پاکستان کی حفاظت کا ڈھونگ


\"mujahidحکومت نے ملک میں انتہا پسندانہ رویوں کے خلاف بننے والی دو دستاویزی فلموں پر یہ کہہ کر پابندی عائد کردی ہے کہ یہ ملک کے مفاد کے خلاف ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی غلط تصویر پیش کرتی ہیں۔ بدنصیبی سے ملک کی جمہوری حکومت کا رویہ اس بنیادی جمہوری روایت کے برعکس ہے جس میں مختلف نقطہ نظر کو سامنے لانے اور بہتری کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
دو روز قبل ہی تین ہفتے تک ملک بھر کے سینما گھروں میں دکھائی گئی فلم ’مالک‘ پر اچانک یہ کہہ کر پابندی لگا دی گئی تھی کہ لوگ اس فلم کے موضوع سے بر افروختہ ہیں اور ان کی ناراضگی انتشار اور توڑ پھوڑ کا راستہ اختیار کرسکتی ہے۔ حالانکہ تین ہفتے کی نمائش کے دوران فلم کے خلاف کوئی عوامی احتجاج سامنے نہیں آیا تھا۔ البتہ سندھ اور اس کے بعد وفاقی حکومت کو یہ اندیشہ ضرور لاحق ہوگیا تھا کہ اس فلم کے ذریعے سیاست دانوں کی ایک بھونڈی تصویر پیش کی گئی ہے ۔ دبے لفظوں میں یہ بات بھی عوامی شعور تک پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی کہ’مالک‘ کے ذریعے پاک فوج کے ادارہ تعلقات عامہ ISPRنے سیاست دانوں کے بارے میں ایک خاص طرح کا مؤقف سامنے لانے کی کوشش کی تھی۔ اس طرح جمہوری اداروں اور نمائیندوں کے بارے میں منفی تاثر پیدا کیا جا رہا تھا۔ اس قسم کے تاثر کو ختم کرنے کے لئے پابندی جیسے ناپسندیدہ اور انتہائی اقدام کی بجائے اگر اس موضوع پر کھل کر بات کی جاتی اور ادارہ جاتی اختلافات کو ختم کرنے کے لئے مناسب فورمز پر مباحث اور فیصلے کرنے کی کوشش کی جاتی تو بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے تھے۔
اب جن دو فلموں پر اسلام آباد میں ہونے والے فلم فیسٹیول سے پہلے پابندی لگائی گئی ہے، وہ دونوں دستاویزی فلمیں ہیں۔ ان دونوں میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف بات کی گئی ہے لیکن اب اسے بھی قومی مفاد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے نقصان دہ قرار دے دیا گیا ہے۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف جد و جہد کی کامیابی کے لئے مسلح کارروائیوں کے علاوہ مزاج سازی اور اور لوگوں کے رویوں کو تبدیل کرنے کے لئے کام کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی جنگ صرف اسلحہ اور طاقت کے زور پر نہیں جیتی جا سکتی۔ اسی لئے آپریشن ضرب عضب کے ساتھ ہی قومی ایکشن پلان تیار کیا گیا تھا تاکہ ملک میں انتہا پسندانہ رویوں کی روک تھام کے لئے اقدام کئے جا سکیں۔ فلم کے ذریعے یہ کام آسانی اور مؤثر طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کسی فلم کی پیش کش یا اس میں دی گئی دلیل سے اختلاف کی گنجائش موجود ہو لیکن اس سے گفتگو کرنے اور معاملہ کے تمام پہلوؤں کو سامنے لانے کا امکان بھی پیدا ہوتا ہے۔ جمہوری معاشرے اسی طرح لوگوں کی ذہنی تربیت کرنے اور تبدیلی لانے کے لئے اقدام کرتے ہیں۔ پاکستان انوکھا جمہوری معاشرہ ہے جہاں پابندی اور رائے کو دبا کر قومی مفاد کا تحفظ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تجربہ اور انسانی علم یہ بات ثابت کر چکاہے کہ ایسی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں۔
زیر بحث فلموں میں سے ایک ’عقیدہ والوں کے بیچ‘ Among Believers لال مسجد میں تعلیم پانے والے دو بچوں کے بارے میں ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر محمد علی نقوی نے بتایا ہے کہ یہ فلم پانچ سال کی محنت سے تیار کی گئی ہے اور اب تک 20 ملکوں میں دکھائی گئی ہے اور اسے بارہ ایوارڈ مل چکے ہیں۔ اس فلم میں لال مسجد کے مذہبی بیانیے کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھانے والے لوگوں کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ دوسری فلم کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے بارے میں ہے اور اسے ’ کوئٹہ میں محصور ‘ Besieged in Quetta کا نام دیا گیا ہے۔ اس ڈاکومنٹری میں دہشت گردی کا نشانہ بنے والے خاندانوں کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ فلمساز آصف محمد علی کا کہنا ہے کہ اس فلم میں پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں ہے کیوں کہ ہزارہ لوگ بجائے خود انتہائی حب الوطن ہیں۔
اسلام آباد میں منعقد ہونے والے فیس فلم فیسٹیول کے منتظم اریب اظہر کا کہنا ہے کہ ’ اس پابندی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہم بطور معاشرہ اپنی کمزوریوں کا سامنا کرنے اور ان پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں‘۔
یہ بات عوام کو انتہا پسندی کے خلاف تیار کرنے کے عمل میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ملک میں ملا عبدالعزیز جیسے انتہا پسند اور دہشت گردوں کے حامی لوگوں کو اپنا نقطہ نظر عام کرنے کی مکمل آزادی ہے اور ریاست ان کی حفاظت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتی ہے۔ لیکن ان عناصر کو چیلنج کرنے والی نرم خو آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تو حیرت کی کیا بات ہے کہ لاتعداد قربانیوں اور طویل عرصہ تک دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر رہنے کے باوجود نہ تو ملک محفوظ ہو سکا ہے اور نہ ہی دنیا ہماری کاوشوں کو تسلیم کرنے پر تیار ہوتی ہے۔ ہمارے قول و فعل میں کہیں تو کوئی تضاد موجود ہے جو سماج دشمن عناصر کی قوت بنا ہوا ہے۔ اس تضاد کو دور کئے بغیر کامیابی کا راستہ کھوجنا ممکن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments