خطرہ موروثی سیاست سے نہیں، جمہوری میراث سے ہے


آج ایک ٹیڑھے موضوع سے واسطہ ہے۔ موروثی سیاست، الیکٹ ایبل سیاست دان اور جمہوری ثقافت کے خدوخال پر غور کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہمارے جمہوری ارتقا میں 2018کے انتخابات ایک آزمائش کے طور پہ سامنے آ رہے ہیں۔ کیا ہم ان سوالات کا بالغ سیاسی شعور کے ساتھ جواب دے پائیں گے؟ اس سنگلاخ زمین میں قافیہ پیمائی سے پہلے ایک بزرگ کو یاد کرتے ہیں۔ 1946ء کے انتخابات میں مظفر گڑھ سے ایک نسبتاً گم نام وکیل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے، نام تھا، عبدالحمید خان دستی۔ اس کے بعد خوشگوار اتفاقات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ دس برس میں درجن بھر وزارتیں بنیں اور بگڑیں، عبدالحمید دستی ہر وزارت میں شریک رہے۔ 1955میں چند ماہ کے لیے پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ عبدالحمید دستی کی سیاسی گتکے بازی اور چولا بدلنے کی اہلیت سے زچ ہو کر ایک صحافی نے اخبار میں لکھ دیا،

کل نفس ذائقہ الموت

الا عبد الحمید خاں دستی

1958ء میں ایوب خان کا ظہور ہوا تو ایبڈو کے مقدمات کا سامنا کرنے کی بجائے ہتھیار ڈالنے والے سیاست دانوں میں عبد الحمید دستی بھی شامل تھے۔ بہت برس بعد ان دنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے دستی صاحب نے فرمایا کہ جسٹس رستم کیانی نے مجھ سے طنزیہ دریافت کیا، تمہارے گردے کہاں ہیں؟ دستی صاحب کے مطابق ان کا جواب یہ تھا کہ گردے اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن برآمدے میں توپ رکھی ہے۔ چھ برس کے لئے سیاست سے رضاکارانہ دستبرداری کے بعد دستی صاحب کی اپنی سیاست تو ختم ہو گئی لیکن ان کا خانوادہ بدستور اقتدار کی راہداریوں میں موجود ہے۔

اس مختصر سی حکایت میں ہماری جمہوری آزمائش کے جملہ زاویے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا راستہ کھوٹا کرنے والے غیر منتخب عناصر نے موروثی سیاست کی مخالفت کے نام پر موروثی سیاست کو تحفظ دیا۔ اس میں ایک لطیف نکتہ قانون شہریت سے تعلق رکھتا ہے۔ کسی شخص سے قرابت داری کی بنیاد پر کسی شہری کے سیاسی اور جمہوری حقوق ساقط نہیں ہوتے۔ سیاست ایک رضاکارانہ اجتماعی سرگرمی ہے۔ جسے عوام کی تائید کا دعویٰ ہو، اسے سیاسی منصب کے لیے مقابلے کا حق ہے۔ اس کی ایک مثال قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح ملک کے جمہوری ارتقا سے مطمئن نہیں تھیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایوب مارشل لا کا خیرمقدم بھی کیا لیکن 1964 کے موسم خزاں میں فاطمہ جناح متحدہ حزب اختلاف کی طرف سے متفقہ صدارتی امیدوار کے طور پر آمریت کا مقابلہ کرنے نکلیں، فاطمہ جناح انتخاب ہار گئیں۔ لیکن انہوں نے ایوب آمریت کی بنیاد ہلا دی۔ پاکستان میں موروثی سیاست کی ایک روشن مثال لاڑکانہ کا بھٹو خاندان ہے۔ بے شک سر شاہ نواز بھٹو جاگیردار تھے لیکن 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان میں جمہوری امنگوں کا استعارہ بن کر سامنے آئے۔ بھٹو کی سیاست سے اختلاف ممکن ہے لیکن بھٹو نے پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو کر پاکستان کی جمہوری تاریخ میں اپنا مقام متعین کیا۔ بھٹو کی بیٹی کو پنڈی میں شہید کیا گیا۔ گڑھی خدابخش بھٹو کا قبرستان گواہ ہے کہ سیاست میں موروث بذات خود کوئی عیب نہیں بشرطیکہ یہ جمہوریت کی میراث کا جھنڈا اٹھائے۔

موجودہ سیاسی صورتحال میں قطبیت اس قدر شدید ہے کہ شاید کسی کو اس فہرست میں مریم نواز کا تذکرہ پسند نہ آئے لیکن سچ تو یہی ہے کہ 1978میں چھبیس سالہ بے نظیر بھٹو جہاں کھڑی تھی، آج پینتالیس سالہ مریم نواز اسی مقام پر ہے نیز یہ کہ بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو بھی اس منظر کا حصہ ہیں۔ بھٹو کی اولاد میں صنم بھٹو نے یہ راستہ نہیں چنا۔ نواز شریف کے خانوادے میں بھی عافیت کوشی کی مثالیں موجود ہیں۔ سو طے یہ پایا کہ سیاسی میراث کسی دکان کی ملکیت نہیں جس پر بربنائے نطفہ استحقاق کا دعویٰ کیا جائے۔ اسی تصویر کا ایک دوسرا رخ دیکھیے۔ سرمایہ دارانہ معیشت کی کامیابی کے لئے جمہوری بندوبست لازم ہے۔ سرمایہ داری طلب و رسد کی منڈی میں کھلے مقابلے کی معیشت ہے۔ اگر اس معیشت پر شہریوں کی مساوات پر مبنی جمہوری احتساب کی کاٹھی نہ ڈالی جائے تو سرمایہ دارانہ معیشت بے لگام اجارہ داری میں ڈھل جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پیوستہ معاشی مفادات کسی سیاسی رکاوٹ کے بغیر منافع اور پھیلاؤ کی خواہش رکھتا ہے لیکن بالغ رائے دہی کا اصول معاشرے میں کم زور اور غریب کے لیے تحفظ کی ڈھال بنتا ہے اور مواقع کی کھڑکی کھولتا ہے۔ جمہوری احتساب موجود نہ ہو تو معاشرے میں معاشی ناانصافی اور سماجی اونچ نیچ بے قابو ہو جاتی ہے۔ جمہوریت نظریہ نہیں ہے بلکہ مختلف معاشی اور سماجی مفادات کے درمیان مکالمے کو ایک دستوری ڈھانچے میں سمونے کا طریقہ کار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجارہ دار معیشت اور آمریت میں قدرتی گٹھ جوڑ ہے۔

متعدد مورخین کی رائے ہے کہ 1945-46ءمیں غول در غول مسلم لیگ میں شامل ہونے والے جاگیر دار آزاد ہندوستان میں ممکنہ جمہوری تجربے سے خائف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کی سیاسی تنظیم کمزور تھی اور اس کی فکری شناخت میں بے پناہ ابہام تھا۔ نتیجہ یہ کہ فسادات اور متروکہ املاک کے معاملات میں مسلم لیگ قابل قدر اخلاقی نمونہ پیش نہیں کر سکی۔ دستور سازی میں رکاوٹ پیش آئی، زرعی اصلاحات نہیں ہوسکیں اور وفاق کی اکائیوں میں قابل عمل توازن قائم نہیں کیا جا سکا۔ ایسے مخدوش سیاسی بندوبست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستی اداروں نے اقتدار پہ قبضہ کر لیا۔ پاکستان میں حق فیصلہ سازی پہ غیر منتخب اداروں کی بالادستی کو عین انہی طبقات نے سہارا دیا جو جائیداد، خاندان، قبیلے، عقیدے اور لسانی شناخت وغیرہ کی بنیاد پر سیاسی اور معاشی اجارہ مانگتے تھے۔ 1970کے انتخابات کے بعد انتقال اقتدار میں بنیادی رکاوٹ یہی تھی کہ غیر منتخب قوتوں اور پیوستہ اشرافیہ کو پاکستان میں جمہوریت کا امکان نظر آ رہا تھا۔ جنوری 1982میں ضیاءالحق نے ایک مجلس شوری بنائی تھی، کبھی اس کے ارکان کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ 1985کے انتخابات غیر جماعتی بنیاد پہ منعقد ہوئے۔ اگر جماعتی سیاست ہی قبول نہیں تو انتخابات میں کسی سیاسی نصب العین کی بجائے ذاتی اثرورسوخ کی بنیاد پر حصہ لیا جائے گا اور اس کا مقصد ذاتی اقتدار کو قائم رکھنا ہو گا۔ ہم گزشتہ تین دہائیوں سے 1985ء کے انتخابات کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ اس میں کسی سیاسی جماعت کا دامن صاف نہیں۔ اس دوران صرف دو عوامل اہل پاکستان کے حق میں گئے ہیں۔ مٹھی بھر سیاست دانوں، سیاسی کارکنوں اور صحافیوں نے جمہوری نصب العین کا پرچم گرنے نہیں دیا۔ دوسرا نکتہ یہ کہ پیوستہ معاشی مفادات اور غیر منتخب ریاستی اداروں کے گٹھ جوڑ نے جو قومی بیانیہ مرتب کیا ہے وہ ناگزیر طور پہ ناقابل عمل ثابت ہوا ہے۔ بے نظیر اور نواز شریف کی ہیئت مقتدرہ سے چپقلش کسی ذاتی افتاد طبع کے باعث نہیں تھی اس سیاسی نمونے میں تو محمد خان جونیجو اور ظفر اللہ جمالی جیسے مرنجاں مرنج سیاست دان بھی نہیں چل سکے۔

جمہوری قوتوں پر ملک دشمنی اور قومی مفاد سے بے گانگی کا الزام لگایا جاتا ہے، سہروردی سیاست دان تھا، دسمبر 1963میں بیروت کے ہوٹل میں مارا گیا کیونکہ وطن واپس آنا چاہتا تھا، بے نظیر بھٹو وطن لوٹتی ہیں اور شہید کر دی جاتی ہیں، نواز شریف وطن آتے ہیں تو ڈنڈا ڈولی کر کے واپس بھیجا جاتا ہے۔

کبھی کسی سلائیڈ پر لکیریں کھینچ کے ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ ملک عزیز میں جمہوریت کی جڑیں کھودنے والے کہاں کہاں مقیم ہیں اور وطن واپسی کے لیے کیا ضمانتیں مانگتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا، حقوق کی لڑائی ضمانت لے کر نہیں لڑی جاتی۔ یہ سب باتیں آئندہ چند ہفتوں کا بنیادی قضیہ ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے الیکٹ ایبلز کا ایک ہجوم جمع کر لیا ہے، کیا شرمناک مکالمہ جاری ہے۔ ہم نے دھرنے میں کھانا کھلایا، ہمیں ٹکٹ نہیں ملا۔ ہمارے بیٹے کو ٹکٹ نہیں ملا تو ہم جا رہے ہیں۔ عبدالولی خان برسوں قید رہے، 1988ء کا انتخاب ہار گئے، کسی نے پوچھا ’’خان صاحب آپ جیسی قامت کا سیاستدان انتخاب کیوں ہارا؟‘‘فرمایا اس لیے کہ میرے حریف کو زیادہ ووٹ ملے۔ عبدالولی خان سیاست دان تھا، الیکٹ ایبل نہیں تھا۔ غیر جمہوری قوتیں موروثی سیاست کا طعنہ دیتی ہیں لیکن جانتی ہیں کہ موروثی سیاست دان ان کا حقیقی اتحادی ہے۔ انہیں خطرہ اس سیاست دان سے ہے جو سیاست کو قومی امانت سمجھتا ہے۔ دیکھئے پچیس جولائی کے انتخابات میں اہل پاکستان کیا فیصلہ کرتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).