نظام عدل کی تبدیلی میں پی ٹی آئی کی قابل تقلید قانون سازی


کوڈ آف سول پروسیجر پاکستان کا قانون ہے جو سلطنت برطانیہ نے متحدہ ہندوستان میں دیوانی مقدموں کو نمٹانے کے لئے 1908 بنایا تھا۔ اس قانون کو اب بھی پاکستان،   بنگلہ دیش اور ہندوستان میں ایک ممتاز حثییت حاصل ہے۔

1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد سے لے کر اب تک پاکستان میں نہ تو اس قانون کا کوئی متبادل سامنے ایا اور نہ ہی اس کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی پر کبھی بحث ہوا۔ آٹھارویں ترمیم سے پہلے دیوانی اور فوجداری مقدمات کا مکمل کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہوا کرتا تھا۔ لیکن 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد دیوانی مقدمات کا کنٹرول صوبوں کو دے دیا گیا جبکہ فوجداری مقدمات ابھی تک وفاق کے زیر کنٹرول ہیں۔

پکستان میں 1947 سے لے کر 2017 تک کسی بھی صوبائی یا وفاقی حکومت نے اس قانون کو تبدیل کرنے کے بارے سنجیدگی سے کام نہیں لیا۔ تحریک انصاف نے 2013 کے الیکشن میں کامیابی کے بعد خیبر پختونخواہ میں اس قانون کی تبدیلی پر  سنجیدگی سے کام شروع کیا اور تمام سٹیک ہولڈرز بشمول پشاور ہائی کورٹ کے ججز، وکلاء کمیونٹی اور قانون سازوں کو اعتماد میں لے کر اس پر قانون سازی شروع کی۔

تحریک انصاف چونکہ انصاف کا نعرہ لے کر میدان میں اتری تھی تو لہذہ فوری عدالتوں پر بوجھ کام کرنے کی عرض سے یونین کونسلز کی سطح پر مصالحتی کونسلز ( ڈی آر سیز) کا قیام 2014 میں عمل میں لایا گیا۔ پختونخوا پولیس کے زیر انتظام اس متبادل نظام انصاف سے صرف 2017 میں تقریباً 10386 کیسز وصولکیے گئے جس میں سے 7179 کیسز خوش اسلوبی سے فریقین کی باہمی رضامندی سے حلکیے گئے جبکہ 1465 کیسز کو عدلتی نظام میں لیجانے کا مشورہ دیا گیا۔ بقایا 1742کیسز کو 2017 کے اختتام پر مکمل کیا گیا۔

ڈی آر سیز کے نظام کے ساتھ ساتھ دیوانی قانون1908 کی تبدیلی پر بھی کام جاری تھا اور بالآخر16 جنوری 2018 کو خیبر پختونخواہ کی اسمبلی نے اس قانون میں تبدیلی کر کے انصاف کی جانب اپنے سفر کو رواں دواں رکھا۔ ڈان اخبار نے 22 جنوری 2018 کو اپنے ایڈیٹوریل میں اس تاریخی قانون کو پولیس ریفارمز کے بعد ایک عظیم سنگ میل قرار دیا اور لکھا کہ ” انصاف کی دیر سے فراہمی مدعہ علیہ( Defendant) کے لئے فائدہ مند تو ثابت ہوتی ہیں لیکن انصاف کی فراہمی کی یہ اصل دشمن ہیں ”

اس قانون کی تبدیلی کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں۔
1۔ تمام مقدمات کے بروقت تکمیل کے لیے عدلیہ کے زیر انتظام ایک نظام ( کیس منجمینٹ سسٹم) مرتب کیا جائےگا جس سے مقدمات کی غیر ضروری تاخیر کو دور کیا جائے گا۔
2۔ اس قانونی تبدیلی سے اب عدالت ہر مقدمے کی سماعت 60 دنوں میں پورا کرے گی۔

3۔ اس قانون کے تحت اب تفتیش بھی 60 دن کے سماعت کے ساتھ ساتھ پوری ہوگی۔ اور تفتیش کے لئے 30 دن کا وقت مقرر کیا جائے گا۔
4۔ مقدمے کی سماعت 7 دن کے اندر اندر شروع کی جائے گی اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت سے مقدمے کو 1 سال کے اندر اندر حل کرنا ہوگا۔
5۔ جو درخواست گزار یا کوئی بھی مقدمے کا سٹیک ہولڈر مقدمے کو طول دیگا تو اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا

6۔ مقدمے کا فیصلہ سال کے اندر اندر کسی بھی وقت متعلقہ جج کر سکتا ہے۔
7۔ اپیل کورٹ میں مقدمہ جانے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ 15 دنوں میں اپیل نمٹائی جائے گی۔
8۔ اس قانون کے تحت اب تمام متفرقہ درخواستیں 60 دن کے اندر اندر نمٹائی جائیں گی۔

پاکستان میں پانامہ کیس کے بعد نواز شریف مسلسل ” نظام عدل“  کی بات کر رہے ہیں نواز شریف ایک دفعہ پنجاب کا وزیراعلی رہ چکا جبکہ تین دفعہ پاکستان کا وزیر اعظم رہ چکا ہے لیکن اس نظام عدل کو نواز شریف نے کبھی بھی ٹھیک کرنے کی نیت نہیں کی۔

بنگلہ دیش نے بھی اس قانون کے بنیادی ڈھانچے میں  2017 میں تبدیلیاں کر کے فوری انصاف کی راہ ہموار کر دی ہیں اوربھارت 2002 میں اس قانون کو بہت حد تک تبدیل کر چکا ہے۔ جبکہ پاکستان میں پہلی بار ایک صوبے پر حکومت کرنے والی تحریک انصاف نے اپنے پہلے ہی حکومت میں کام ازکم ایک راہ کا تعین کر دیا ہیں جو وفاق اور باقی صوبوں کے لئے قابل تقلید ہیں۔

صرف یہ ہی نہیں بلکہ صوبے خیبر پختونخواہ نے وفاق کو معتدد بار فوجداری مقدمات کی جلد حل کے لئے سفارشت بھی بجھوائی تھی جو نیشنل ایکشن پلان کے فورم پر پرویز خٹک نے پیش کی لیکن نواز شریف نے کبھی بھی ان سفارشات پر عمل کے لئے سنجیدگی ظاہر نہیں کی۔

پنجاب پاکستان کے ابادی کے لحاظ 70فیصد علاقہ بنتا ہے۔ اگر صرف پنجاب میں ہی اس قانون کو تبدیل کر دیا جائے اور اس کےلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائے تو اس سے ایک عام آدمی کو انتہائی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
لیکن اس قانون میں تبدیلی صرف وہ لا سکتا ہے جو اس سسٹم کا بنیفیشری نہ ہو۔ جو صرف ووٹ اور اگلے الیکشن کا نہ سوچتا ہو بلکہ وہ اگلے نسل کا سوچتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).