گدھوں کی ایک حکایت


بچے اپنے ساتھ تحفے اور کھانے پینے کی چیزیں لے کر آتے اور سب کچھ سیانے گدھے کو پیش کرتے۔ کوئی اس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالتا تو کویٴ مٹھای کھلاتا اور خوشبو لگاتا۔ سیانا گدھا اپنے ساتھیوں کا بہت خیال رکھتا اور کھانے پینے کی ساری چیزیں ان میں تقسیم کردیتا۔ کرتے کرتے ان منظم گدھوں کی شہرت آس پاس کے دیہاتوں میں بھی پھیل گی اور دوسرے گاؤں والے بھی ان کا مارچ دیکھنے آنا شروع ہوگیے۔ کبھی کبھی دوسرے گاؤں کے گدھے وہاں آتے تو اپنے ہم نسلوں کو رشک بھری نظروں سے دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے۔ کئی بار تو دوسرے گاؤں کے گدھے واپس جانے سے ہی انکاری ہوجاتے اور ان کے مالکان کو انہیں زبردستی ٹریکٹرٹرالی پہ بٹھا کر واپس لے جانا پڑتا۔ گدھوں کو یوں ٹریکٹرٹرالی پہ بیٹھے دیکھ کر کیٴ بوڑھے بابے جنہوں نے ساری عمر گدھوں کو وزن ڈھوتے دیکھا تھا ان نئی نسل کے گدھوں کی قسمت پر رشک کرتے کہ جو اب خود وزن ڈھونے والی مشینوں پر بیٹھ کر سفر کرتے تھے جو کہ پرانی نسل کے ان بڈھے بابوں کو ابھی تک نصیب نہیں ہوا تھا۔

سیانے گدھے کا ایک ساتھی جو اس کے پاس ہی کھڑا ہوتا تھا روزانہ دیکھتا کہ گاؤں کے بچے اس رہنما گدھے کو اتنا کچھ دیتے ہیں جبکہ اس کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا۔ پھر ایک بار سیانا گدھا کچھ دنوں کے لئے بیمار پڑگیا تو اس نے اپنے اس ساتھی کو ذمہ داری دی کہ وہ کچھ دنوں کے لئے مارچ اور ڈھینچک ڈھینچک کی تربیت کراے۔ بچوں نے اس تبدیلی پر دھیان نہیں دیا اور وہ پہلے کی طرح کھانے پینے کی چیزیں اور پھول تحفے وغیرہ لا کر اس گدھے پر نچھاور کرتے رہے۔ نائب گدھے نے کئی دن تک ان تحفوں کے مزے لیے۔ پھر جب سیانا گدھا صحتمند ہوکر واپس لوٹا تو اسے مجبوراً واپس اپنی جگہ پہ جانا پڑا۔ پر جو مزے اس نے کچھ دن کیے تھے وہ بھولتے نہیں تھے۔ کچھ ہی دنوں میں اس نے چند دوسرے گدھوں کو اپنے ساتھ ملا کر نیا گروپ بنا لیا اور اپنے گروپ کو گدھوں کے بڑے گروپ سے علیحدہ کرلیا۔ گاؤں والوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اس نے اپنے گروپ کے مارچ کا وقت بھی علیحدہ کرلیا۔ شروع شروع میں گاؤں والوں نے اس دوسرے گروپ کی طرف خاص توجہ نہیں دی۔ لہذا گدھوں کے نیے گروپ نے گاؤں والوں کو متوجہ کرنے کے لئے اپنے مارچ کا انداز تبدیل کرلیا اور آگے کو جانے کی بجاے وہ پیچھے کو چلنا شروع ہوگیے۔اسی طرح ڈھینچک ڈھینچک کی بجاےٴ انہوں نے ڈھانچک ڈھانچک کا راگ آلاپنا شروع کردیا۔ کچھ بچوں نے ان گدھوں کے انداز سے متاثر ہوکر ان کا مارچ بھی دیکھنا شروع کردیا۔ تھوڑے دنوں کے اندر گاؤں والوں نے ان گدھوں کو بھی اچھے اچھے کھانے کھلانے شروع کردیے اور انہیں ایک علیحدہ پارک دے دیا تاکہ وہ اپنے مختلف طریقے سے وہاں پر مارچ کرسکیں۔

ان دو گروپوں کی دیکھا دیکھی کچھ دوسرے چالاک گدھوں نے بھی اپنے علیحدہ گروپ بنا لیے اور یوں گاؤں میں گدھوں کے کئی گروپ بن گیے۔ پہلے دو گروپوں سے خود کو ممتاز کرنے کے لئے تیسرے گروپ نے ایک نیے انداز کا مارچ متعارف کرادیا۔ وہ سیدھے آگے جانے یا پیچے ہٹنے کی بجاےٴ دو قدم آگے بڑھاتے اور ایک قدم پیچھے لے جاتے۔ ان گدھوں نے ڈھینچک ڈھینچک اور ڈھانچک ڈھانچک دونوں کو مسترد کرکے ڈھونچک ڈھونچک کی آواز کو اپنی پہچان بنایا۔ گاؤں کے ایک پڑھے لکھے شخص نے تاریخ کا مطالعہ کرکے بتایا کہ آغاز میں تو گدھوں کی آواز ڈھونچک ہی ہوتی تھی مگر بعد میں دوسرے جانوروں کے ساتھ میل جول بڑھنے سے گدھے اپنی اصل آواز بھول کر ڈھینچک ڈھینچک اور ڈھانچک ڈھانچک کرنے لگ گیے تھے جو کہ گدھوں کی لغت کے لحاظ سے غلط آوازیں تھیں۔ اس طرح گدھوں کے تیسرے گروپ نے اپنے مارچ کی جگہ اور وقت بھی دوسرے گروپوں سے الگ کرلیا اور صبح یا شام کی بجاے وہ دوپہر کو مارچ کرنے لگے۔ لہذا سردیوں کے مہینوں میں جب صبح جلدی اٹھنا مشکل لگتا تھا تو گاؤں کے بہت سے لوگ ان گدھوں کا مارچ دیکھنے لگے اور یوں اس گدھا گروپ نے سردیوں کے مہینے خوب عیاشیاں کیں مگر گرمیوں کی جلتی دوپہر میں کسی میں بھی ان گدھوں کا مارچ دیکھنے کی ہمت نہ ہوتی اور یہ بیچارے خود ہی گاؤں کے باہر ایک پارک میں مصروف رہتے۔ اس طرح ہر سال سردیوں میں تو ان کو خوب کھانے پینے کو ملتا اور وہ کافی فربہ ہوجاتے مگر گرمیوں میں بھوکے رہ رہ کے ان کی ہڈیاں نکل آتیں۔ جبکہ سارا کھانا پینا دوسرے دو گروپوں کو ملتا۔

یونہی دوسرے دو گروپوں نے بھی اپنے آپ کو منفرد کرنے کے لئے مختلف انداز کے مارچ اور بولنے کے اطوار متعارف کرواےٴ۔ مثلاً چوتھے گروپ کے گدھے سیدھا اگے یا پیچھے جانے کی بجاے پانچ قدم داییں کو چلتے اور پھر پانچ باییں کو، پھر پانچ داییں کو اور پھر پانچ باییں کو، یوں وہ سانپ کی طرح بل کھا کھا کے چلتے ہوے آگے جاتے۔ بولنے کے لئے انہوں نے ڈھنچ ڈھنچ کی آواز کا انتخاب کیا۔ ایک دوسرے پڑھے لکھے نے تاریخ کی کتابیں کھنگال کھنگال کر بتایا کہ گدھوں کی جو سب سے پرانی آوازیں صحرائی علاقوں میں ملی ہیں وہ ڈھنچ ڈھنچ ہی کی ہیں اور باقی ساری آوازیں بعد کی اختراعات ہیں۔ گدھوں کے پانچویں گروپ نے آگے یا پیچھے جانے کی بجاے ایک دایرے میں گھومنے کو اپنا شیوہ بنایا۔ اور اظہار کے لئے ڈھنچکوں ڈھنچکوں کی آواز اختیار کی۔ ایک عالم فاضل مصنف نے بہت تحقیق کے بعد گدھوں کی آوازوں پر ایک کتاب لکھی اور بتایا کہ ڈھنچکوں ڈھنچکوں ہی وہ آواز تھی جو گدھوں کی پوری زباندانی کی بنیاد ہے۔

یوں گدھوں کے یہ گروپ گاؤں کے چاروں اطراف میں پھیل گیے اور ہر وقت کسی نہ کسی کونے میں کوئی نہ کوئی گروپ مارچ کررہا ہوتا یا اپنے اپنے انداز سے آوازیں نکالتا رہتا۔ گاؤں کے بچے اتنے سارے گدھوں کو لے کے بہت خوش تھے کہ انہیں طرح طرح کی آوازیں سننے کا موقع ملتا تھا۔ وہ سارا سارا دن گاؤں کے ایک کونے سے دوسرے کونے کی طرف گدھوں کے پیچھے پیچھے بھاگے پھرتے۔ ان کو کھلاتے، پلاتے اور خوشبو لگاتے۔ بہت سے بچے گدھوں کی طرح مارچ کرتے،آوازیں نکالتے اور گدھوں کے ساتھ تصویریں بنا بنا کر ماں باپ کو دکھاتے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3