گھپ اندھیرے میں عید


برسوں سے معمول ہے کہ میں روزِ عید صبح سے سہہ پہر تک کمرہ بند کر کے مکمل تاریکی میں گزارتا ہوں۔ تاریکی میں وہ تمام اشیا بالکل صاف دکھائی دیتی ہیں جنہیں دھیان کو سینکڑوں کرچیوں میں بانٹتی روشنی دکھانے سے قاصر ہے۔ تاریکی ہی تو ٹائم مشین ہے۔

اس ٹائم مشین میں بیٹھتے ہی چھپن برس کا یہ آدمی پچاس برس کا سفر طے کر کے ایک چھ سالہ بچہ بن جاتا ہے۔ صحن میں چارپائیاں بچھی ہیں۔ سوائے اس بچے کے سب بے خبر سو رہے ہیں۔ آسمان کے تارے گن گن کے آنکھیں تھک چکی ہیں۔ بیسیوں کروٹیں بھی بدل لیں مگر نیند کیسے آئے۔

اس بچے کے لیے چاند رات سال کی طویل ترین شب ہے۔ صبح ہو گی تو نہا دھو کر نیا نکور سفید جھک شلوار قمیض، شہنیل کی نیلی واسکٹ اور نئے جوتے پہنے جائیں گے۔ باپ کب تیار ہو کہ جلدی جلدی اس کی انگلی پکڑ کے عید گاہ کی طرف لپکے۔ نماز سے زیادہ اس بچے کا دھیان نماز کے بعد ملنے والے شیر خرمے اور پھر ابا، اماں، دادی اور رشتے داروں، ہمسائیوں سے ملنے والی عیدی کی طرف ہے۔

پچھلی عید پر سب ملا کے اس بچے کے پاس سات روپے دو آنے جمع ہوئے تھے۔ ایک آنے کا تو چاندی کا ورق لگا میٹھا چورن کھا لیا، تین پیسے کا گولا گنڈہ، تین ہی پیسے کا تخمِ ملنگا کا ٹھنڈا صندلی شربت، ایک آنے کی کھوئے والی دل بہار قلفی، ایک آنے کی لال پنی والی عینک، ایک آنہ سجے ہوئے اونٹ کی سواری پے خرچ ہوا، ایک آنہ بائیسکوپ والے نے لیا اور مکہ مدینہ کی سیر کروائی اور آخری تین تصویروں میں حسینوں کے جلوے بھی دکھائے جن میں سنہرے بالوں والی ایک گوری سی لڑکی نے اپنی گردن میں بڑا سا سانپ ڈالا ہوا تھا۔

اس کے بعد ایک آنے میں بندر کا تماشا دیکھا۔ یہ تماشا اس لیے اہم تھا کہ پھر ہم سب بچے سارا سال بندر کی طرح قلابازیاں کھانے کی مشق کرتے۔ سب سے زیادہ پیسے پٹھان کی چھرے والی بندوق سے لکڑی کے کھانچے پر لگے غبارے پھوڑنے میں خرچ ہو جاتے۔ پچھلی عید پر میں نے پورے چار آنے کے بارہ غبارے پھوڑے۔

تین گلیاں چھوڑ کے پڑنے والے میدان میں ایک اور دنیا سجی ہے۔ ایک لمبے آہنی سریے سے جڑے نیزے کی انی مداری اپنے نرخرے پر رکھتا ہے۔ اس کا بچہ جمورا سریے کے دوسرے کونے سے اتنی طاقت سے زور لگاتا ہے کہ سریا مڑ کے دوہرا ہو جاتا ہے مگر نیزے کی انی مداری کے نرخرے کے آر پار نہیں ہوتی۔ ہم بچے مداری کی جان بچنے پر دل ہی دل میں شکر ادا کرتے اور تالیاں بجاتے بجاتے جمورے کے ہیٹ میں دس دس پیسے ڈال دیتے۔

پاکستان، عید

جب مداری کے اردگرد سے ہجوم چھٹا تو پتلیوں کے تماشے کا وقت ہو گیا۔ اینٹوں کے اسٹیج پر تین طرف چارپائیاں کھڑی کر کے ان پے سفید چادریں ڈال دی گئی ہیں۔ ایک ڈھولکی اور ہارمونیم والا سٹیج کے کونے پر بیٹھ گئے۔ چارپائی کے پیچھے پتلیاں نچانے والا چھپ کر بیٹھا اور پھر ڈھولکی کی تھاپ پر ایک چوبی پاٹے خان اسٹیج پر اترا۔ اس کے بعد پاٹے خان کی بیوی، پھر ایک ایک کر کے سب بچے اور اسٹیج پر موسیقی اور گانوں کے ساتھ پتلیوں کی دھما چوکڑی شروع۔ آدھے گھنٹے کے پتلی تماشے کے لیے دیکھنے والوں سے پہلے ہی چار چار آنے جمع کر لیے گئے۔ تاکہ کوئی مفت میں دیکھ کر بھاگ نہ جائے۔

یہ سب دیکھتے دکھاتے دوپہر ہو گئی مگر تھکن کہاں؟ ابھی تو اوپر نیچے جانے والے چوبی جھولے میں دو دو آنے دے کر کم ازکم دو بار بیٹھنا ہے، پھر سانپ اور نیولے کی لڑائی، پھر لاؤڈ سپیکر والے ٹھیلے سے ومٹو کولا پینا ہے۔ بڑا مزہ آتا ہے جب وہ لڑکا بوتلوں کے ڈھکن ایسے کھولتا کہ ڈھکن ٹین کی چھت سے ٹکرا کر پٹاخ پٹاخ کی آواز پیدا کرتے ہیں۔

میدان کے ایک کونے پر سب سے زیادہ پرہجوم بڑا سا دائرہ ہے۔ اس دائرے میں زیادہ تر جوان لڑکے یا ادھیڑ عمر لوگ ہیں۔ بیچ میں ایک باتونی آدمی کچھ نیولے جیسے جانور الٹے لٹا کر کوئی خاص تیل بیچ رہا ہے اور تصویری البم بھی دکھا رہا ہے۔ مجمع بت بنا اس تیل کے خواص سن رہا ہے۔ مگر ہم بچوں کو کوئی نہ کوئی محلے کا بڑا اس مجمع میں گھسنے سے روک دیتا ہے۔ یہ تمہارے سننے کی باتیں نہیں، جاؤ جھولوں میں بیٹھو۔

اور پھر یہ بچہ سہہ پہر کو گھر آ کے سو جاتا ہے۔ شام کو مہمان آنے لگیں گے اور پلاؤ اور شامی کباب کی خوشبو نتھنوں سے ٹکرانے سے آنکھ کھل جائے گی۔ مگر اس بچے کو انتظار ہے کہ کب کھانا ختم ہو اور کب وہ چاندی کے ورق سے سجی فیرنی کھائے۔ اس فیرنی کا ذائقہ سال بھر اس کی زبان پر رہے گا۔ جو پیسے بچ گئے وہ گلک میں ڈال دیے گئے۔ اس کے بعد سب کچھ دھندلانے لگتا ہے اور ٹائم مشین پھر سے اس بچے کو آج میں لا کے چھوڑ دیتی ہے۔

آج اس چھپن سال کے آدمی کے بچے جب پوچھتے ہیں بابا آپ پچھلے کئی برس سے عید کا آدھا دن کمرے میں بند کیوں ہو جاتے ہیں۔ تو یہ آدمی انہیں کیا سمجھائے کیا بتائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).