گوہر تاج کی کتاب اجالوں کے سفیر


کچھ مہینے پہلے ہم سب پر میں نے اپنی ذہنی طور پر معذور بہن کے متعلق دو بلاگ لکھے تھے۔ میری یہ بہن تین ماہ کی عمر میں گردن توڑ بخار کا شکار ہوئی تھی جس کا اثر اس کے دماغ پر پڑا اور وہ زندگی بھر کے لیے ذہنی طور پر معذور ہو گئی۔ اس کی معذوری نے ہم سب کی زندگیوں پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ اس دوران میرے والدین نے لوگوں کا نہایت بدصورت رویہ برداشت کیا۔ یسریٰ کی بیماری کو میری والدہ کے گناہوں کی سزا قرار دیا گیا۔ پندرہ سال کی عمر میں اس نے وفات پائی۔ وہ دن بھی انتہائی دردناک تھا۔ بجائے اس کے کہ لوگ ہمارے دکھ کو بانٹتے وہ دیگ کے چاولوں میں زیادہ دلچسپی دکھاتے رہے۔

جب میرے یہ دونوں مضامین ہم سب پر چھپے، گوہر تاج اس وقت اپنی کتاب اجالوں کے سفیر مکمل کر چکی تھیں۔ انہیں میرے وہ مضامین اتنے اچھے لگے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں ان مضامین کو شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے لیے انہوں نے مجھ سے باقاعدہ اجازت لی جو میں نے بخوشی دے دی۔ گوہر تاج کی کتاب میں میرے لکھے ہوئے مضامین شامل ہوں اور ان مضامین کو کوئی ایک بھی پڑھ کر معذور افراد اور ان سے جڑے لوگوں کی طرف اپنا رویہ بہتر کر لے، اس سے بڑھ کر میں کیا چاہ سکتی تھی۔ میں گوہر تاج کی بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنی کتاب اجالوں کے سفیر میں میرے مضامین شامل کیے۔

اجالوں کے سفیر معذوری پر مبنی اہم مضامین اور انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں جن افراد کے انٹرویوز کیے گئے ہیں ان کی زیادہ تر تعداد امریکہ میں بطور امیگرینٹ رہ رہی ہے جبکہ کچھ انٹرویوز پاکستان میں مقیم افراد کے بھی کیے گئے ہیں۔ ہر انٹرویو پڑھ کر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ گوہر تاج نے یہ انٹرویوز کئی سالوں کے عرصے میں کیے ہیں لیکن ان کو ایک کتاب کی شکل میں اب اکٹھا کیا گیا ہے۔ یہ انٹرویوز جتنے دینے والوں کے لیے مشکل رہے ہوں گے اتنے ہی گوہر تاج کے لیے بھی مشکل رہے ہیں۔ گوہر تاج ایسی حساس دل رکھنے والی خاتون نے ان کی کہانیوں کو جس مشکل سے سنا، برداشت کیا اور جس خوبصورتی سے لکھا وہ قابلِ تعریف ہے۔

 کچھ ہفتے قبل میں نے لندن میں مقیم ایک ایسی پاکستانی خاتون کا انٹرویو کیا تھا جن کی گیارہ سالہ بیٹی آمنہ ہڈیوں کی ایک بہت عجیب و غریب بیماری ‘اوسٹیوجینیسز امپرفیکٹا’ کا شکار تھی۔ یہ ایک جینیاتی بیماری ہے جس کا اثر ہڈیوں پر ہوتا ہے۔ اس بیماری کے زیرِ اثر ہڈیاں کسی بھی حرکت یا عمل سے ٹوٹ سکتی ہیں۔ آمنہ کی والدہ نے بتایا کہ آمنہ اگر چھینکتی بھی ہے تو اس کی ایک دو پسلیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ یہ ایک بہت ہی نایاب جینیاتی بیماری ہے جو اس سے پہلے ان کے یا ان کے شوہر کے خاندان میں کسی کو بھی نہیں تھی۔

انہوں نے انٹرویو میں بتایا کہ جب ان کی بیٹی کی بیماری کے بارے میں پتہ چلا تو پاکستان میں موجود ان کے عزیزوں نے بہت دل دکھانے والی باتیں بنائیں۔ کچھ نے کہا کہ انہوں نے پریگننسی کے دوران اپنی صحت کا دھیان نہیں رکھا تو کسی نے کہا کہ وہ اس دوران اپنی مرضی سے کھاتی پیتی رہیں جس کی وجہ سے ان کی بیٹی اس موذی مرض کا شکار ہوئی۔ آمنہ کی پیدائش سے لے کر اب تک اس کی تمام دیکھ بھال اس کی والدہ ایک نرس کے ساتھ کرتی ہیں۔ ان کی پوری زندگی اپنی بیٹی کی پیدائش کے بعد تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ ان کا دن کیسا گزرے گا، اس کا انحصار اس دن آمنہ کی طبیعت پر کرتا ہے۔ وہ تمام رشتے دار جو ان کی بیٹی کی بیماری پر انہیں باتیں سناتے رہے، آج بھی باتیں بنا رہے ہیں لیکن ان کی بیٹی کی مدد کرنے کبھی آگے نہیں بڑھتے۔

اجالوں کے سفیر میں بھی اسی قسم کے انٹرویوز شامل ہیں۔ ان انٹرویوز کے علاوہ گوہر تاج نے اس کتاب میں وہ تمام معلومات دی ہیں جو کسی بھی معذور فرد کی فیملی کو درکار ہو سکتی ہیں مثلاً پاکستان میں معذور افراد کے لیے کام کرنے والی تمام سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں، ان کے فون نمبر اور ویب سائٹ، اس کے علاوہ امریکہ میں کام کرنے والی تنظیمیں، ان کے نمبرز اور ایمرجنسی ہیلپ لائن کا نمبر وغیرہ۔

کتاب کے آخر میں ان  تمام بیماریوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کتاب میں بیان کیے گئے معذور افراد کو لاحق تھیں۔ یہ حصہ بہت معلوماتی ہے۔ ہم اپنے پیارے کی تب ہی مدد کر سکتے ہیں جب اس کی بیماری کو مکمل طور پر سمجھتے ہوں۔  ہم بیماریوں کو نظر، جادو، یا خدا کا عذاب سمجھتے ہیں۔ ہم مرض کے علاج کی بجائے دم درود میں وقت ضائع کرتے ہیں جس سے بیماری ٹھیک ہونے کی بجائے مزید بگڑتی جاتی ہے۔ ہمیں ہر بیماری کو سائنسی بنیادوں پر دیکھنا چاہئیے اور ویسے ہی اس کا علاج کروانا چاہئیے۔

آخر میں بتاتی چلوں کہ اس کتاب سے جو آمدن اکٹھی ہوگی وہ کراچی کے کوہی گوٹھ اسپتال کو عطیہ کی جائے گی۔ یہ اسپتال ایک خیراتی اسپتال ہے جہاں امراضِ نسواں اور زچگی سے منسلک مسائل کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کو اسی اسپتال کے ایک پراجیکٹ نرسنگ اینڈ مڈ وائفری سکول کے نصاب کا بھی حصہ بنایا گیا ہے۔ اس سکول میں تربیت پانے والا عملہ اپنے کورس کے دوران اس کتاب کو نہ صرف پڑھے گا بلکہ اس میں سے امتحان بھی دے گا۔ اس کا کریڈٹ گوہر تاج کو جاتا ہے جنہوں نے اس قدر اہم موضوع پر ایک مفصل اور پر اثر کتاب لکھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).