کالعدم عورت مارچ والے (مکمل کالم)


یہ کالعدم عورت مارچ والوں نے عجیب تماشا بنا رکھا ہے، اِن لوگوں کا جب دل کرتا ہے پورا ملک بند کر دیتے ہیں، کبھی دھرنا دیتے ہیں کبھی حکومت کی رِٹ کو للکارتے ہیں تو کبھی کھلم کھلا خون خرابے پر اتر آتے ہیں۔ حکومت بھی اِن کے ساتھ لاڈلے بچوں کا سا برتاؤ کرتی ہے، اگر یہ سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کریں تو جواب میں انہیں پچکارا جاتا ہے، اگر یہ سڑکیں بند کر دیں تو اِن کی منت سماجت کی جاتی ہیں اور اگر یہ دھرنا دے دیں تو حکومت معاہدہ کر کے اِن کے مطالبات تسلیم کر لیتی ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ آخر عورت مارچ والوں کو اتنی ڈھیل کیوں دی جاتی ہے ؟ ویسے تو اِس ملک میں اگر کوئی بھلے مانس غلطی سے ناکے پرموٹر سائیکل نہ روکے تو پولیس والے سیدھی گولی مارنے سے بھی نہیں چوکتے لیکن عورت مارچ والوں کی بات اور ہے، پولیس اگر اِن کے جلوس کو روکنے کی کوشش کرے تو لبرل لوگوں کا یہ جتھا جواب میں پولیس والوں کو ہی مار ڈالتا ہے اور کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ اِس کا حساب لے۔ مجھے لگتا ہے کہ امریکہ اور مغربی طاقتیں اِن لبرلز کی پشت پر ہیں، اسی لیے کوئی عورت مارچ والوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں کرتا۔

گزشتہ چند دنوں سے انہو ں نے پھر وہی تماشا شروع کر رکھا ہے، ایک جتھے کی صورت میں یہ دارالحکومت کی طرف روانہ ہیں، پولیس انہیں روکنے کی نیم دلانہ کوشش ضرور کر رہی ہے مگر اِ س کی کوشش کے نتیجے میں عورت مارچ والوں نے پولیس کے بارہ جوان مار ڈالے ہیں۔ ایسے ہی ایک کڑیل جوان کی تصویر میں نے سوشل میڈیا پر دیکھی، اُس کا دس بارہ سال کا بچہ اپنے با پ کے تابوت کے ساتھ لپٹا ہوا تھا اور خالی خالی آنکھوں سے باپ کی لاش کو تک رہا تھا۔ لیکن عورت مارچ والوں کو اِن باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اُن کے نزدیک اُن کا ایجنڈا سب سے اہم ہے اور ہر وہ شخص جو اُن کے ایجنڈے سے اتفاق نہیں کرتا، اپنی موت کا خود ذمہ دار ہے۔

میڈیا کے لبرل لوگ بھی کالعدم عورت مارچ والوں کے حق میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اُن کے پُرتشدد رویے کی ببانگ دہل حمایت تو نہیں کر سکتے مگر اُن کی چہکاروں (ٹویٹس) میں عورت مارچ والوں کے لیے محبت اور ہمدردی کے ایسے جذبات ہوتے ہیں کہ بقول غالب ’غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر، کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے‘۔ مثلاً اگر عورت مارچ کے دھرنے اور جلوس پر پولیس شیلنگ کرے اور جواب میں لبرلز کا یہ جتھا آٹھ دس پولیس والوں کو ہی مار دے تو ان کی پیار بھری ٹویٹ کچھ اِس قسم کی ہوگی کہ خدارا معاملات کو خو ش اسلوبی سے بات چیت کے ذریعے حل کریں، حکومت طاقت کی بجائے تدبر سے کام لیتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کرے، وغیرہ۔

سیاست دانوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ کسی سیاست دان میں جرات نہیں کہ کھلم کھلا اِن عورت مارچ والوں کے خلاف کھڑا ہو، اِن کے بیانیے کا رد کرے یا ہمت دکھاتے ہوئے کہے کہ عورت مارچ والوں کا ایجنڈا دراصل لبرل ازم کی نفی ہے اور لبرل ازم میں تشدد کی کوئی گنجایش نہیں۔ مگر کوئی مائی کا لعل یہ نہیں کہتا۔ جب کسی سیاست دان سے عورت مارچ والوں کے پُر تشدد احتجاج کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے توجواب دینے سے پہلے وہ خود کو لبرل ثابت کرنے کے لیے اپنے کارنامے گنواتا ہے، دعوی کرتا ہے کہ اِس ملک میں اُس سے بڑا لبرل ازم کا کوئی سپاہی نہیں اور یوں وہ لبرل اِزم کی تحریک کا سرخیل ہے اور اس کے بعد منمناتے ہوئے بس اتنا کہتا ہے کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور پھر ساتھ ہی سارا ملبہ حکومت پر ڈال کر یوں بن جاتا ہے جیسے عورت مارچ والوں کو پیغام دے رہا ہو کہ دیکھ لو کامریڈز میں اصل میں آپ ہی کے ساتھ کھڑا ہوں، مجھے کچھ نہ کہنا۔

یہ تو ہوا کالعدم عورت مارچ کا معاملہ۔ اب اِن کے ایک مخالف نظریے کی حامل مذہبی تنظیم کا احوال بھی سُن لیں۔ اِس تنظیم کے لوگ سال بھر میں مشکل سے ایک مرتبہ اکٹھے ہوتے ہیں، تعداد اُن کی چند سو یا ہزار سے زیاد ہ نہیں ہوتی، نہ وہ کسی شہر کی طرف مارچ کرتے ہیں اور نہ کہیں دھرنا دیتے ہیں، نہ وہ گھیراؤ جلاؤ کرتےہیں اور نہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، وہ کسی شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کرکے بند بھی نہیں کرتے اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے بسوں کو آگ بھی نہیں لگاتے۔ اِن لوگوں نے جس جگہ مظاہرہ کرنا ہوتا ہے اُس کی پیشگی اجازت انتظامیہ اور پولیس سے باضابط انداز میں حاصل کرتے ہیں اور پھر مقررہ دن کو وہاں ہاتھ میں پوسٹرز اور پلے کارڈ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تشدد سے اُن کا دور تک کا بھی کوئی واسطہ نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کرتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں اور شور شرابہ کرکے واپس اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اِنہوں نے کسی پولیس والے کو یرغمال بنایا ہو، یا اُس پر تشدد کیا ہو یا اسے قتل کیا ہو، اِن کے مسلک میں ایسی باتوں کا تصور ہی نہیں۔ یہ بیچارے سیدھے سادھے بھلے مانس لوگ ہیں جو آئین اور قانون میں دیے گئے حقوق کے حصول کے لیے پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ ہر سال جو مطالبات وہ پلے کارڈ پر لکھ کر لاتے ہیں اُن میں سے کوئی ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں ہوتا جو آئین اور قانون سے متصادم ہو لیکن اِس کے باوجود میڈیا میں عورت مارچ کے حمایت یافتہ کچھ لبرلز سارا سال ہی اِن بیچاروں کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے رہتے ہیں، اِن لکھاریوں کو اِس مذہبی تنظیم کی ہر بات سے ہی اختلاف ہے اور یہ انہوں کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں۔

اِن لبرل کالم نگاروں کو لاکھ دلائل دو کہ یہ مذہبی تنظیم تشدد پر یقین نہیں رکھتی، اِن کے مطالبات جائز ہیں، اِن کی بات سنی جانی چاہیے مگر ہمارے اِن دوستوں کے دلوں میں اِس گروہ کے لیے کبھی رحم نہیں آیا۔ کالعدم عورت مارچ والوں کے برعکس جب اِس مذہبی تنظیم کی بات آتی ہے تو اِن کے قلم سے چنگاریاں نکلنے لگتی ہیں اور اِن کے لہجے کی وہ حلاوٹ اور شیرینی یکایک مفقود ہو جاتی ہے جو عورت مارچ والوں کے بار ے میں بات کرتے وقت اُبل رہی ہوتی ہے، اِس تنظیم کی معمولی سی لغزش پر بھی یہ لبرل لکھاری انہیں معاف نہیں کرتے۔ گزشتہ برس اِس تنظیم کے پُرامن جلسے کی ایک جعلی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلا دی گئی، ہمارے اِن لبرل لکھاریوں نے بغیر تحقیق کے اِس جعلی ویڈیو کی بنیاد پر حکومت سے اِس تنظیم کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر دیاجس سے مزید انتشار پھیلا۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ آج کل کالعدم عورت مارچ والوں کی اصلی ویڈیوز سامنے آرہی ہیں جن میں یہ لوگ پولیس والوں پر تشدد کرتےہوئے صاف دکھائی دے رہے ہیں مگر ہمارےلبرل دانشوروں کے ماتھے پر شکن تک نہیں، ہمیشہ کی طرح وہ اب بھی اپنی ٹویٹس میں عورت مارچ والوں کو ’اپنے لوگ‘ کہہ کر حکومت سے معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

ایک ہی ملک ہے، مگر اِس میں دو مخالف نقطہ نظر رکھنے والے گروہ ہیں، ایک گروہ تشدد پر یقین رکھتا ہے، دوسرا پر امن جدوجہد پر، دست شفقت کس کے سر پر ہے، اِس کا فیصلہ آپ خود کر لیں !

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments