صرف 42 برس اور سات مہینے


انیس سو بارہ سے انیس سو پچپن کا زمانہ، مجھے بہت پسند ہے۔ اس زمانے میں ایک ایسا انسان ہندوستان کی سر زمین پر تھا، جس نے سوچ اور فکر کا نیا اور انوکھا انداز متعارف کرایا۔ اس انسان کے بارے میں سمجھ نہیں آتا کہ کیسے اور کس طرح بات کی جائے۔ کیسے اس انسان کی کہانی بیان کی جائے۔ کہاں سے اس کے بارے میں بات کی جائے۔ اس لیے کبھی موقع ملے تو انیس سو بارہ سے انیس سو پچپن تک کے زمانے میں اس انسان کی کہانی کو دیکھنے، سوچنے اور سمجھنے کی کوشش ضرور کیجئے گا۔

بچہ تھا تو باغی تھا، جسے ہندوستان کے تعلیمی نظام سے شدید نفرت تھی، رسمی تعلیم اسے زہر لگتی تھی، میٹرک میں فیل ہو گیا، لیکن انگریزی، فرانسیسی اور روسی ادب کا رسیا تھا۔ وہ جو ہر وقت چلتا پھرتا رہتا تھا۔ پڑھتا لکھتا رہتا تھا۔ وہ جو بک اسٹالز سے کتابیں چوری کرکے پڑھتا تھا۔ اسے رسمی تعلیم سخت ناپسند تھی، لیکن کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا جنون تھا۔ وہ جس نے میکسم گورکی، چیخوف، وکٹر ہیوگو اور آسکر وائلڈ جیسے ادیبوں کو ایسے پڑھا جیسے پڑھنے کا حق ہوتا ہے۔ ان عظیم ادیبوں کی کتابوں کو اردو ادب میں ڈھالا۔ کمال کا انسان تھا۔ ان تمام ادیبوں کو پڑھا اور سوچا یہ کمال تو وہ بھی کرسکتا ہے۔ اس سے اچھا وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔ پھر اس نے لکھنا شروع کردیا۔

انیس سال کی عمر میں انیس سو اکتیس میں، اس نے جلیاں والہ باغ واقعے کے پس منظر میں پہلی کہانی لکھی۔معلوم نہیں اسے مرنے کی کیوں جلدی تھی، اس لیے وہ جلدی جلدی بہت  کچھ لکھتا چلا گیا۔ چوبیس سال کے عرصے میں کہانیوں کے بائیس، ریڈیو ڈراموں کے پانچ، مضامین کے تین، اور شخصی خاکوں کے دو مجموعے لکھ ڈالے۔ ایک ناول اور آٹھ فلمیں بھی تحریر کیں۔ چار پانچ نوکریاں بھی کیں، ان چوبیس سالوں میں اس پر یہ بھی الزام لگا کہ وہ ایک فحش نگار اور گھٹیا ادیب ہے۔ اس لیے اس پر نصف درجن سے زائد مقدمے چلے۔

کہا جاتا ہے کہ وہ ترقی پسند تھا، لیکن ترقی پسند اور غیر ترقی پسند سب اس سے تنگ تھے۔ سب کہتے تھے یہ بے ہودہ انسان ہے۔ یہ فحش نگار ہے۔ وہ رج کے شراب بھی پیتا تھا۔ سب کام کاج کرکے وہ صرف تنتالیس سال کی عمر میں مر گیا۔ انیس سو بارہ سے انیس سو پچپن کا زمانہ ویسے تنتالیس سالوں پر محیط ہے۔ یہ 43 سال کا عرصہ مجھے بہت دل کش لگتا ہے۔ کسی نے اسکرین پر اس عرصے کو دیکھنا ہے تو وہ دیکھ سکتا ہے، کیوں کہ معروف اداکار نوازالدین صدیقی کے روپ میں وہ شخص دوبارہ تین گھنٹے کے لیے آرہا ہے۔

اصل میں وہ کیا تھا؟ کیا وہ ایک فحش نگار تھا؟ کیا وہ ایک بے رحم کہانی کار تھا؟ کیا وہ حقیقت پسند تھا؟ یا ایک انارکسٹ تھا؟ یہ سب کچھ جاننا ہے تو بالی وڈ کی ایک فلم آرہی ہے، جس میں نواز الدین صدیقی وہی انسان بنا ہوا ہے، جس کا میں ذکر کررہا ہوں۔ ضرور دیکھیئے گا۔ میری تمام پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ وہ فلم ضرور دیکھیں۔

اس نے ادب کی ایسی دنیا پیدا کی، جس نے انیس سو بارہ میں ان کے ساتھ جنم لیا۔ انیس سو پچپن میں وہ ادب کی دنیا اسی کے ساتھ انتقال کرگئی۔ اردو فکشن کی دنیا میں وہ بریکنگ نیوز تھا۔ کیا کمال انسان تھا وہ جو منافق دنیا میں ان سے پیار، محبت اور ہم دردی کرتا تھا، جن سے ساری دنیا نفرت کرتی تھی۔ دنیا جن کو گھٹیا، رذیل کہتی تھی، وہ ان کو عظیم اور حقیقی کہتا تھا۔ دنیا جن کو برا کہہ کر دھتکارتی تھی، وہ ان کو گلے سے لگاتا تھا۔ اس نے منافق دنیا میں برے لوگوں سے ہی محبت کی، وہ جنھیں دنیا برا کہتی تھی۔ وہ ہمیشہ برے لوگوں ہی میں انسانیت تلاش کرتا تھا۔ یہ سب کچھ آپ مجسم شکل میں دیکھ سکتے ہیں، بس نواز الدین صدیقی کی نئی فلم آنے والی ہے۔ اس فلم کو ضرور دیکھنا ہے۔

وہ  جنھیں دنیا زاہد و عابد کہتی ہے، وہ اشرافیہ جن کے پیچھے دنیا بھاگ کر جاتی ہے، اس اشرافیہ کے جو معیار تھے، ان معیار کو نواز الدین صدیقی نے خوب رگیدا ہے۔ جو کام وہ کر گیا ایسا کام آج تک کوئی ادیب نہیں کرسکا اور نہ ہی کبھی کوئی اور ادیب کرسکتا ہے۔ کیوں کہ آج کے ادیب بھی تو بزدل اور کم زور ہیں، لیکن وہ کٹر قسم کا بہادر ادیب تھا۔

اردو فکشن میں اگر کوئی ادیب حقیقی باغی کہلانے کے قابل ہے تو وہ تھا۔ وہ مفکر بھی تھا۔ وہ شرابی بھی تھا۔ وہ باغی بھی تھا۔ اردو ادب میں ایسا  کوئی آیا ہے، نہ آئے گا۔ لیکن نوازالدین صدیقی اس کا روپ لے کر اسکرین پر آرہا ہے۔

وہ واحد افسانہ نویس تھا، جس نے اردو زبان کو عالمی ادب کے درجے پر لا کے کھڑا کردیا۔ آج دنیا کے مختلف ممالک کی پندرہ زبانوں میں اس انسان پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی جا چکی ہے۔ انگریزی زبان میں اس پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ پاکستان میں اس پر ایک فلم بن چکی ہے، جس میں سرمد کھوسٹ وہ انسان بنا تھا۔ وہ فلم بھی اچھی تھی، لیکن اب نواز وہ روپ لے کر آرہا ہے۔ نواز حقیقت میں وہ ادیب بن کر آرہا ہے۔ اس کو انیس سو بارہ سے انیس سو پچپن تک بھی نہیں سمجھا گیا اور بدقسمتی سے آج بھی اسے گالیاں پڑتی ہیں۔ آج بھی بہت سے لوگ اسے فحش نگار کہتے ہیں۔ وہ ناگزیر ترقی پسند تھا لیکن ترقی پسند تحریک کا حصہ نہ تھا۔ اس نے کہا تھا ترقی پسندوں میں بھی کچھ انسان منافق ہوتے ہیں۔ اس لیے ترقی پسند تحریک والے بھی اسے منہ نہیں لگاتے تھے۔ اور وہ بھی ترقی پسندوں کو گھاس نہیں ڈالتا تھا۔

زمانے کی کرواہٹوں اور نفرتوں نے اسے مار دیا۔ کہتے ہیں وہ بہت شراب پیتا تھا۔ جس سے اس کا جگر ختم ہوگیا۔ اس لیے وہ مرگیا لیکن وہ شراب کی وجہ سے نہیں مرا اس کو ہم سب نے مل کر مارا ہے۔ ہم سب اس کے قاتل ہیں۔ اسے دھتکارا گیا اس سے نفرت کی گئی اس لیے اس نے شراب کی دنیا میں جا کر پناہ لی اور مرگیا۔شراب نے نہیں، اسے انھوں نے مارا جو اسے فحش نگار کہتے تھے۔ وہ جنھوں نے اسے ہمیشہ عذاب میں مبتلا کیے رکھا۔ وہ جنھوں نے اس پر مقدمات کیے۔

ایک خط میں اس نے اپنی ایک دوست عصمت چغتائی کو لکھا کہ پاکستان کی سرزمین پر اس کا دم گھٹ رہا ہے۔ وہ مررہا ہے۔ خدا را اسے واپس بلوایا جائے۔ اس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ جنسی اشاروں کا استعمال کرتا ہے۔ رسالوں میں ایڈیٹرز نے اس کی کہانیاں شایع کرنے سے انکار کردیا۔ وہ مظلوم کا ساتھی تھا۔ وہ مفلسوں اور غریبوں کا ساتھی تھا۔ وہ ان کے ساتھ رہتا تھا جن سے دنیا بھاگتی تھی۔ وہ مختلف، منفرد اور عجیب کردار تھا۔

وہ نام نہاد وضع داروں کے سماج پر قہقہے لگاتا تھا۔ وہ  شریفوں اور رواداروں کے منکرات پر طنز کرتا تھا۔ اس لیے وضع دار اس پر مقدمات کرتے تھے۔ اس کا دانا پانی بند کردیتے تھے، تو وہ ڈرتا نہیں تھا۔ پھر شراب کو تھام کر کہتا تھا جھوٹے سماج پر لعنت، منافق مزاج پر لعنت، منافق سماج پر لعنت۔

جہاں انسانیت کی تقسیم کا درس دیا جاتا، وہ ان کے سامنے آ جاتا اور کہتا تم سب نفسیاتی مریض ہو۔ وہ کسی قسم کی تقسیم کا قائل نہ تھا۔ صرف انسان تھا وہ شخص۔ شاید اسی وجہ سے روادار اور زاہد و عابد اس سے نفرت کرتے تھے۔ برائی میں انسانیت ڈھونڈنے کا مرض اسے لاحق تھا۔ شاید اسی لیے وہ مرگیا۔ اب وہ دوبارہ کچھ لمحات کے لیے نوازالدین صدیقی کے روپ میں آرہا ہے۔ میری تمام پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ وہ اسے  ایک بار ضرور دیکھیں۔ باقی آپ کی مرضی.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).