نیم روشن شراب خانہ، حلال گوشت اور پاکستان


حلال گوشت کی دوکان پر اسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔

ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے کہ بلوھیون پب، میں وہ مختصر ترین لباس میں ناچ رہی تھی۔ مجھے اچھی بھی لگی اور نشے میں نہ جانے کتنے ڈالر میں نے اس کے پین ٹیز اور برا کے اندر اپنے ہاتھوں سے ٹھونسے تھے۔

بالکل وہی تھی۔ مجھے اس کی شکل صرف اس لئے یاد رہ گئی کہ اس کے سرخ سلگتے ہوئے ہونٹوں کے بائیں جانب ایک بڑا سا کالا سیاہ تِل تھا جس نے اس کی شکل کو غضب کی جاذبیت دے دی تھی جس کی وجہ سے سیکس اپیل جیسے بلبلا کر اُس کے تن و بدن، جسم و جاں پر اُبل رہی تھی، میں تو یہی سمجھا تھا کہ یہ مصنوعی بنایا گیا ہے مگر ایک دفعہ اس کے برا میں ڈالر ٹھونستے ہوئے ہاتھ کو لہراتے ہوئے میں نے اس کے تِل کو بھی چھولیا تھا۔ نہیں، وہ کاجل سے بنایا ہوا مصنوعی تِل نہیں تھا۔

کلب میں مختلف رنگوں کی روشنی کی پھوار میں میں نے اسے امریکن سمجھا مگر اس دن حلال گوشت کی دوکان میں اسے دیکھ کر حیران ہوگیا۔ اس کی نظریں میری نظروں سے ٹکرائی تھیں مگر میں نے اس کی آنکھوں میں کسی بھی قسم کی شناسائی کی جھلک نہیں دیکھی۔ اس کا سامان بڑے سے کیریز بیگ میں تیار تھاجسے اٹھا کر وہ اپنے میکسی ٹائپ کے کپڑوں میں ملبوس دروازے سے باہر نکل گئی۔ میں اس کے پیچھے پیچھے گیا۔ وہ سیڑھی اتر کر روڈ تک پہنچی تو روڈ پر ہی فٹ پاتھ کے ساتھ ایک گاڑی آ کر رکی، جسے ایک اور لڑکی چلا رہی تھی وہ اس گاڑی میں بیٹھ کر نکل گئی تھی۔

میں سوچتا رہ گیا۔ وہ یہاں کیا کررہی تھی حلال گوشت کی دوکان میں۔ میں تو اسے امریکن سمجھا تھا۔ امریکنوں کی ہی طرح کا جسم تھا اس کا۔ سرخ وسفید مختلف قسم کے میک اپ کے ساتھ وہ کوئی امریکن ہی لگتی تھی۔ ایک ایسی امریکن لڑکی جو شراب خانے میں ناچتی ہو۔ اس کا حلال گوشت کی دوکان پر کیا کام؟

دوسری رات میں پھر بلوھیون پب پہنچ گیا۔ امریکہ میں جسم کا کاروبار بھی دوسرے ہر طرح کے کاروبار کی طرح بہت منظم ہے۔ عام پب تو وہ ہوتے ہیں جہاں جاکر شراب پی جاتی ہے اور مختلف قسم کی چیزیں بھی کھائی جاسکتی ہیں۔ سینڈوچ بھی مل جاتے ہیں۔ برگر کا بھی انتظام ہوتا ہے اور مونگ پھلی کے ساتھ دوسرے قسم کے میوہ جات بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہاں دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ مل کر شراب پی جاسکتی ہے ہر قسم کا بیئر، وھسکی، وائن وغیرہ ملتے ہیں۔ اگر کسی کو شراب نہیں پینا ہے تو بے نشہ مشروبات کے ساتھ کافی اور چائے کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ بعض پبز میں موسیقی بھی ہوتی ہے، ایک آدھ فنکار فن کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں، جن سے محظوظ ہوا جاسکتا ہے۔ یہاں لوگ وقت گزارنے اور معمول کی شراب نوشی کے لئے آتے ہیں۔

دوسرے قسم کے پب وہ ہوتے ہیں جہاں مختصر ترین لباس میں لڑکیاں ٹیبلوں پر ہی مختلف قسم کی شراب لاکر دیتی ہیں ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ شراب پلائیں جس کی فروخت میں ان کا بھی حصہ ہوتا ہے بخشش کے طور پر ڈالر کے نوٹ ان کے پینٹیزاور برا میں اُڑسے جا سکتے ہیں اس سے آگے جانا مناسب نہیں سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر اس سے آگے کوئی جاتا بھی نہیں ہے۔

تیسرے پب وہ ہوتے ہیں جہاں ٹاپ لس لڑکیاں مستقل ناچتی رہتی ہیں۔ ٹاپ لیس لڑکیاں وہ ہوتی ہیں جنہوں نے چھاتیوں کو ڈھانپا ہوا نہیں ہوتا ہے، یعنی بغیر کسی قسم کے بریزر کے ہوتی ہیں۔ ایک اونچے سے اسٹیج پر ایک لمبے سے گول کھمبے کے چاروں طرف ناچتے ناچتے گاہکوں کی ٹیبل کے گرد آکر تھرکتی ہیں، ان کی گود میں بیٹھ جاتی ہیں، انہیں چوم بھی لیتی ہیں اور ان تمام کاموں کی اجرت بخشش کی صورت میں انہیں دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ مساج سینٹر ہوتے ہیں جہاں شراب بھی ملتی ہے اور مساج بھی کرایا جاسکتا ہے۔ یہ مساج لڑکیاں جسم کے ہر حصے پر کرتی ہیں ان سے سودا بازی کرکے انہیں دوسرے کمروں میں لے جا کر جنسی کاروبار بھی کیا جاسکتا ہے، زیادہ رقم کی ادائیگی کی صورت میں انہیں اپنی پسند کی جگہوں پر بھی لے جایا جاسکتا ہے۔ ہر جگہ کے اپنے اصول ہیں اور ہر ایک کی الگ قیمت۔

میں گیا تو ان سب جگہوں پر تھا مگر نہ جانے کیوں میں نے اپنے آپ کو دوسرے قسم کے کلبوں تک محدود کرلیا تھا۔ میری عیاشی کی انتہا یہی تھی کہ ہفتے میں ایک دو دن وہاں کسی قریبی دوست کے ساتھ جا کرشراب سے لطف اندوز ہوں۔ خوبصورت عورتوں کے خوبصورت جسموں سے نکلنے والی قوس وقزح کی روشنیوں سے محظوظ ہوں۔ قدرت کی شان کو جسم کے زاویوں سے ناپوں اور محنت سے کمائے ہوئے ڈالروں کو ان پر نثار کروں۔ ناجانے کیوں اس میں کیا لطف تھا مگر تھا کچھ کہ میں ایک اسیر کی طرح اس قسم کے کلبوں میں جاتا رہتا تھا۔

اس دن بھی وہ بلیوہون پب میں جگمگا رہی تھی۔ وہی خوبصورت جسم، جس پر اس نے سرخ رنگ کی پینٹی اور سرخ رنگ کا برا پہنا ہوا تھا۔ سیاہ آنکھیں سرخ وسفید چہرہ اور اس پر لپ اسٹک سے رنگے ہوئے سرخ ہونٹ جن پر کالے رنگ کا ابھرا ہوا تِل۔ میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا وہ قیامت ڈھارہی تھی، لڑکی وہی تھی مگر اس دن سے مختلف جب میں نے اسے حلال گوشت کی دوکان میں دیکھا تھا۔

میں نے اُسے اشارے سے بلایا اور اپنی پسند کی بیئر لانے کے لئے کہا۔ اس کی آنکھوں اور چہرے پر کسی بھی قسم کی شناخت کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ اس نے خوش اسلوبی سے شراب لاکر ٹیبل پر رکھا ایک ادا سے مجھے دیکھا اور میں نے اس ادا کی قیمت کے طور پر کچھ ڈالر اس کے برا میں ٹھونس دیئے تھے۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4