احترام یا منافقت


عمران خان کے ننگے پاوں مدینہ میں جہاز سے اترے پہ آپ کی منصفانہ رائے کیا ہے ؟ کیا یہ احترام کا تقاضا ہے یا پھر ایک نئے ٹرینڈ کی بنیاد رکھی گئی ہے؟ میں نے سنا ہے کہ خلیفہ عمر فاروق رض مدینہ میں ہمیشہ ننگے پاوں گھومتے تھے۔

یہ مدینہ منورہ سے عقیدت بھی ہو سکتی ہے اس سے پہلے کئی عظیم ہستیوں نے کبھی مکہ مکرمہ اور کبھی مدینہ منورہ میں جوتے نہیں پہنے۔

جواب: جی امام مالک حجاز میں ہمیشہ ننگے پاوں گھومے ان کے علاوہ کبھی کسی نے ایسا نہیں کیا۔وہ فقہ اور علم قانون کے عظیم عالم تھے۔تاہم ان کے بغیر جوتوں کے سفر سے کوئی قانون متاثر نہیں ہوا۔55 ملین سعودی شہری اور 30 ملین زائرین ایسا شاز ہی کرتے ہیں کہ ننگے پاوں چلیں۔اور اگر وہ ایسا کریں بھی تو وہ اس کو مشہور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔

اگر میں صاف گوئی سے کہوں تو نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔

اب حقائق اور تارخ کی جانب آتے ہیں۔زندگی تبدیلی کا نام ہے ہم سب اپنا ماضی چھوڑ دیتے ہیں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کی عزت یا احترام پہ حملہ کرے۔میں دل سے عمران خان کی اس تبدیلی کو سراہتا ہوں لیکن اس سے پہلے جو چند گھنٹوں میں ہوا وہ اس سارے عمل کے منافی اس میں ہر قانون توڑا گیا۔اس دوران ہونے والے یو ٹرنز اور قول کے متضاداعمال نے مجھے الجھا دیا ہے ۔

نبی پاک ص مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں کانٹوں ، اور عرب کی دھول اور گرمی سے بچنے کے لیے نعلین پہنا کرتے تھے۔

عمران خان کا ننگے پاوں ہونا عاجزی اور احترام کی علامت ہے لیکن ذرا غور سے ان کے بے لگام قانون کی خالف ورزی والے رویے کو دیکھیے۔

نزار قبانی ایسے موقع پرست راہنماوں کے بارے میں لکھتے ہیں :

پیغمبروں کے جنازوں کے پیچھے چلتے ہوئے،

یہ اپنے چوغوں میں قاتل خنجر چھپائے ہوئے ہیں

نہیں۔

پہلی بات یہ کہ عمر فاروق رض کسی کے لیے بھی قاضی پہ تین گھنٹے دباو ڈال کر قانون نہیں توڑتے ۔

دوسری بات یہ کہ آپ رض کسی کے اونٹ لے کے حج یا عمرہ پہ نہیں جاتے۔

یہ تصویر لینے کا مقصد عوام میں یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ عمران خان کو اس سر زمین سے بے تحاشا عقیدت ہے جس پہ پیغمبر پاک ص چلے ۔

پیغمبر ص قانون بنانے والے ہیں۔آپ ص کبھی بھی کسی قانون کی خلاف ورزی کرتے اور نہ ہی قاضی کے فیصلے کے خلاف جاتے۔اب دیکھیے سرزمین پاک جانے سے پہلے جہاں عمران خان ننگے پاوں اترے جانے سے پہلے انہوں نے کیا کیا۔

یہ ننگے پاوں کی تصویر جسے سستی شہرت کے لیے بنایا گیا ہے۔ان کے پرائیوٹ جہاز کی تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد کی ہے تاکہ زلفی بخاری کو نیب کی طرف سے طیارے سے اترنے سے روکا جا سکے۔

زلفی سے نیب نے کئی بار اس کی آفشور کمپنیوں کے متعلق پوچھا۔اس نے ہر سمن کی خلاف ورزی کی اور عدالت کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا۔عمران کہتے ہیں ان کا اصول وہی ہے جو قانون کا اصول ہے تاہم ثابت یہ کیا’میرا اپنا قانون ہے’یہ خطرناک بات ہے کسی کو بھی اپنے وطن کے قانون کی ایسے دھجیاں اڑانے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے جیسے کل انہوں نے اڑائی

نواز شریف عدالت میں ہر سماعت پہ حاضر ہوئے لیکن ان کے ساتھی زلفی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اود اس کی پشت پناہی کی گئی۔یہ عدل کے راستے کی رکاوٹ کی بڑی مثال ہے۔

کیا خلیفہ عمر رض ایسے شخص کی پشت پناہی کرتے جو قاضی کے سمن کو کئی بار نظر انداز کرے؟

یہاں ایمانداری کہاں ہے ؟ یہاں قانون کہاں ہے؟ یہاں عظیم لوگوں کا احترام کہاں گیا؟

کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے

آپ سے سے عظیم قانون ساز کی سر زمین پہ اپنے وطن کا قانون توڑ کر نہیں جا سکتے۔اصول دیکھیے کہ ایک طرف تو ایک ایسے شخص کو جس کی بیوی تیزی سے پھیلتے ہوئے کینسر سے مر رہی ہے اسے اس کی اجازت نہیں دیتے اور دوسری طرف وہ ایسے شخص کو اس کی اجازت دیتے ہیں جو ہر نوٹس کو نظر انداز کر کے عدالت کے سامنے حاضر ہونے سے انکار کرتا ہے ۔وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا نامک ای ایل سی میں ہے ائیرپورٹ پہ پہنچتا ہے۔اسے لینڈ کرنے سے روکا جاتا ہے وہ واپس جاتا ہے۔کیاکسی اور کو ایسا کرنے کی اجازت ہے ؟

عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سب کو کیا پیغام دے رہی ہیں ؟ اتنی جانبداری کیوں؟آپ ایک ایسے گھوڑے کو بھگانے کی کوشش کر رہے ہیں جسے آپ نے لنگڑاتے ہوئے دیکھا ہے۔

کیا یہ واضح اشارہ نہیں کہ وہ سب کا لاڈلا ہے اور اسے ووٹ دیا جائے۔ہر باضمیر شخص یہی سوال پوچھے گا۔ایسے ظلم و جبر کو انکار کیا جائے۔ایسے نہیں چلے گا۔ہر کوئی جو نواز شریف کے مخالف ہے وہ شاک میں اس ڈرامے کو دیکھ رہا ہے۔

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

یو ایس کی عدالت حضرت محمد ص کو دنیا کے 18 سب سے بڑے قانون دانوں میں شامل کیا ہے اس فہرست میں حضرت موسی ع ،کنفیشوس شامل ہیں ۔یہ تختی 1930 کے ابتدائی سالوں میں لگائی گئی۔

جب میں حال ہی میں واشنگٹن ڈی سی میں تھا تو میں  سپریم کورٹ گیا کہ وہ دو تختیاں دیکھ سکوں جن پہ نبی پاک ص کے قانون اور اسلامی تعلیمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔

کل پول سے پہلے ایک دھاندلی کا انداز تھا جس کا پیغام تھا:

اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ سے منسلک ہر شخص میری جیب میں ہے اس لیے اس نے اس سے بڑے قانون ساز کی سرزمین پہ حاضر ہونے سے پہلے اپنی سر زمین کے قانون کی دھجیاں بکھیر دی۔

یہ احترام کا انداز اپنی جگہ لیکن قانون کے احترام کو اہمیت دیجیے۔یہ نامناسب ہے کہ آپ اپنے جوتے تو ہاتھ میں اٹھا لیں لیکن کسی کی کرپشن سے کمائی گئی رقم کو اپنے استعمال میں لائیں اور وطن کے قانون کو توڑیں یہ کھلی منافقت ہے۔

مختصرا یہ کہ

پہلی بات اس یہ نجی دورہ جس کے لیے کسی اور نے خرچ کیا ایک خلیفہ ایسا نہیں کر سکتا۔انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ مستقبل کے ممکنہ حکمرانوں اس قسم کا فائدہ لیں کیونکہ کل کو یہ لوٹانا بھی پڑے گی۔

دوسری بات انہوں نے زلفی بخاری کو ای سی ایل سے نکالنے کے لیے تین گھنٹے کے لیے اپنے وطن کے ہر قانون کو توڑ دیا۔

ایسی جگہ جہاں 159 ملین لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں وہاں اس ثروت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

عمر فاروق رض کسی کے خرچ پہ کبھی عمرہ یا حج نہ کرتے

یہ مثاق مدینہ کا اطلاق نہیں ہے جیسا کہ اسے ظاہر کیا گیا۔اس میں منافقت واضح ہے جو بہت ہی بری ہے۔

جتنا میں اس انداز کا احترام کرتا ہوں ۔مجھے یہ بھی تسلیم کرنا ہے کہ صرف یہی کافی نہیں ہے ۔کیا یہ واقعی اس نعرے کی پیروی ہے کہ حضرت فاروق رض کے طرز حکومت کی پیروی کی جائے گی؟ لیکن رویے سے واضح ہے کہ عمران خان نے خود کو قانون سے مبرا سمجھا ہے۔اور یہ رویہ قانون دینے والے کے احترام کی خلاف ورزی ہے۔صرف مٹی کا احترام کافی نہیں بلکہ پیغمبر ص کے اعلی پیغام کی پیروی ضروری ہے ۔ترجیحات کا غلط اندازپہ رکھنا قابل مذمت فعل ہے۔

(ترجمہ ثنا بتول)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).