ماسکو میں رمضان کیسے بیتا


2015 میں حسب معمول روزے کے ساتھ دفتر پہنچا اور حسب معمول ہی فشار خون ماپنے کی غرض سے دفتر کے میڈیکل روم پہنچا۔ ڈاکٹر جانتی تھی کہ میرا فشار خون متبدل رہتا ہے۔ ویسے بھی مجھے سفیگمومینومیٹر فوبیا ہے یعنی بازو پر فشار خون ماپنے والے آلہ کا کف باندھتے ہی سانس تیز ہو جاتی ہے، لگتا ہے کہ فشار خون بڑھ چکا۔ ایسا فشار خون دو بار بہت زیادہ ہو جانے کے بعد ہونے لگا ہے۔

ڈاکٹر نے ایک بار، دو بار، تیسری بار چیک کیا تو کہا کہ یہ لو گولی اور کھاؤ۔ ہچکچایا، پوچھا کتنا ہے تو اس نے کہا کہ بہت زیادہ ہے 165/105 تو ناچار گولی کھانی پڑی تھی۔ یوں میں تین برس روزے نہ رکھ پایا تھا اور کفارہ ادا کرتا رہا تھا۔ ستمبر 2016 میں پاکستان گیا تو وہاں مہربان دوست ڈاکٹروں نے تین چار ماہ میں میرے فشار خون پر قابو پا لیا۔ پچھلے رمضان میں بھی خوف کے سبب ہمت نہ ہو سکی لیکن اس بار میں نے ارادہ کر لیا کہ مجھے روزے رکھنے ہوں گے۔ فشار خون قابو میں ہے۔ مسئلہ دوا لینے کا ہے۔ دو طرح کی دوائیں لینی ہوتی ہیں جبکہ ماسکو میں افطار و سحر میں وقفہ بہت کم ہونا ہے، ساڑھے پانچ سے پانچ گھنٹے گا۔

دوا جو دس ساڑھے بجے دن کو لیتا تھا، ماہ رمضان شروع ہونے سے دو ہفتے پیشتر، کے اوقات کو ایک گھنٹہ بڑھاتا رہا اور رات والی دوا کو چار گھنٹے بعد لینا شروع کر دیا غرض رمضان آنے تک دوا کو افطار و سحر کے اوقات کا پابند کر لیا۔ فشار خون باقاعدہ چیک کرتا رہا۔ درست جا رہا تھا۔

ماسکو میں روزے تو کئی برسوں سے رکھ رہا ہوں لیکن تراویح گھر پر ہی پڑھتا تھا۔ روزے نہ بھی رکھے تو بھی تراویح ضرور پڑھی مگر اس بار ارادہ کیا کہ تراویح مسجد میں پڑھوں گا۔ مسجد سے گھر پہنچوں گا تو سحر میں تھوڑا ہی وقت ہوگا یعنی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ چنانچہ سحر کھا کے، نماز فجر اور قرآن پڑھنے کے بعد سو جایا کروں گا۔ خدشہ یہ بھی تھا کہ روشنی ہو جانے سے نیند نہیں آئے گی کیونکہ میری نیند ہمیشہ سے خراب ہے، مکمل اندھیرے اور مکمل خاموشی کی متقاضی ہے۔ نیند نہیں آئے گی تو فشار خون بڑھ جائے گا۔

جس نوجوان نے نماز پھر سے شروع کرنے پر میری حوصلہ افزائی کی تھی اور جو اب ایک کامیاب بزنس میں ہے، کا فون آ گیا۔ اس نے پوچھا کہ آپ کا رمضان کا منصوبہ کیا ہے۔ میں نے اسے ماسکو کی تاریخی مسجد میں تراویح پڑھنے کے ارادے سے آگاہ کیا تو اس نے کہا کہ میں آپ کو وہیں ملا کروں گا۔ یوں کمپنی مل گئی۔ مسجد میں کمپنی کیسی مگر چلو بعد میں تھوڑی گپ شپ ہو جایا کرے گی۔

رمضان شروع ہو گیا۔ پہلی شب تراویح کے لیے گیا تو سب سے پہلے پہنچ گیا چنانچہ قرآن پڑھنے کا آغاز مسجد سے ہی کیا۔ اگلے دن روزہ کھولنے کے فوراً بعد مغرب پڑھ کے کھانا کھانے کے بعد، گڑگڑاتے پیٹ کے ساتھ پچاس منٹ کے انڈرگراؤنڈ ریل گاڑی کے سفر کے بعد آٹھ منٹ پیدل چل کر مسجد پہنچنا بڑا مشکل تھا کیونکہ مسجد کی پہلی صف پر تو ویسے ہی مسجد میں ہی افطار کرکے بیٹھ رہنے والے یا نزدیک رہنے والوں کا قبضہ ہوتا چنانچہ دوسری تیسری صف میں بھی جگہ پانے کی خاطر بھاگم بھاگ پہنچنا تھا۔

مولانا نے تراویح شروع کرنے کے پہلے روز ہی بتا دیا تھا کہ گاڑیوں کے بغیر بہت زیادہ لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ پر دور دور اپنے اپنے گھروں کو جانا ہوگا، بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے سحر بھی تیار کرنا ہوگی اس لیے ہم کم از کم نماز پڑھا کریں گے یعنی جماعت کے ساتھ چار فرض، دو سنت اپنے طور پر، پھر آٹھ رکعت تراویح امام کے پیچھے اور بعد میں تین وتر جماعت کے ساتھ۔ میں نے تو مساجد میں تراویح کا نظارہ پاکستان میں کیا ہوا تھا، جہاں بیس رکعتیں اور قرآن کا کم از کم ایک پارہ پڑھتے ہیں۔

روس کی مسجد میں یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ چھوٹی سورتوں کے ساتھ تراویح پڑھائی جاتی اور چار رکعت کے بعد نشست میں نائب امام کے لحن کے ساتھ لحن ملا کر ”سبحان ذی الملک والملکوت، سبحان ذی العزت والعظمت والقدرت والکبریا والجبروت، سبحان الملک الحی الذی لا یموت، سبوح القدوس الرب الملائکۃ والروح، سبحان ذی الملک والملکوت، سبحان ذی العزت والعظمت والقدرت والکبریا والجبروت، سبحان الملک الحی الذی لا یموت، سبوح القدوس الرب الملائکۃ والروح، لا الہ الاللہ و نستغفراللہ، نسئلک الجنۃ و نعوذ بک من النّار“ کا ورد کیا جاتا۔ شروع میں تو یہ دعا آتی نہیں تھی لیکن دو ہفتوں میں غلطیاں کر کر کے یاد ہو ہی گئی۔ یقین جانیں ایک خاص لحن سے حال میں موجود سات آٹھ سو لوگوں کا پڑھنا ( باقی نمازی مسجد کے تہہ خانوں میں یا مسجد سے باہر احاطے میں ہوتے تھے ) بہت پرکیف اور سکون پرور ہوتا تھا۔

چونکہ ماسکو میں مساجد کم ہیں اس لیے ہر مسلک کے لوگ ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں یعنی حنفی، شافعی، اہل حدیث وغیرہ۔ ہر ایک کے ہاتھ باندھنے کا انداز الگ الگ۔ بیشتر الحمد کے اختتام پر بآواز بلند ”آمین“ پکاریں تو کچھ خاموشی سے۔ کوئی ناف پر ہاتھ باندھے کھڑا ہے، کوئی سینے پر تو کسی نے بایاں ہاتھ دل پر رکھ کے اس پر دایاں ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ کوئی ٹانگیں کھول کے کھڑا ہے تو کوئی مناسب انداز میں۔ کوئی امام کے پیچھے چپکے چپکے سورہ فاتحہ پڑھ رہا ہے تو کوئی سورہ فاتحہ کے بعد بھی امام کی پڑھی سورت نہیں سن رہا بلکہ اپنے منہ میں کوئی سورت پڑھ رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ماسکو میں صرف تاتار ہوتے تھے یا کسی حد تک قفقاز کے لوگ یعنی چیچن، انگوش، بشکیر وغیرہ مگر اب نمازیوں کی کثیر تعداد وسط ایشیا سے محنت مزدوری کی غرض سے ماسکو آئے نوجوان لوگوں کی ہے جن میں زیادہ تاجک ہیں اور پھر ازبک اور کرغیز۔ نوجوان ہیں، مذہب کے بارے میں جوشیلے اور با اصول ہیں۔ مسجد میں معمر افراد کی تعداد بہت ہی کم ہوتی تھی۔

مسجد کے احاطے کے باہر ایک بہت بڑا خیمہ نصب کیا گیا تھا جس میں روزانہ کم از کم پانچ سو افراد کے افطار اور کھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا۔ 26۔ 27 کی درمیانی رات چونکہ بہت سے لوگوں کو مسجد میں ہی گذارنی تھی چنانچہ اس رات سحر کا بندوبست بھی کیے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس مسجد میں صرف میں اور جواد دو ہی پاکستانی تراویح پڑھتے تھے۔ باثروت جواد نے خواہش ظاہر کی کہ وہ پانچ سو افراد کی سحری کروانا چاہتا ہے۔ ہم مسجد کے احاطے میں موجود آئمہ کے دفاتر والی عمارت میں جا کر پہلے چھوٹے امام کے پاس گئے جس نے اس سلسلے میں بڑے امام سے رجوع کرنے کو کہا جو سامنے والے کمرے میں کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے 100 روبل فی شخص کی شرح بتائی اور اگلے روز جواد رحمان سلہریہ نے ایک لفافے میں رقم (تقریباً ایک لاکھ پاکستانی روپوں کے مساوی) مولوی صاحب کو پیش کر دی۔

جواد نے مجھے اگلے روز فون پر بتایا کہ وہ پکوڑے، پراٹھے اور چائے ساتھ لائے گا۔ میں نے کہا کہ سحر کا بندوبست تو تم نے کروایا ہی ہے تو اس نے کہا پھر بھی میں لاؤں گا۔ چنانچہ شب قدر کو پہلے عبادت کا عمومی سلسلہ رہا۔ بڑے امام پہلے ہی بتا چکے تھے کہ جو لوگ ٹھہر جائیں گے وہ آج بارہ مزید رکعتیں بھی جماعت کے ساتھ پڑھیں گے۔ پہلے سلسلے کے بعد آدھ گھنٹے کا وقفہ دیا گیا اور پھر سے تراویح شروع کر دی گئیں۔ یہاں نماز کے بعد مصافحے کا سلسلہ ہوتا ہے کہ مسجد کی انتظامیہ یعنی تینوں چاروں آئمہ اور کچھ لوگ ایک قوس کی صورت میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور باقی لوگ مصافحہ کرنا شروع کرتے ہیں اور ایک دائرے کی صورت میں چلتے ہوئے پہلے سے کھڑے پہلے شخص کے ساتھ جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کرتے کرتے ایک بڑا دائرہ بن جاتا ہے۔ کچھ لوگ دائرے کے پیچھے کھڑے رہتے ہیں۔ پھر دعا کروائی جاتی ہے اور لوگ چھٹ جاتے ہیں۔

اس قسم کے سلسلے میں آگے بیٹھے ہونے کے سبب میں اور جواد بھی پچاسیوں لوگوں کا مصافحہ وصول کرنے والوں میں تھے۔ دائرے کے پیچھے کھڑا پی ٹی آئی کا سرگرم کارکن اور سرجن ڈاکٹر ابرار خان بھہ ہمیں کھڑا دکھائی دے گیا تھا۔ پہلے ہم تینوں جواد کی گاڑی تک گئے اور واپس آ کر خیمے میں چلے گئے جہاں کوئی نشست خالی نہیں تھی۔ انتظام بہت منظم تھا۔ داخل ہوتے وقت باہر کھڑا ایک شخص ہر ایک کو ایک ڈسپوزیبل پیالہ دے دیتا تھا، خیمے کے آخری حصے میں علیحدہ جگہ پر دھرے دیگچوں سے قطار میں چلتے لوگوں کے پیالوں میں دو افراد گرما گرم ازبک پلاؤ ڈال دیتے اور تیسرا شخص روغنی روٹی کا ایک چوتھائی پیالے پر دھر دیتا۔ کچھ رضاکار میزوں پر پانی کی بوتلیں اور ایرانی کھجوروں کے ڈبے دھرتے جاتے۔

کچھ لوگوں کے فارغ ہونے کے بعد ہم تینوں کو بھی جگہ مل گئی تھی۔ جواد کے لائے پکوڑے ٹھنڈے ہو چکے تھے، پراٹھے ٹھنڈ سے اکڑ گئے تھے۔ تھرموس میں چائے البتہ گرم تھی اور مزیدار۔ ہم نے الم غلم کھا تھوڑی بہت سحری کی، چائے کا مزہ لیا اور نماز کے بعد جواد کی گاڑی میں گھر جانے سے پہلے سوتا ہوا مرکز دیکھتے گئے۔ اگلے روز جواد نے فون کیا اور کہا کہ آج تو تراویح نہیں ہوگی نا صرف عشاء کی نماز ہوگی۔ میں نے بتایا بھائی 29 رمضان تک تروایح پڑھی جائیں گی۔ چنانچہ ہم نے کل آخری تراویح پڑھ لیں اور رمضان بھی شام کو تمام ہو جائے گا۔
میری طرف سے سب قارئین کو پیشگی عید مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).