دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں


منطق کا استعمال کرتے ہوئے جب بھی سوچا تو راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں عوامی عہدے کے لئے نا اہلی ناممکن نظر آئی۔ فیصلہ آنے میں لیکن بہت تاخیر ہورہی تھی جو کبھی کبھار دل مضطر میں وسوسوے بٹھادیتی۔ ربّ کا لاکھ بار شکر۔ یہ کالم لکھنے سے پہلے ٹی وی کھولا تو 20مارچ سے محفوظ ہوا فیصلہ سنادیا گیا۔ عمران خان صاحب کے بعد ان کے کئی حوالوں سے سیاسی گرو بھی اب سند یافتہ صادق وامین ہوگئے ہیں۔

اپنے حق میں فیصلے کا اعلان ہونے کے بعد ہمارے صادق وامین ہیرو اپنی روایتی رعونت کے ساتھ ٹی وی کیمروں کے روبرو آئے۔ ”میں آرہا ہوں نواز شریف‘‘ کی للکار سے انہوں نے اپنے خطاب کا آغاز کیا۔ نواز شریف کو ان کی جانب سے للکارنے مجھے ایک لطیفہ یاد دلادیا۔ اس میں ایک طائفہ کا ذکر ہے جسے جنگل میں ڈاکوؤں کا ایک گروہ روک کر لوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان سب نے جس وجہ سے یک آواز ہوکر ”اسی تے ربوں ای لٹے آئے ہاں (خدا نے ہمیں اس دنیا میں لٹاپٹا ہی بھیجا تھا)‘‘ کہا۔ اسے اخبار میں لکھا نہیں جا سکتا۔ بقراطِ عصر کو محض یاد دلانا مقصود ہے کہ نواز شریف سپریم کورٹ کے ہاتھوں کئی ماہ قبل ہی عوامی عہدہ رکھنے کے لئے تاحیات نا اہل قرار دیے جاچکے ہیں۔ اب تو ان کے جیل جانے کا انتظار ہورہا ہے۔ ایسے شخص کو للکارنے سے کیا حاصل؟ شہباز شریف کو ان کی جانب سے خبردار کرنا اگرچہ جائز تھا۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ بقراطِ عصر نے کافی حقارت سے اپنے اس دعوے کو دہرایا کہ وہ نواز شریف کی مانند ”فوجی نرسری‘‘ کی پیداوار نہیں ہیں۔ ”فوجی نرسری‘‘ کے ساخت شدہ سیاست دان لہٰذا ان کے لئے قابل نفرت ٹھہرے۔ یہ نرسری چلانے والوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ ان کے گملے سے مبینہ طور پر نمودار ہوئے سیاست دان بالآخر بقول بقراطِ عصر ”چور لٹیرے اور منی لانڈرر‘‘ہی کیوں ثابت ہوتے ہیں۔

فکرمند ہونے کی ہمیں اب ویسے کوئی ضرورت نہیں۔ اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرلینے کے بعد بقراطِ عصر نے اعلان یہ بھی کیا ہے کہ راولپنڈی کے دو حلقوں سے قلم دوات کے نشان پر قومی اسمبلی کی نشست جیت لینے کے بعد وہ عمران خان صاحب کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ یہ حکومت ”چوروں اور لٹیروں‘‘ کے انتخابی عمل کے ذریعے پارلیمان اور حکومت میں درآنے کو ناممکن بنا دے گی۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں واپس لائی جائے گی۔

میں اگر سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں کے گروہ میں موجود ہوتا تو یہ سوال اٹھانے کی کوشش ضرور کرتا کہ برطانوی پاسپورٹ والے زلفی بخاری سپریم کورٹ کے سندیافتہ صادق اور امین عمران خان اور ان کے پنڈی وال بیرم خان کی حکومت کے وطن عزیز کو ”منی لانڈرز‘‘ سے پاک کرنے میں کس حد تک معاون ثابت ہوں گے۔ میری بدنصیبی کہ عملی رپورٹنگ سے ریٹائر ہوچکا ہوں۔ دل میں آئے سوالات دل ہی میں رہ جاتے ہیں۔ یہ بات مان لینا اگرچہ بتدریج لازمی ہورہا ہے کہ 25جولائی 2018کے دن ہونے والے انتخابات کے لئے تیار کردہ پچ خان صاحب اور ان کے ہم نواؤں کے لئے بے حد فرینڈلی ثابت ہوگی۔ ان کی بنائی حکومت سے لہٰذا خیر کی توقع رکھنا چاہیے۔ کرپشن سے پاک صاف ستھرا پاکستان۔

مسئلہ مجھے صرف یہ ہورہا ہے کہ سپریم کورٹ کے سند یافتہ صادق وامین رہ نماؤں کی ممکنہ حکومت سے کچھ ایسی امیدیں بھی باندھ لی گئی ہیں جن کا برآنا ممکن نہیں۔ مثال کے طورپر گزشتہ چند دنوں سے تحریک انصاف کے کئی دوست خلقِ خدا کو یہ بتارہے ہیں کہ نواز شریف احتساب عدالت سے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت راہِ فرار اختیار کررہے ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ اگر عدالت سے ان کے خلاف لندن میں موجود فلیٹس کی ملکیت کے بارے میں فیصلہ آیا تو شریف خاندان کوسیاسی سے کہیں زیادہ مالی نقصانات ہوں گے۔

عدالتی عمل کے ذریعے اگریہ طے ہوگیا کہ نواز شریف کے بچوں نے لندن والے فلیٹس درحقیقت پاکستان کے قومی خزانے سے بچائی یا وہاں سے چرائی دولت کو کسی نہ کسی طرح برطانیہ بھیج کر آف شور کمپنیوں کی وساطت سے خریدے ہیں تو حکومتِ پاکستان ان فلیٹوں پر حقِ ملکیت کا دعویٰ دائر کرسکتی ہے۔ اس کے حق میں فیصلہ ہوگیا تو ان فلیٹوں کی ملکیت حاصل کرنے کے بعد انہیں نیلام کیا جائے گا۔ نیلامی کے بعد خدا جانے کتنی رقم حاصل ہوگی۔ جتنی بھی ہو خاطر خواہ ہوگی اور ہمارے قومی خزانے میں واپس آگئی تو کم از کم اس سے ایک شاندار ہسپتال یا سکول ضرور تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف جیل میں رہتے ہوئے لہذا بہت ”چالاکی‘‘ سے اینٹھی اور مکاری سے لندن بھیجی دولت کے لٹ جانے پر خود کو سوپیاز اور سو جوتوں والی ذلت کا شکار محسوس کریں گے۔
پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہنے کے بعد ان کا اذیت بھرا زوال ہم سب کے لئے باعث عبرت ہوگا۔ ان کے حشر سے اس ملک کے حکمران اور با اختیارلوگ ناجائز ذرائع سے دولت کمانے سے باز آجائیں گے۔

نواز شریف کا ”عبرت کا نشان‘‘ بن جانا اٹل ہے تو ہم اس ضمن میں ان کے ساتھ محض ہمدردی کا اظہار ہی کرسکتے ہیں۔ ٹھوس حوالوں سے بری خبرمگر یہ ہے کہ چند ماہ قبل برطانوی حکومت نے ایک قانون متعارف کروایا ہے۔ اسے Unexplained Wealth Ordinance کہا جاتا ہے۔ سادہ لفظوں میں اس قانون کے تحت حکومتِ برطانیہ کو یہ حق حاصل ہوگیا ہے کہ وہ آف شور کمپنیوں کی وساطت سے خریدی جائیدادوں کے حقیقی مالکان کا سراغ لگا سکے۔ حقیقی مالکان کی نشاندہی کے بعد ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے مشتبہ ٹھہرائی جائیداد جس سرمائے سے خریدی وہ کیسے جمع ہوا۔

نواز شریف کے بچوں سے منسوب جائیداد کے بارے میں بھی لہٰذا سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں تاہم بُری خبر یہ ہے کہ اگر حسن یا حسین نواز برطانوی حکام کو مطمئن نہ کر پائے تو مذکورہ قانون کے تحت ان کے فلیٹوں کی نیلامی کے بعد حاصل کردہ رقم پاکستانی خزانے میں نہیں بلکہ برطانوی خزانے میں جمع کروائی جائے گی۔ ہمیں اس ضمن میں ایک دھیلہ بھی نہیں ملے گا۔ دُکھ جھلیں بی فاختہ اور کوئے انڈے کھائیں والا معاملہ ہوجائے گا۔ سامراج سامراج ہی رہے گا۔ چت بھی اس کی اورپت بھی اس کی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).