شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس اور بھارت کا کردار


شنگھائی تعاون تنظیم کا 18 واں سربراہی اجلاس چین کے شہر چنگ ڈاؤ میں ہوا۔ 9 جون کو افتتاحی اجلاس رکھا گیا جبکہ 10 جون تک یہ اجلاس چلا۔ یہ تنظیم 2001؁ء میں چین اور روس کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا میں تنہا عالمی طاقت ہونے کا تصور قائم ہوا تھا۔ اس تنظیم کے قیام سے اس وقت یہ پیغام دنیا کو دیا گیا تھا کہ تنہا عالمی طاقت کا تصور طاقتور ممالک کے باہمی تعلق سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے اغراض و مقاصد میں علاقے میں اسلامی انتہا پسندی اور سرحدوں کے تحفظ کو بنیادی اہمیت دی گئی تھی۔ یہ تنظیم چین، روس اور سابقہ سوویت ریاستوں جو آزاد ہو چکی تھیں۔ قازقستان، ازبکستان، کرغزستان اور تاجکستان پر مشتمل تھی۔ گزشتہ برس اس میں وسطی ایشیائی ریاستوں کے بعد جنوبی ایشیاء کے اہم ترین ممالک پاکستان اور بھارت بھی شامل ہو گئے جس سے اس کی اہمیت مزید دو چند ہو گئی۔

جب اس تنظیم کو قائم کیا گیا تھا تو اس وقت یہ تصور تھا کہ یہ تنظیم درحقیقت نیٹو کے جواب کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ جب ہم جواب کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے واضح رہنا چاہیے کہ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جو کچھ نیٹو کر رہی ہے یا جن خطوط پر اس کو استوار کیا گیا ہے۔ یہ تنظیم بھی بالکل ویسے ہی اپنا انداز اختیار کرے گی۔ بلکہ اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جیسے نیٹو ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جس کے ذریعے اپنی بالا دستی اور مفادات کا تحفظ کیا جا رہا ہے بالکل اسی طرح شنگھائی تعاون کانفرنس بھی ایک ایسی ہی تنظیم کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ جو اول علاقائی مفادات اور بعد میں عالمی مفادات میں تعاون کی طرف بڑھے گی۔ اس وقت جن حالات میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس منعقد ہوا۔ وہ عالمی تجارت کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

اسی دوران جی سیون ممالک کا بھی اجلاس ہوا اور اس اجلاس کا اختتام بنیادی طور پر بدمزگی پر ہوا۔ کیونکہ صدر ٹرمپ نے اس سے قبل ایک ٹیرف پالیسی کا اعلان کیا تھا جو یورپ اور کینیڈا کو بہت ناخوشگوار گزری۔ اس لئے صدر ٹرمپ نے جی سیون ممالک کے مشترکہ اعلامیہ پر بھی امریکہ کے دستخط نہیں ہونے دیے۔ لیکن انہوں نے ایک نہایت اہم بات اور بھی کی کہ جی سیون میں روس کی واپسی ہو سکتی ہے۔ جس کو ان کے علاوہ دیگر ممبران نے مسترد کر دیا۔ مگر صدر ٹرمپ کے اس اقدام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم کے اس نعرے پر قائم ہیں کہ روس اور چین سے براہ راست بات کر کے امریکہ، چین اور روس کو آپس میں معاملات طے کر لینے چاہیں۔ تا کہ امریکہ کو دیگر ممالک کے زائد خرچوں سے نجات مل سکے۔ اس لئے وہ اس وقت سے چین سے بھی ٹیکسوں کے معاملات پر بات کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ تصادم کی بات ہے مگر اس میں سے اگر کوئی معاہدہ برآمد ہو گیا تو یہ ایک نئی صورت ہو گی۔

بہرحال جی سیون ممالک کی اس بدمزگی کی صورتحال پر نام لیے بغیر چینی صدر شی نے اپنی تقریر میں تبصرہ کرتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبران کی یگانگت کو سراہا۔ انہوں نے پاکستان کے صدر ممنون حسین اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی وہاں موجودگی کی خاص طور پر پذیرائی کی اور اس کو ایک تاریخی موقع قرار دیا۔ ان دونوں ممالک کو گزشتہ برس اس تنظیم کی رکنیت دی گئی تھی جو اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ اب یہ تنظیم چین اور روس وسطی ایشیاء سے نکل کر جنوبی ایشیاء میں داخل ہو گئی ہے۔ ویسے تو اس کے دیگر چار مبصر ممالک بھی ہیں جو مکمل رکنیت نہیں رکھتے۔ ان میں ایران، افغانستان، بیلا روس اور منگولیا شامل ہیں۔ چین کے صدر شی نے امریکہ کا نام لیے بغیر اس کی نئی ٹریڈ پالیسی پر کھل کر تنقید کی۔ انہوں نے اسٹیٹ پالیسی کو سرد جنگ کی ذہنیت سے تعبیر کیا اور اس کو کھلی عالمی تجارت کے منافی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوتاہ، تنگ نظر اور خود غرضانہ پالیسی کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم عالمی تجارت کی تنظیم کے قوائد کا احترام کرتے ہیں۔ اور کثیر الجہتی عالمی نظام کی حمایت کرتے ہیں۔ چین اس وقت امریکہ سے تجارتی جنگ سے بچنے کے لئے اس سے مذاکرات کر رہا ہے۔ جن کا ایک دور پچھلے ہفتے ہی ہوا ہے۔

صدر شی نے امریکہ کی ایران نیوکلیئر ڈیل کی توثیق نہ کرنے کے اقدام کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ جبکہ انہوں نے مشترکہ مفادات کے تعاون کے لئے آگے بڑھنے کی بات کی۔ صدر شی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک میں 4.7 ارب ڈالر کے قرضوں کے اجراء پر بھی بات کی۔ کانفرنس میں شامل روس کے صدر پیوٹن نے لگی لپٹی بغیر امریکہ کا نام لے کر اس پر ایران نیوکلیئر ڈیل سے نکل جانے پر سخت تنقید کی اور روس کے اس ڈیل کے ساتھ رہنے کی بابت دوبارہ کہا۔ انہوں نے ڈیل کے خاتمے کی صورت میں علاقائی امن کو درپیش خطرات کا بھی ذکر کیا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے وہیں پر صدر ٹرمپ سے ملاقات کی بھی خوائش کا اظہار کیا۔ اس سے قبل ٹرمپ جی سیون کو روس کی شمولیت کے بعد دوبارہ جی ایٹ بنانے کی بابت جمعہ کو کہہ چکے تھے۔ مبصرین ان دونوں بیانات کو کسی نئے بریک تھرو کا پیش خیمہ بھی قرار دے رہے ہیں۔

روس 2014؁ء تک جی ایٹ کا رکن تھا مگر کریمیا سے 2014؁ء میں روس کے ادغام کے موقعہ پر اس کو اس تنظیم سے فارغ کر دیا گیا۔ پاکستان کے صدر ممنون حسین نے سی پیک کے حوالے سے نہایت معنی خیز بات کی تھی۔ ہرچیز کو کسی خاص زاویہ نگاہ سے بھی نہیں دیکھنا چاہیے۔ ان کا اشارہ بھارت کی طرف تھا جو سی پیک منصوبے کے خلاف ہے۔ انہوں نے ایک پانچ نکاتی فارمولا بھی دیا جو بنیادی طور پر اس بات کرتا ہے کہ مستحکم امن سے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں امن و امان کی بہتر صورتحال کا ذکر کیا جس کا کریڈٹ بلا شبہ نوازشریف حکومت کو جاتا ہے۔

میں نے یہ مضمون لکھنے کی خاطر سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور ڈاکٹر فیصل سے ملاقات کی۔ جبکہ صدر مملکت ممنون حسین سے بھی رابطہ ہوا۔ فاروق عادل تو بیجنگ سے بھی مجھے اس حوالے سے تازہ صورتحال سے آگاہ کرتے رہے۔ دفتر خارجہ نے بھی بروقت تفصیلات مہیا کر دیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا دفتر خارجہ اس حوالے سے متحرک کردار ادا کر رہا تھا۔ کانفرنس میں اختلاف رائے بھی دیکھنے میں آیا۔ جب بھارت وزیر اعظم نے کانفرنس کے اعلامیہ کے اس پیرے کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔ جس میں چین کے ون بیلٹ ون روڈ یعنی سی پیک کی تعریف تھی انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ہم تعاون کے قائل ہیں مگر یہ منصوبہ گلگت بلتستان سے گزر رہا ہے جو کہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اس سے بھارت کی علاقائی سلامتی پر اثر پڑے گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اختلافات یہاں بھی گہرے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).