشے پہنچ نہیں پاتے، سائنس تجربے پر یقین رکھتی ہے، عمل اور ردعمل کا باریکی سے جائزہ لیتی ہے، مگر بعض اوقات یہ تمام حقیقتیں یہ تمام نتائج جھوٹ ثابت ہوتے ہیں۔معاف کیجیے گا،مجھے اصطلاحوں میں بات کرنا نہیں آتا، اور نہ میں کوئی اتنا قابل شخص ہوں جو موت کے متعلق موجود تمام آسمانی آیات اور سائنسی تجربات سے بھرپور واقفیت رکھتا ہو لیکن پھر بھی میں ان دنوں موت کے تعلق سے کچھ زیادہ سوچ رہا ہوں اور اس سوال نے میرے دماغ میں کائنات کی بہت سی چیزوں اور باتوں کو اس ابدی حقیقت سے جوڑ نے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔کبھی فرانسیسی ادیب سارتر کی ایک کہانی پڑھی تھی، جس میں اس نے ایک ایسے قیدی کی رات کا نفسیاتی حال رقم کیا تھا، جسے صبح پھانسی ہونے والی ہے، نزدیکی طور پر دیکھوں تو غالب یاد آتا ہے
تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
اس حقیقت کو میرا دل سمجھنے پر آمادہ ہوچلا ہے کہ انسان زندگی بھر موت کو ڈھوتا ہے، موت کو جیتا ہے۔اس کے علاوہ اس کے پاس زندگی کرنے کا کوئی بھی دوسرا راستہ نہیں ہے۔فرض کیجیے ایک ایسی دنیا ہمیں میسر آجائے جہاں موت نہ ہو۔جہاں مرنے کا ڈر نہ یا موت کا ذائقہ نہ ہو، وہاں زندگی کی ترتیب کیا ہوگی،اس سوال کا فلسفیانہ جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ انسان کی نشو و نما اگر رک جائے، یعنی اگر وہ زندگی کے کسی ایک حصے سے آگے نہ بڑھے تو کیا ہجر و محبت، جنس و وصال، نفرت و محبت جیسی چیزیں باقی رہ جائیں گی، بہت زمینی طور پر سوچ کر دیکھیے کہ آپ کے پاس بے انتہا وقت ہے لوگوں سے بدلہ لینے کے لیے، انہیں ڈرانے کے لیے یا کھانا کھانے کے لیے یا پھر کسی کے ساتھ جنسی رشتہ قائم کرنے کے لیے۔اب اس بہت سے وقت کا آپ کیا کریں گے، آپ کاہل ہوجائیں گے، چونکہ یہ وقت ہی ہے جو آپ کو یاد دلاتا ہے کہ فلاں کام کی معیاد یہاں تک ہے، یعنی جنسی عمل کا وقفہ پانچ سے دس منٹ، رات کا وقفہ آٹھ سے نو گھنٹے اور برسات کا دور تین ماہ تک ہی قائم رہ سکتا ہے، اب اس دوران موجود تمام وسائل کو ہم اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرکے اپنے لیے کار آمد بنا سکتے ہیں، اگر نہ بنا سکے تو ان کے اچھے برے نتائج سے بھی محروم رہ جائیں گے۔میں بہت چھوٹی عمر سے سوچتا ہوں کہ انسان کو تکلیف کیوں ہوتی ہے، یاد رکھیے کہ یہی وہ عارضی وقفہ ہے جو انسان کے دکھ اور اس کی موت کے درمیان تن کر کھڑا ہوا ہے، یعنی اگر موت کے تصور میں تکلیف کا شائبہ نہ رہے تو خودکشی کا تناسب بہت بڑھ جائے گا۔
ہم بات کررہے ہیں ایک ایسے لامتناہی وقت کی، جو انسان کوسارے جذبوں سے جوڑے رکھتی ہے اور اسے انسان بنائے رکھتی ہے۔اب سوچیے کہ ان جذبوں سے عاری شے کیا ہوگی، اگر وہ ہوئی بھی تو؟ کیا انسان دکھ ،جھلاہٹ، نزلے اور موت کے خوف کے بغیر انسان رہ جائے گا؟ نہیں۔اور فطرت ایسا چاہتی بھی نہیں، اس لیے بظاہر اس نے انسان کو خود موت کے اتنے نمونے دیے ہیں کہ وہ ہر شے کو اپنی آنکھوں کے سامنے ختم ہوتا ہوا دیکھ سکتا ہے، اور جن چیزوں کے کبھی ختم نہ ہونے کا اسے یقین نہیں ہے، ان کے بارے میں اس نے ایک تصور گڑھ لیا ہے ، یعنی کہ آسمان کبھی نہ کبھی ٹوٹ کر گرے گا، اور زمین تباہ ہو گی۔ حالانکہ نہ آسمان کو گرنا ہے نہ زمین کو تباہ ہونا ہے، بس ان کی ہیت شاید کبھی بدل جائے جیسے کہ انسان کی ہیت کا بدل جانا عین ممکن ہے۔اب ایسے انسان کے لیے جو سکھ کو ایک خاص مدت میں پوری طرح نچوڑ لینے کی جلد بازی کا عادی ہے، کیسے ایک ایسی عارضی دنیا کا بالکل انہی جذبات والا انسان تسلیم کیا جاسکتا ہے، جو کبھی نہ ختم ہونے والی ایک پرسکون دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خوشی کے ساتھ رہے، لمبی تڑنگی عورتوں سے جنسی عمل کے مزے لوٹے، انگور کے خوشوں کو اچھالتا پھرے، ٹھنڈے میٹھے پانیوں میں نہائے اور انہیں پیے۔یہ تصور خالصتاً انسانی ہے، اس لیے فطرت کی اس سچائی سے اتنا ہی دور ہے، جتنا انسان فطرت سے دور ہے۔
میں نے ان دنوں ایک اچھی فلم دیکھی، جس کا نام ہے \’لوسی\’۔یہ فلم دراصل ایک ایسے مفروضے پر بنائی گئی ہے کہ انسان اگر اپنے دماغ کا سو فی صد حصہ استعمال میں لے آئے تو کیا ہوسکتا ہے۔سائنسی لحاظ سے سوال بے حد درست ہے۔مگر اس کا جواب ہمیں فلم کے اسی مرکز پر مل جاتا ہے، جب فلم کی مرکزی کردار لوسی کا دماغ اٹھائیس فی صد کام کرنے لگتا ہے۔واضح ہو کہ ایک عام انسانی دماغ پوری زندگی میں ٹھیک سے دس فی صد بھی اپنا دماغ استعمال نہیں کرتا۔فلم میں ایک جگہ بڑا دلچسپ نکتہ بیان کیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے اسی دس فی صدی دماغ کو استعمال کرپانے کی محدود صلاحیت کی وجہ سے پانے نہ پانے کی کشمکش کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔جبکہ ڈولفن نامی مچھلی اپنے دماغ کا بیس فی صد حصہ استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسی وجہ سے وہ پانے کے احساس سے آگے بڑھ کر ہونے کے احساس سے لطف حاصل کرنے کا ہنر سیکھ گئی ہے۔اب یہ تو پتہ نہیں کہ انسان کو ابھی کتنے برس اور لگیں گے اس قسم کے دماغی ارتقا میں ، مگر یہ بات تو طے ہے کہ انسان اگر مزید دس فی صد دماغی حصہ استعمال کرنے کے لائق ہوبھی گیا تو اس کی جسمانی، نفسیاتی اور روحانی تبدیلیاں بہت حد تک عجیب و غریب ہونگی، ایسے میں ممکن ہے کہ پوری دنیا محض ایک \’سکون گھر\’ بن کر رہ جائے۔مگر انسان کا وجود کسی اور مخلوق میں تبدیل ہوجائے گا۔میں اسی وجہ سے جنت کے ہزار درجہ خوبصورت تصور کو قبول نہیں کرپایا ہوں کیونکہ وہاں جس مخلوق کو اجر ملے گا، وہ انسان نہیں ہوگی، وہ تو کچھ اور ہوگی، جس کا یہاں کے اعمال سے کوئی خاص تعلق ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
دوستوﺅسکی نے بھی کئی جگہ موت کو مختلف انداز میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔اس کے حساب سے انسانی موت کا سب سے کریہہ اور خطرناک احساس مرتے وقت نہیں ہوتا، بلکہ موت کے بے حد قریب آجانے کے احساس کے غالب آتے ہوئے ہوتا ہے۔ جس کی مثال اس نے یوں دی ہے کہ اگر کوئی شخص ،جس کے سر پر کلہاڑا مارا جا رہا ہے، وہ سب سے زیادہ خوف اور تکلیف تب محسوس کرتا ہے، جب اٹھے ہوئے کلہاڑے اور اس کی گردن کے درمیان ہاتھ بھر کا فاصلہ رہ جائے۔
اوشو کی موت پر دی گئی تقاریر والی کتاب\’میں مرتیہ(موت)سکھاتا ہوں\’ میں بھی مرنے کے آداب سکھاتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ موت کا کوئی وجود نہیں ہے، اس نے موت کے وجود کو ایک وہم قرار دیا ہے،ایک ایسا اندھیرا ، جس کی روشنی میں آنے کی نہ تو ہمت ہے، نہ اوقات۔اس حوالے سے اس نے ایک دلچسپ قصہ کہیں سے نقل کیا ہے، یعنی ایک دن اندھیرا پرماتما کے یہاں جاکر یہ شکایت کرتاہے کہ پرکاش(سورج)اس کو ختم کرنے کی سازش کررہا ہے، اسے پرکاش سے ڈر لگنے لگا ہے، چنانچہ بھگوان اس سے کہیں کہ وہ اندھیرے سے دور رہا کرے۔بھگوان یہ شکایت سن کر پرکاش کو طلب کرتے ہیں، جب پرکاش حاضر ہوتا ہے، تو بھگوان کہتے ہیں کہ اندھیرے نے تمہاری شکایت کی ہے، تم کیوں ہمیشہ اس کے پیچھے پڑے رہتے ہو، کیوں اسے ڈراتے ہو۔پرکاش دونوں ہاتھ جوڑ کر کہتا ہے کہ \’بھگوان! میں نے تو آج تک اندھیرے کو دیکھا تک نہیں، میں اس کے ساتھ ایسی حرکت کیسے کرسکتا ہوں، اگر انجانے میں مجھ سے یہ غلطی ہوئی بھی ہے، تو آپ اسے میرے سامنے بلادیں، میں ابھی اس سے معافی مانگے لیے لیتا ہوں۔\’
موت کی بھی حقیقت زندگی کے آگے کچھ ایسی ہی ہے، موت کو ہم نے اسی لیے کبھی قبول نہیں کیا ہے کیونکہ ہمارا دماغ اسے قبول کرنے کے لیے بنا ہی نہیں ہے، فطرت موت کو کبھی قبول نہیں کرسکتی، اگر موت کا وجود ہے بھی تو بس اتنی دیر تک کے لیے جب تک زندگی کا پھیرا دوبارہ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی گلیوں کی طرف نہیں ہوتا۔یہ حقیقت اگر اٹل نہ ہوتی تو شاید ہم ری سائیکلنگ کے تصور کو کبھی سمجھ ہی نہ سکتے۔ دوستوﺅسکی نے جس خوف اور تکلیف کا ذکر کیا ہے،وہ ہمارے دماغ کی دراصل ایک ایسی عادت ہے، جسے صرف ظاہری چیزوں پر اعتبار کرنا آتا ہے، میں اپنی بات کو یوں سمجھاتا ہوں۔ مان لیجیے، ایک کیمرے میں ایک منظر دکھایا جاتا ہے کہ ایک لڑکے نے اچانک لڑکی کا سر پکڑ کر دیوار سے مار دیا، لڑکی کے سر سے خون کا فوارہ نکلا، زمین پر گر کر اس کی لاش تڑپنے لگی،اس پورے منظر کو ہمارا دماغ پوری طرح قبول کرلیتا ہے۔اس سے متاثر ہوتا ہے، ڈرتا ہے، غصہ کرتا ہے، جھنجھلاتا ہے اور یہ ان دماغوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے جو جانتے ہیں کہ یہ دونوں لڑکے لڑکیاں محض ایکٹنگ کررہے ہیں، خون ، خون نہیں ہے، لال رنگ ہے، لکڑی کا سر دیوار سے نہیں تھرماکول کی شیٹ سے ٹکرایا گیا ہے، یہی حال موت کے اس احساس کا بھی ہے،جو اس صدمے کو قبول نہیں کرسکتی کیونکہ وہ ہزاروں سال سے منظر کو اسی طرح دیکھتے رہنے کی عادی ہے، اور دماغ جو کچھ دیکھتا ہے، اس پر ہی یقین کرلیتا ہے۔
یقینی طور پر موت کا ہی سوال ہی ہمیں اس حقیقت کی جانب متوجہ کرتا ہے کہ تمام مذاہب کے آسمانی استعارات بھی آخر ایک مخصوص ثقافت اور زمین سے کیوں جڑے ہوتے ہیں۔اس لیے کیونکہ وہاں کے لوگوں نے جو چیزیں دیکھ رکھی ہیں، مذہب ان کی تصویریں بہت مانجھ مونجھ کر ان لوگوں کے سامنے پیش کردیتا ہے۔کیونکہ وہ موت کے بعد کی زندگی کو اس مزید بہتر کی خواہش سے مربوط کرتا ہے، جس کا تعلق انسان کے اس دس فی صدی استعمال ہونے والے دماغ سے ہے، جو ہونے سے زیادہ پانے پر یقین رکھتا ہے اور جس کے لیے میر صاحب نے کبھی کہا تھا
یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments