ٹی وی توڑ دو، بیوی چھوڑ دو


یہ دس بارہ سال پرانی بات ہے؛ ان دنوں سکونت لاہور میں تھی۔ میں بس میں بیٹھا، ریلوے اسٹیشن کی جانب محو سفر تھا؛ دھرم پورہ اسٹاپ سے مخصوص پگڑیوں والے سوار ہوئے؛ ان کا رہ نما ہاتھ میں پوسٹر اٹھائے صدا لگانے لگا:
”بھائیو اور بہنو! یہ جو ٹیلے ویژن ہے، یہ فحاشی کا ڈبا ہے؛ بے حیائی کی کھڑکی ہے؛ اخلاق کا جنازہ ہے؛ کل فلاں وقت، فلاں میدان میں ٹی وی توڑے جائیں گے؛ آپ بھی اپنے اپنے گھروں سے ٹیلے ویژن سیٹ اٹھا لائیے۔ وغیرہ۔”
میں اپنی جگہ لا تعلق بیٹھا، بس کی کھڑکی سے باہر دیکھتا رہا، کہ ان سے بحث بے کار ہے۔

شومئی قسمت، ایک نوجوان نے ’مشکری‘ کرتے پوچھا۔
”مولوی صاحب، آپ یہ ٹی وی کیوں توڑ رہے ہیں؟“
مولوی صاحب نے غصے سے دیکھا، جیسے کہ ان سے کوئی ناگوار بات پوچھی گئی ہو، حقارت سے بولے۔
”جب تمھاری بہن گھر سے بھاگ جائے گی، تو تمھیں پتا چلے گا، کہ ہم ٹی وی کیوں توڑ رہے ہیں۔“
یہ سنتے ہی بس میں سکوت چھا گیا، جب کہ نوجوان کا چہرہ حیا سے لال پڑ گیا۔ ایسے میں میرے خون نے جوش مارا، تو میں نے ٹوکا۔

”کیوں گم راہ کر رہے ہو، لوگوں کو؟“
ان کے ساتھ کا دوسرا اچھلا۔
”توبہ توبہ توبہ! یہ کیا کہ دیا؟ گم راہ؟“
تیر کمان سے نکل چکا تھا، سو پس پائی ممکن نہ تھی۔
”جب ٹی وی نہیں تھے، تو لڑکیاں گھروں سے نہیں بھاگتی تھیں؟“

میرے سوال پہ، مولانا نے نتھنے پھلاکر مجھے گھورا، پھر کسی مجمع باز کی طرح سواریوں سے مخاطب ہوئے۔
”حدیث میں آیا ہے، کہ جو مسلمان مشرکین کی نقالی کریں گے، روز قیامت خنزیر کی شکل میں اٹھائے جائیں گے۔“
یہاں واضح کرنا ضروری ہے، کہ اس وقت میں نے جینز اور شرٹ پہنی ہوئی تھی؛ یوں مفتی صاحب مجھے مشرکوں کا نقال قرار دے رہے تھے؛ گویا خنزیر۔ میرا اگلا سوال تھا۔
”تو کیا یہ پینٹ شرٹ پہننا مشرکین کی نقالی ہے؟“
ایمان سے لب ریز مولانا نے تیقن سے فرمایا، ”بالکل!“


میں اٹھ کر ان کے قریب چلا گیا؛ ان کے ہاتھ میں پکڑا پوسٹر دیکھ کر کہا۔
”مولوی صاحب! یہ آپ نے جو پوسٹر پرنٹ کروایا ہے، یہ مشرکین کی ایجاد کردہ پرنٹنگ مشین سے نکلا ہے؛ اس کی روشنائی، اس کا کاغذ تک مشرک ممالک سے آتا ہے۔“

مولوی صاحب پہلے تو جزبز ہوے، لیکن جو اتنے پر ہار مان جائے، وہ ملا ہی کیوں کہلائے! برہم ہو کر کہا۔
”لیکن یہ ٹی وی! اس پہ فحش پروگرام چلتے ہیں۔“

میں نے ترنت کہا، ”آپ مت دیکھا کیجیے، ایسے پروگرام۔ اسی ٹی وی پہ نیشنل جیو گرافک چینل ہے، ڈسکوری ہے؛ اسپورٹس چینل ہیں؛ اور تو اور ہر کیبل نیٹ ورک والے نے پہلے دو تین چینل مذہبی چینل کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں؛ آپ قران سنیے!“

بس میں کھسر پھسر شروع ہوئی، تو مجھے حوصلہ ہوا، اب میں نے شرارتی لہجے میں کہا۔
”مولوی صاحب! آپ یہ مت کہیں ٹی وی توڑ دو، بیوی چھوڑ دو۔ آپ کہیے، ٹیلے ویژن کے وہ چینل مت دیکھو، جو فحش پروگرام دکھاتے ہیں؛ تب تو آپ کی بات مناسب ہے۔“


وہ تبلیغ کرنے آئے تھے، تبلیغ سننے نہیں، میری بات میں کہاں تاثیر ہوتی! مولانا صاحب نے پھر راگ چھیڑا۔ ”لیکن یہ ٹی وی مشرک کی ایجاد ہے؛ یہ ایک لعنت ہے، ہمارے معاشرے کے لیے۔“
سانس لے کے دوبارہ فرمانے لگے۔
”جو مشرکین کی نقالی۔۔۔ خنزیر۔۔۔“

میں سمجھ گیا، گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلنے والا؛ اب میں مولانا ہی کی طرح گرجا۔ ”سن جاہل، یہ جو تو نے کپڑے پہنے ہوے ہیں، یہ بھی مشرک کی سلائی مشین پر سلے ہیں؛ سوئی تو تم لوگوں سے بن نہیں سکی۔ یہ تو جس بس پہ سوار ہے، یہ بھی مشرک ہی کے ملک سے آئی ہے؛ اتر نیچے، اور جا بیل گاڑی پہ جا سوار ہو۔ تجھے پتا بھی ہے، یہ بس، یہ جس ایندھن سے چلتی ہے، وہ مسلم ممالک کی زمین سے نکلتا ہے، لیکن سب مشرکین ہی نکالتے ہیں۔ انھی کی ٹیکنالوجی ہے۔“

بوہڑ والا چوک آ چکا تھا؛ اس سے پہلے کہ مومنین صدمے سے سنبھلتے، ٹی وی کا یہ حامی بس سے اترا؛ یہ جا، وہ جا۔

اب اتنے برس بعد یہ دیکھ کر اپنا موقف درست لگتا ہے، کہ انھی پگڑی والے مولویوں کی جماعت نے اپنا ٹی وی چینل لانچ کر دیا ہے۔ میری جو بات ان کوتاہ نظروں کو اس وقت گستاخی دکھائی دیتی تھی، آج ان کے بڑوں کو وہ درست دکھائی دے رہی ہے۔ تبلیغ کرنے والے بھائیوں سے یہی درخواست ہے کہ سوچ کو کچھ وسیع کریں۔ ہر پڑھے لکھے نوجوان کو جو کہ پینٹ شرٹ میں ملبوس ہوتا ہے، اسے خنزیر قرار دیں گے تو وہ ان کی بات کو سنجیدگی سے سننے کی بجائے ان کا تمسخر ہی اڑائے گا۔ کچھ دور اندیشی سے کام لینا مناسب ہوتا ہے۔

اب وہ ملیں تو ان سے پوچھوں کہ کیا اب ان کی جماعت کا چینل دیکھ کر بھی نیک بیبیوں پر وہی اثر ہوتا ہے، جس کے ڈر سے وہ ٹی وی توڑنے کا حکم دے رہے تھے، یا کوئی بہتر معاملہ ہوا ہے؟!
یہ مضمون پہلی بار 15 جولائی 2016ء کو ”ہم سب“ پر شایع ہوا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran