ایک واویلا کرنے والی قوم



عین ممکن ہے کہ آپ واقعی منتظر ہوں کہ پاکستانی قوم کے مجموعی رویے اور نفسیات کے بارے میں جو کتاب شاید میں نہیں لکھوں گا لیکن میرے زرخیز ذہن نے اس کا عنوان مجھے سجھا دیا ہے یعنی ’’واویلا کرنے والی قوم‘‘ تو اس کے مختلف ابواب میں میں کون کون سے واویلے درج کروں گا یاد رہے کہ میں ہندوستانی اور بعد ازاں برطانوی مصنف نراد سی چودھری کی کتاب ’’کانٹینٹ آف سرکے‘‘ (The Continent of Circe) کی پیروی نہیں کروں گا۔ نراد سی چودھری نے مجموعی طور پر ہندوستانیوں اور خصوصی طور پر ہندوئوں کی ذہنیت کے پرخچے اڑا دیے تھے۔ میں اتنا بیوقوف نہیں ہوں کہ بیلوں کو دعوت عام دوں کہ آئیے اور مجھے ماریے۔ میں قدرے منافقت سے کام لوں گا کہ عافیت اسی میں ہے۔ بہرحال ہم لوگ ہمہ وقت شکائتیں کرتے رہتے ہیں۔ شکائتی ٹٹو ہو چکے ہیں (اور ٹٹو بیلوں کی مانند آپ کو نہیں مارتے سینگوں پر نہیں اٹھا لیتے کہ ان کے سینگ نہیں ہوتے) مختلف واویلے کرتے رہتے ہیں تو ان میں مرغوب ترین واویلے یہ ہیں کہ ہائے ہائے جو خوراکیں اصلی اور دیسی ہم نے کھائی ہیں وہ نئی نسل کے نصیب میں کہاں۔ اب تو خوراکوں میں ذائقے ہی نہیں رہے کہاں دیسی مرغی اور کہاں یہ برائلر مرغی ہائے ہائے وہ زمانے نہ رہے۔

چونکہ میں ذاتی طور پر اسیّ کے پیٹے میں ایک عدد مخبوط الحواس بوڑھا ہوں تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ان دنوں تو اچھے بھلے آسودہ گھروں میں بھی گوشت کبھی کبھار پکتا تھا۔ مرغی تو بیمار ہوتی تو ہانڈی چڑھتی یا بندہ بیمار ہوا تو شہر میں ڈھنڈیا پٹی کہ کہیں سے ایک مرغی تلاش کر کے لائو۔ انڈے بھی کم کم دستیاب ہوتے تھے۔ شہر لاہور کے بیشتر باشندے آئس کریم کے ذائقے سے ناآشنا تھے قدرے متمول گھروں میں کبھی کبھار پورا خاندان’’آئس کریم مشین‘‘ کا گھیرائو کرلیتا تھا۔ دودھ کو اس مشین کے آہنی سیلنڈر میں انڈیل کر سیلنڈر کے گرد برف اور نمک بھر کر باری باری خاندان کا ہر فرد اس مشین کی ہتھی کو گھما گھما کر نڈھال ہو جاتا تھا پورا صحن پانی سے بھر جاتا تھا اور پھر پورے دن کی کاوش کے بعد وہ دودھ کسی حد تک جس میں چینی کی آمیزش ہوتی تھی منجمد ہو کر آئس کریم کی شکل اختیار کر جاتا تھا۔ ہر ایک کے حصے میں زیادہ سے زیادہ دو چار چمچے آئس کریم آتی تھی اور وہ بھی فوراً پگھلنے لگتی تھی اور واقعی اس کا ذائقہ بہشتی ہوا کرتا تھا۔

آئندہ دنوں میں دوستوں اور رشتے داروں کو فخر سے بتایا جاتا تھا کہ ہم وہ ہیں جنہوں نے آئس کریم چکھی تھی اور اب صورت حال یہ ہے کہ ہمارے فریج نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی آئس کریموں سے بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن میری عمر کے بوڑھے واویلا کرتے ہیں کہ ان میں وہ ذائقہ نہیں جو برگد کے پتے پر رکھے ہوئے قلفے میں ہوا کرتا تھا تو میں ان بابا جان سے عرض کرتا ہوں کہ حضور تب قلت تھی۔ آپ نوجوان تھے اور آپ کے ذہن میں ذائقے کے جو خلیے تھے وہ نوخیز تھے۔ تب زہر بھی ذائقہ دار لگتا تھا اور اب وہ خلیے آپ کے دیگر اعضائے رئیسہ کو مانند مردہ ہو چکے ہیں۔ آپ سوئٹزر لینڈ سے درآمد کردہ دنیا کی بہترین آئس کریم کے پورے کارٹن کھا لیں وہ بھی بھوسے کے ذائقے ایسے ہوں گے۔ جیسے جوانی میں کسی مٹیار کی اونچی شلوار میں سے ٹخنہ دکھائی دے جاتا تھا تو بدن بخار سے پھنکنے لگتا تھا اور اب وہی بدن تقریباً مردہ پڑا رہتا ہے چاہے وہ نیکر پہن کر ’’چٹیاں کلائیاں وے‘‘ گاتی پھرے اور اپنے آپ کو مٹکاتی پھرے۔

ایک اور واویلا بہت ہی مقبول ہے کہ ہمارے زمانے میں جو پڑھائیاں تھیں وہ اب کہاں اور وہ ماسٹر کہاں جو علم کی دولت بانٹتے تھے اور ہمیشہ شفقت سے پیش آتے تھے۔ یقین کیجئے کوئی پڑھائیاں وغیرہ نہیں تھیں با مشکل پاس ہوتے تھے۔ علامہ حضرات اکثر نقل کا سہارا لیتے تھے۔ بے شک مجھے اب بھی ماسٹر نادر خان، ماسٹر رحمت خان، فیض الرحمن، شفیق صاحب، ڈرائنگ ماسٹر اسلم صاحب اور ہیڈ ماسٹر عزیز صاحب بہت یاد آتے ہیں۔ سب کے سب شفیق نہ تھے اکثر ہمیں زدوکوب کرتے تھے اور ماسٹر دین محمد تو یوں بھی قصائی کہلاتے تھے اور کیا عرض کروں کہ کچھ تو بہت ہی نالائق اور خونخوار قسم کے ماسٹر ہوا کرتے تھے بلکہ ان میں سے کم از کم ایک ایسے تھے کہ شکل کے اچھے لڑکے…بس آپ تھوڑے لکھے کو بہت سمجھئے۔

اور ہاں یاد رہے کہ ہیڈ ماسٹر عزیز صاحب کے فرزند ڈاکٹر محبوب الحق ہم سے اگلی کلاس میں ہوا کرتے تھے اور مولانا مودودی کے بیٹے عمر فاروق مودودی میرے ہم جماعت ہوا کرتے تھے جو بزم ادب کی صدارت کے الیکشن میں مجھ سے ہار گئے تھے تو میں نے اس تاریخی الیکشن کے بارے میں بہت عرصہ پہلے ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ’’جب تارڑ نے مودودی کو الیکشن میں ہرا دیا‘‘ اور جہاں تک پڑھائیوں کا معاملہ ہے تو آپ کو یقین کرنا ہو گا کہ ان زمانوں میں بچے جس طور سنجیدگی سے کمر توڑ پڑھائیاں کرتے ہیں ہم تو نہ کرتے تھے۔ تب اتنا مقابلہ سخت نہ تھا جتنا آج ہے۔ میٹرک کے امتحان میں اگرچہ سکول میں میری کچھ پوزیشن وغیرہ بھی آ گئی لیکن فرسٹ ڈویژن پانچ نمبر سے رہ گئی۔ ابا جی کو بتائے بغیر اپنے دیگر دوستوں، خاور زمان اور نوازش کے ہمراہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پرنسپل صاحب کے آفس میں انٹرویو کے لیے پیش ہوئے اور انگریزی یوں دھاڑ دھاڑ اور بے دریغ بولی کہ داخلہ مل گیا۔

چونکہ مال روڈ پر لکشمی منشن میں رہتے تھے اور پارسیوں اور کرنٹوں یعنی عیسائی لڑکوں سے یاریاں تھیں۔ ہفتے میں کم از کم چھ انگریزی فلمیں دیکھتے تھے تو انگریزی کائو بوائے لہجے میں منہ بگاڑ کر بولتے تھے چنانچہ آسانی سے راوین ہو گئے اور ان دنوں بچے پڑھ پڑھ کر ہلکان ہو جاتے ہیں‘ بے شمار نمبر لیتے ہیں پھر بھی گورنمنٹ کالج میں داخلہ نہیں ملتا۔ میں نے اپنے دوستوں اور اپنے بچوں کو بھی دن رات پڑھائی میں مگن دیکھا ہے ایسی پڑھائیاں ہم نے تو نہ کی تھیں۔

واویلا کرنے والی ہماری یہ قوم ایک اور واویلا کرتی ہے کہ نئی نسل اپنے بزرگوں کا احترام نہیں کرتی جیسے ہم اپنے بزرگوں کے سامنے دم نہیں مارتے تھے تو حضور آپ کی تربیت میں کچھ فرق ہے ورنہ میرا مشاہدہ ہے کہ ایک دوست بہت علیل ہو گئے۔ آپریشن پہ آپریشن ہونے لگے اور جب بے ہوشی سے باہر آئے تو ان کے بستر کے گرد ان کے سب بیٹے اور بیٹیاں کھڑے تھے اور وہ سب امریکہ اور یورپ میں اپنے کاروبار اور ملازمتیں ترک کر کے ابا جی کے پاس اڑتے ہوئے پہنچے تھے۔ ہم شائد اپنے بزرگوں کے سامنے دم اس لیے بھی نہ مارتے تھے کہ ہمارے اکثر بزرگ نہائت شقی القلب ہوا کرتے تھے۔اولاد کو باقاعدہ پھینٹی لگانا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے بلکہ برخوردار کو سکول میں داخل کرواتے ہوئے ماسٹر سے کہا کرتے تھے کہ اس نالائق کو مار مار کر ادھ موا کر دیجیے بے شک۔ گوشت آپ کا اور ہڈیاں ہماری۔ نہائت دہشت گرد بزرگ ہوا کرتے تھے۔ بلکہ نہائت فخر سے کہا جاتا تھا کہ ہم تو اپنی اولاد کو سونے کا نوالہ کھلاتے ہیں اور شیر کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ وہ اپنے برخوردار کو سونے کا نوالہ کھلاتے ہوئے جب شیر کی آنکھ سے گھورتے ہوں تو کیا برخوردار کا پیشاب خطا نہ ہو جائے گا۔ عجیب بزرگ تھے۔

ماڈل ٹائون میں میرے جیسے بہت سے زائد المیعاد بابا جات باقاعدگی سے آتے ہیں اور ان میں سے چند ایک کتنے ٹھرکی ہیں میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایک صاحب نوے برس کی عمر میں ہمیں داغ مفارقت دے چکے ہیں پارک میں سیر کرنے والی ادھیڑ عمر خواتین کی پوری وارڈ روب سے آگاہ تھے۔ یعنی کسی خاتون کو دیکھ کر، اور وہ اسی برس کے پار جا چکے ہیں، کومنٹ کرتے تھے کہ اس خاتون نے آج جو لباس زیب تن کیا ہے اس کے ساتھ اگر یہ وہ دھاریدار دوپٹہ اوڑھ لیتی جو اس نے پچھلے ماہ کی فلاں تاریخ کو اوڑھا تھا تو لطف آ جاتا۔ ایک آدھ مرتبہ انہوں نے پارک میں سیر کرنے والی ان کی پوتی کی عمر کی لڑکی کو روک کر اس کی لپ سٹک کے رنگ پر سرزنش کی اور جب مجھے خبر ہوئی تو میں نے انہیں کیسے ڈانٹا اور بے عزت کیا یہ پورا ماڈل ٹائون پارک جانتا ہے اور یہی بزرگ اکثر واویلا کرتے تھے کہ ہائے ہائے کیا زمانے آ گئے ہیں نئی نسل اخلاقیات سے عاری ہو چکی ہے۔ ہم سیر کرنے کے بعد پارک سے نکلتے ہیں تو ’’فلائٹیں‘‘ آنی شروع ہو جاتی ہیں ’’طالب علم جوڑے منہ جوڑے چلے آتے ہیں۔ ہائے ہائے کیا زمانے آ گئے ہیں۔ میں وہ بوڑھا شخص ہوں جس کا ایمان ہے کہ رب کعبہ کی مخلوق تب زوال پذیر ہو گی جب قیامت قربت میں ہو گی اور ابھی قیامت بہت دور ہے۔ لیکن تب تک نسل انسانی کا ارتقا مسلسل ہوتا چلا جائے گا آپ کی نسلیں آپ سے بہتر اور افضل ہوتی چلی جائیں گی البتہ آپ نہ اعتراف کریں گے اور نہ دیکھیں گے کہ آپ ایک واویلا کرنے والی قوم ہیں۔ یعنی اندھے ہو چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar