صدر ٹرمپ کو جنوبی کوریا میں چند کروڑ ڈالر خرچ کرنا اب کیوں بھاری لگ رہا ہے؟


شمالی کوریا اور امریکہ کے فوجی

سنگاپور میں امریکہ اور شمالی کوریا کے سربرہان کے درمیان تاریخی ملاقات میں جو ٹھوس بات سامنے آئی وہ صدر ٹرمپ کی طرف سے جنوبی کوریا کے ساتھ امریکہ کی جنگی مشقوں کو ختم کیا جانا تھا۔

یہ جنگی مشقیں جو امریکہ اور جنوبی کوریا بظاہر شمالی کوریا کو مرعوب کرنے کے لیے کرتے ہیں خطے میں کشیدگی کا بڑا عنصر رہی ہیں اور ان میں بھرپور جنگی صلاحیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

ان مشقوں میں امریکی بی باؤن بمبار طیاروں سمیت ان تمام ہتھیاروں کو استعمال کیا جاتا ہے جن سے دشمن پر دھاگ بیٹھ سکے۔

صدر ٹرمپ نے کم جونگ ان کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں ان مشقوں کا سلسلہ بند کرنے کا اعلان کیا اور امریکی سرکاری موقف کے برخلاف ان مشقوں کے بارے میں کہا کہ یہ اشتعال کا باعث ہو سکتی ہیں۔

عالمی تـجزہ کاروں کے مطابق صدر ٹرمپ کے اس اچانک اعلان سے جہاں ان کے اتحادی حیران رہ گئے وہیں یہ بات یقیناً امریکہ عسکری قیادت کے لیے بھی حیران ک

انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے یہ پوچھا کہ مشقوں میں حصہ لینے والے بی باؤن بمبار طیارے کہا سے آتے ہیں تو جواب ملا کہ قریب ہی ‘گوام’ کے فوجی اڈے سے جہاں سے انھیں آنے میں ساڑھے چھ گھنٹے پرواز کرنی پڑتی ہے۔

ہر چیز میں مالی منفعت اور نقصان کی بات کرنے والے صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنگی مشقوں کا سلسلہ بند کرنے سے امریکہ کی کافی بچت ہو گی۔

عالمی طاقتیں دنیا میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سالانہ اربوں ڈالر دفاع پر خرچ کرنے سے گریز نہیں کرتی ہیں لیکن اگر ہوا کا رخ بدلے تو انھیں چند کروڑ ڈالر بھی بھاری لگتے ہیں۔

کوریا میں ہوا تبدیل ہوئی ہے اور اب بات امریکہ اور شمالی کوریا کی ایک دوسرے کو جنگی کارروائیوں کی دھمکیوں سے ہٹ کر امن و آشتی کی چل نکلی ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

اپنی سکیورٹی ذمہ داریوں پر قائم ہیں: امریکی محکمۂ دفاع

’ٹرمپ کِم ملاقات ہاتھ ملانے سے زیادہ کچھ نہیں‘

’کم سے ایمانداری سے لگی لپٹی رکھے بغیر بات ہوئی‘

امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان جنگی مشقوں پر اٹھنے والے اخراجات کے قطعی اعداد و شمار دستیاب نہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اخراجات کی تفصیلات موجود ہیں اور ماہرین کے مطابق ان ہی اخراجات کے تحت مشترکہ مشقیں کی جاتی ہیں۔

جنوبی کوریا اور امریکہ کے دمیان دفاعی معاہدے کے اخراجات

دونوں ممالک کے درمیان 1953 میں دفاعی معاہدہ طے پایا تھا جس میں جنوبی کوریا میں امریکی فوجی اہلکاروں کی تعیناتی اور انھیں وہاں اڈے اور دیگر تربیتی سہولیات فراہم کرنا تھا۔ اس وقت صرف جنوبی کوریا میں امریکی فوجیوں کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ ہے۔

فوجی مشقیں

امریکہ اور جنوبی کوریا عرصے سے مشترکہ فوجی مشقیں کر رہے ہیں

اس معاہدے کے تحت امریکی فوج کی موجودگی اور دیگر تربیتی پروگرامز پر اٹھنے والے اخراجات دونوں ممالک میں برابر تقسیم ہوتے ہیں اور ان اخراجات کا ہر پانچ برس بعد جائزہ لیا جاتا ہے۔

مشترکہ دفاعی اخراجات کا آئندہ پانچ برس کے لیے دوبارہ نظرثانی کی جانی ہے اور یہ اس وقت ایک ارب 60 کروڑ ڈالر سالانہ کے قریب ہیں جس میں نصف یعنی 80 کروڑ کے قریب جنوبی کوریا برداشت کر رہا ہے جبکہ باقی امریکہ اپنی جیب سے خرچ کرتا ہے۔

اگر اس رقم کو دیکھا جایا تو یہ امریکہ جیسے ملک کے لیے کچھ بھی نہیں تو ایسی کیا وجہ تھی جس کی وجہ سے کوریا میں امریکی اخراجات کے بارے میں صدر ٹرمپ نے اچھی خاصی تمہید باندھی۔

اس پر قائدِاعظم یونیورسٹی سے منسلک دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر ظفر جسپال نے کہا کہ شمالی کوریا کے رہنما کے ساتھ ملاقات میں صدر ٹرمپ کے یہ خیر سگالی کا واحد اعلان تھا جس پر وہ اپنے طور پر ایگزیکٹو حکمنامے کے تحت عمل درآمد کرنے کی پوزیشن میں تھے۔

ڈاکٹر ظفر جسپال نے مشترکہ فوجی مشقوں کو مالی طور پر بوجھ قرار دینے کے صدر ٹرمپ کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکہ کی کوشش ہے کہ جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی کم کی جا سکے اور اس سے بڑھ کر امریکہ چاہتا ہے کہ شمالی کوریا جیسے بند ملک کے دروازے اپنے لیے کھولیں جائیں اور اس کے اندر معاشی پر طور سرایت کیا جائے تاکہ اس کا معیشت کا انحصار زیادہ سے زیادہ بڑھے۔

انھوں نے کہا کہ اس ملاقات میں دونوں ممالک کو یہ معلوم ہے کہ شمالی کوریا جوہری ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہو گا لیکن امریکہ کی جانب سے مشترکہ فوجی مشقیں منسوخ کرنے کا اعلان اسی پیرائے میں ہے کہ کسی طرح سے شمالی کوریا کو اعتماد کے دائرے میں لایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32189 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp