کشن گنگا ڈیم


ہمارے حکمرانوں میں وہ طاقت کہاں کے ہندوستان سے اپنا حق لے سکیں۔اقتدار کے نشے میں چور ہمارے سیاست دان ملک کی فکر کیا کریں گے انھیں تو اپنی کرسی کی فکر لازم ہوجاتی ہے۔بھارت کے پاس پاکستان پر سب سے بڑا وار کرنے کے لیے پانی کی دھمکی کے سواکچھ نہیں۔ آپ نے میٹرو بسیس بنائی آپ نے اورنج ٹرنیں بناڈالی یہ بھی ملک کی ترقی کے لیے ضروری تھا لیکن جو ضرورت پاکستان کی عوام کو تھی اسے آپ پورا نہ کرسکے اور آنے والے ادوار میں بھی ہمارے ان عظیم حکمرانوں سے کوئی خاطر خواہ امید بھی نہیں۔

بھارت کی آبی جارحیت جاری ہے اورہم کالا باغ ڈیم پر لڑ رہے ہیں کالا باغ ڈیم پر اب تک اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ اگر اُن کاغذوں کو جمع کیا جائے تو ایک ڈیم تیار ہوسکتا ہے۔سندہ طاس منصوبہ کے مطابق بھارت اس بات کا پابند ہے کہ وہ پاکستان کا پانی نہیں روک سکتا  یا وہاں ڈیم نہیں بنا سکتا جہان پاکستان کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔2005میں لائن اف کنٹرول کے بہت قریب ایک بجلی گھر بنانے کا اعلان بھارت کی طرف سے کیا گیا اسے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کہتے ہیں کشن گنگا چونکہ جہلم کا معاون دریا ہے اس لئے اس کے پانی پر پاکستان کا حق ہے۔
اس منصوبے کی تعمیر پر انڈیا نے تقریبا چھ ہزار کروڑ روپے خرچ کئے۔یہ منصوبہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیرکی گریز وادی سے وادی کشمیر میں بانڈی پورہ تک پھیلا ہوا ہے۔پاکستان کا موقف ہے کہ اس پراجیکٹ سے دونوں ہی شرائط کی خلاف ورزی ہوتی ہے نیلم میں پانی بھی کم ہوگا اور کشن گنگا کا راستہ بھی بدلا جائے گا۔وہ خود اسی دریا پر ایک بجلی گھر بنارہا ہے جسے نیلم جہلم ہائڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کہتے ہیں۔توقع کے عین مطابق عالمی بنک نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کی شکایات اور شواہد کو ناکافی قرار دے کر مسترد کردیا۔
یہ بھارت کی پاکستان سے سفارتی محاز پر ایک بڑی شکست تھی۔کشن گنگا ڈیم کی تعمیر2009 میں شروع ہوئی جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور ن لیگ مضبوط اپوزیشن تھی۔2011کے بعد دو سال تک یہ کیس عالمی عدالت میں چلتا رہا لیکن بالآخر عالمی ثالثی عدالت نے نہ صرف پاکستان کے اعتراضات مسترد کر دیے بلکہ بھارت کو پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی۔
 پاکستان کی معاشی حالت ملک کے اند دہشت گردی کے خلاف جنگ نے معاملے کو وہی دبا دیا۔ مودی سرکا نے ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نا جانے دیا جس سے وہ پاکستان پر دباو بڑھا سکے۔ ظاہر ہے یہی ایک طریقہ ہے کہ بی جے پی سرکا بھارت میں اپنے  ووٹ بنک کو مضبوط کرسکے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتی بھارت سرکار روزِ اول سے اپنے مزموم عزائم کو کامیاب بنانے کے لیے کوشش کررہی ہے۔ اب
بھی یہ کوشش جاری ہے۔سوال یہ پیداہوتا ہے اس ساری صورتحال کے بعدخطے میں کیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔اگر بھارت ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ بھارت کی طرف سے جنگ کا عندیہ ہے اور دو نیوکلیئر پاورز کا اس طرح سے آمنے سامنے آناکسی خطرے سے کم نہیں۔کرشن گنگا ڈیم میں پہلے پانی کی اسٹوریج98 فیصد رکھی تھی عالمی دباو کے پیشِ نطر اس اسٹوریج کو37 فیصد کر دیا گیا اب اس میں کتنی سچائی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
کشن گنگا ڈیم اب مکمل ہو چکا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان پر اس کے براہ راست اثرات مرتب ہونگے پاکستان ایک ایگری کلچرملک ہے اور بہت بڑی تعداد میں پانی کو روکنے سے ایک بہت بڑی تباہی کا سامنا کرناپڑ سکتا ہے لیکن بھارت نے پھر بھی  پوری ڈھٹائی کے ساتھ اس ڈیم کا افتتاح کیا ساتھ ہی اس ڈیم کا ڈیزائن ولڈ بنک کو تو دیا گیا لیکن پاکستان کی ٹیکنکل ٹیم کو اس کو جائیزہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔
پاکستان اپنا مقدمہ ولڈ بنک میں بہتر طریقے سے سے نہیں لڑ سکا کیونکہ پاکستان کے پاس خود چھوٹے ڈیم موجود نہیں جہاں پانی کی اسٹوریج کا خاطر خواہ انتظام کیا جاسکے۔ لحاظا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔مودی سرکار پاکستان کو ریگستان بنانے کی بات آن رکارٹ بات کرچکی ہے۔ظاہرہے جس ملک کی لیڈر شپ کی دلچسپی ان اہم معاملات میں نہ ہو وہان ایسی دھمکیا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ ہم یہ سن2000سے سنتے آ رہے ہیں اور اب بھارت کی جارحیت کے بعد اس میں کوئی شک نہیں کہ سن 2025تک پاکستان میں پانی کا شدید بحران پیدا ہوجائے گا۔
بھارت کُھل کر سی پیک کے خلاف ہمارے سامنے آ کر کھڑا ہوگیا ہے اور وہ یہ بات جانتا ہے کہ ہاکستان کو چوٹ لگانے کا آزمودہ نسخہ صرف یہی ہے کہ پاکستان کا پانی دوک دیا جائے کشمیر کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ماہرین کے مطابق سندھ طاس منصوبہ کسی صورت بھی پاکستان کے حق میں نہیں تھا۔قیام پاکستان کے وقت زمین تو تقسیم ہوگئی تھی لیکن پانی نہیں اور انڈیا، پاکستان کے درمیان مشترکہ پانیوں کے استعمال پر تنازع 1960 تک جاری رہا جب آخرکار عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے گئے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت اس بات پر اتفاق ہوا کہ ‘انڈس بیسن’ کے چھ دریاؤں اور ان کی معاون ندیوں کا پانی کون اور کیسے استعمال کرے گا۔چھ میں سے تین دریا انڈیا کے حصے میں آئے اور تین پاکستان کے۔ انھیں مشرقی اور مغربی دریا کہا جاتا ہے۔سندھ، جہلم اور چناب مغربی دریا ہیں جن کے پانی پر پاکستان کا حق ہے جبکہ راوی، بیاس اور ستلج مشرقی دریا ہیں جن کے پانیوں پر ہندوستان کا حق ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا مغربی دریاؤں کا پانی بھی استعمال کر سکتا ہے لیکن سخت شرائط کے تحت۔ اسے ان دریاؤں پر بجلی گھر بنانے کی بھی اجازت ہے بشرطیکہ پانی کا بہاؤ (مختص شدہ حد سے) کم نہ ہو اور دریاؤں کا راستہ تبدیل نہ کیا جائے۔ یہ ‘رن آف دی ریور’ پراجیکٹس کہلاتے ہیں یعنی ایسے پراجیکٹس جن کے لیے بند نہ بنایا گیا ہو۔
اس کے تحت ہمیشہ کے لیے تین دریا بھارت کو دے دیے گئے اور ان پر فقط بجلی بنانے کے لیے ڈیم بنانے کی اجازت دی گئی ان میں چناب،جہلم اور سندہ پر ان کے ڈیم بنانے کے حق کو تسلیم کیا گیا تھا۔اس وقت ایوب خان صاحب کی حکومت تھی۔ سب جانتے ہیں کہ کشمیر اس پانی کا منبہ ہے۔کشمیر کی زمین پر بات نہ ہوئی البتہ پانی کا فیصلہ پہلے کردیا گیا۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ معاہدے میں شرط رکھی جاتی کہ جب تک کشمیر کا فیصلہ نہیں ہوگا تب تک پانی کی تقسیم پر نتیجہ خیز گفتگونہیں کی جائیگی۔ہماری حکومتیں اس کے ساتھ ہی آرام سے بیٹھ گئی کہ اب شاید بھارت کی طرف سے کوئی کام نہیں کیا جائیگا لیکن بھارت نے سن1990میں پہلی بار ڈیم بنانے کا آغاز کیا۔بھارت اب تک11ڈیم مکمل کر چکا ہے جبکہ52ڈیم پر کام کررہا ہے اور مستقبل میں 190 ڈیمز کی فزیبلٹی رپورٹس،لوگ سبھااور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں۔اور ہمارے حکمران گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔
 پاکستان اب کشن گنگا ڈیم کے افتحاح کے بعدوولڈبنک میں اپنا مقدمہ لے کر جاتا ہے۔آپ کیا سمجھتے ہیں اب آپ کیا کرلیں گے سوائے وولڈ بنک جاکر سیر سپاٹاکرکے واپس آجائیں ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ وولڈ بنک اس بات کی یقین دہانی کروائے کہ جو پانی پاکستان کے حصے کا ہے وہ اُسے ملتا رہے گا۔اگر بھارت مزید ایسے ڈیم کی تعمیر کرتا تو اگلے تین سالوں میں پاکستان کو واٹر ایمرجنسی ڈکلیئر کرنا پڑے گی۔ پاکستان کی سیاسی قوتوں اور حکمرانوں نے اس مسئلے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر سکون کا سانس لے لیا۔ لیکن بہرحال اب بھی ہمیں اس پر ہر صورت بات کرنی ہوگی۔سوال یہ ہے کہ اب ہم کیا کرسکتے ہیں سب سے پہلے تو اپنے دوست ممالک کو اپنے ساتھ ملا کر اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی سطح پر بھارت پر دباؤ ڈالنا ہوگا۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ خدا نے پاکستان کو ایک خاص جغرافیائی حثیت دی ہے اور اسی وجہ سے بہت سے ممالک کے ذاتی مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں لحاظا عالمی سطح پر پاکستان کا ساتھ دیا جائے گا۔
دوسری بات یہ کہ اگر ہمیں اپنا مقدمہ لڑنا ہے تو ہمیں لوگوں کو تیار کرنا ہوگاایسے لوگوں کو جو اس مسئلے پر مکمل علم رکھتے ہوں اور بھارت کی چالوں کو سمجھتے ہوئے اپنی مستقبل کی بہتر طریقے سے منصوبہ بندی کرسکیں۔حال یہ ہے کہ پولیٹکل پارٹیز کے پاس ایسے میچور لوگ نہیں ہیں جو فیصلہ
 کرکے اپنا مقدمہ لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ریسرچ ہم کرتے نہیں ہوم ورک ہمارا نہیں تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ہماری بات میں وزن ہو۔صورتحال یہ ہے کہ اب پانی ہمارے سر سے گرز چکا ہے۔ہمارے پولیٹکل لیڈرز کی ترجیحات مختلف ہیں یہ بیس کروڑ عوام کا مسئلہ ہے یہ پاکستان کے مستقبل کا سوال ہے ہم کب تک آنکھیں بند کر کے رکھیں گے۔یہ وقت ہندوستان سے اپنا حق لینے کا اور ملک میں پانی کے ذخائر بنانے کے لئے چھوٹے ڈیم بنانے کا ہے۔کالا باغ ڈیم قوم کی توجہ ہٹانے کیلئے ایک شوشہ ہے کیونکہ اسے بننے میں کئی سال لگیں گے اور وہ بھی اس صورت میں جب صوبوں میں اتفاق ہوا تو۔اپوزشن لیڈرز اور حکومت میں شامل پارٹیز کو مل کر ملک کے وسیع تر مفاد میں مل کر کام کرنا ہوگا۔عام فرد کو اس ایشو پر آگاہی دینی ہوگی۔حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کو جواب دی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).