’مسئلہ کشمیر کا حل تشدد کے سلسلے کو بند کر کے معنی خیز مذاکرات کے عمل سے حل ہو سکتا ہے‘


لائن آف کنٹرول

Hindustan Times

اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ کشمیر کے متنازع خطے سے متعلق تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر تشدد کے سلسلے کو بند کر کے معنی خیز مذاکرات کے عمل سے حل ہو سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ میں پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں سے اپیل کی گئی ہے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرکے انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکا جائے اور اظہار رائے اور مذہب کی آزادی کو بحال کیا جائے۔

لاپتہ انڈین فوجی کا ’حزب المجاہدین‘ میں شمولیت کا امکان

ایک ماہ میں دوسرا واقعہ: جیپ نے کشمیریوں کو روند ڈالا

پاکستان اور انڈیا کا ایل او سی پر فائر بندی پر اتفاق

انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر زید رادالحسین نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے بارے میں جامع بین الاقوامی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے پر غور کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے زیر انتظام دونوں کشمیر میں ماضی میں اور موجودہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ ہو اور تمام لوگوں کو انصاف مہیا کیا جائے جو گذشتہ سات دہائیوں سے اس تنازعے کا سامنا کر رہے ہیں جس نے علاقے کے لوگوں کی زندگیوں کو برباد کر دیا ہے۔

جمعرات کو جاری ہونے والی اس انچاس صفحات پر مشتمل رپورٹ میں زید رادالحسین کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدسلوکی اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں پر سزائیں نہ دینے کی دائمی صورت حال ہے جس پر رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

کمشیر

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انڈیا سے کہا گیا ہے کہ گذشتہ 30 برس کے دوران فوج یا مسلح شدت پسندوں کے ہاتھوں جو ہلاکتیں ہوئی ہیں ان کی ازسرنو تحقیقات کی جائیں اور قتل اور حقوق کی دیگر پامالیوں میں ملوث فوجی و نیم فوجی اہلکاروں کے مقامی مواخذہ میں حائل فوجی قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔

رپورٹ میں کشمیری بولنے والے اقلیتی ہندوؤں کے اُن 62 ہزار خاندانوں کا بھی ذکر ہے جو 30 سال قبل کشمیر میں مسلح شورش شروع ہوتے ہی وادی چھوڑ کر انڈیا کے دیگر حصوں میں آباد ہوگئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق 2016 کے گرما میں مسلح رہنما برہان وانی کی ہلاکت سے 2018 کے مارچ تک 130 سے 145 کشمیری مظاہرین فورسز کی کارروائیوں میں مارے گئے۔ رپورٹ میں سکیورٹی آپریشنز کے دوران مارے گئے افراد یا رہائشی مکان کھونے والے افراد کو معاوضہ دینے کی اپیل کی گئی ہے۔

رپورٹ میں مسلح شدت پسند گروپوں پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے چھٹی پر گئے فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کا قتل کیا اور کئی ہندنواز سیاسی کارکنوں پر حملے کئے۔ رپورٹ نے میڈیا رپورٹوں، سول سوسائیٹی کے اعداد و شمار اور حکومت ہند کے اعترافات کو بنیاد بنا کر دعوی کیا ہے کہ گزشتہ برس کے دوران سولہ عام شہری بھی مختلف فوجی کاروائیوں میں مارے گئے۔ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سرحدوں پر جاری کشیدگی پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

رپورٹ سے متعلق یہاں کے علیحدگی پسندوں اور انسانی حقوق کے اداروں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ تاہم حکومت ہند کی وزارت خارجہ نے اسے “جھوٹ کا پلندہ” قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے ایک ٹویٹ کے ذریعہ کہا ہے کہ “یہ رپورٹ خاص مفاد کو زیرنظر رکھ کر تیار کی گئی ہے اور اس کی صداقت اور غیرجانبداری پر ہم سوال اُٹھا رہے ہیں۔”

کشمیر

رپورٹ کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سنہ 2016 سے مظاہرین کے خلاف استعمال کیا جانے والا سب سے مہلک ہتھیار پیلٹ گن ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سے جولائی 2016 سے اگست 2017 کے درمیان سترہ افراد ہلاک ہوئے جبکہ چھ ہزار سے زائد زخمی بھی ہوئے۔


اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کو کشمیری حلقوں نےاطمینان بخش قرار دیا ہے جبکہ بھارت کی وزارت خارجہ نے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر وفاقی غلبہ

پاکستانی زیرانتظام کشمیر کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہاں کی مقامی انتظامیہ پر وفاقی حکمرانوں کا غلبہ ہے اور احمدیہ فرقے سے تعلق رکھنے والے کشمیریوں کو توہین مذہب قانون کی آڑ میں ہراساں کیا جارہا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی جانچ پڑتال کی گئی ہے جو، اس رپورٹ کے مطابق مختلف نوعیت اور شدت کی ہیں۔ اس کے علاوہ، رپورٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی اظہار، پرامن اجتماعات اور شمولیت کی آزادی پر پابندی اور حال ہی میں کشمیر اور گلگت بلتستان میں صورتحال کی وجہ سے محدود معلومات حاصل کرسکیں ہیں۔

رپورٹ میں نمایاں کیے جانے والے مسائل میں پاکستان کے پاس ان دو “علاقوں” کی آئینی حیثیت بھی شامل ہے۔ پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں اس کے زیر انتظام کشمیر پر موثر طریقے سے کنٹرول رکھا ہے۔ پاکستان نے گلگت بلتستان میں بھی وفاقی حکام کے ذریعے مکمل کنٹرول کیا ہوا ہے، اور وفاقی انٹیلی جنس اداروں کو دونوں علاقوں میں تعینات کیا جاتا رہا ہے۔.

کشمیر

انسانی حقوق پر پاکستانی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے اثرات اس رپورٹ میں بیان کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیٹی کی “انسداد دہشت گردی کے قانون میں رکھی دہشت گردی کی انتہائی وسیع تعریف” پر تشویش بھی ظاہر کی گئی ہے۔ رپورٹ نے ایک مقتدر غیرسرکاری تنظیم کے حوالے سے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں سینکڑوں افراد کو قید کیا گیا ہے، اور یہ قانون مقامی لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔


پاکستان کے دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کمیشن بنانے کا خیرمقدم کیا ہے۔

تاہم دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے خدشات کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کے برابر نہیں کہا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp